Tafseer-e-Jalalain - Al-Qalam : 51
وَ اِنْ یَّكَادُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَیُزْلِقُوْنَكَ بِاَبْصَارِهِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّكْرَ وَ یَقُوْلُوْنَ اِنَّهٗ لَمَجْنُوْنٌۘ
وَاِنْ يَّكَادُ : اور بیشک قریب ہے کہ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا لَيُزْلِقُوْنَكَ : البتہ پھیلا دیں گے آپ کو بِاَبْصَارِهِمْ : اپنی نگاہوں سے لَمَّا سَمِعُوا : جب وہ سنتے ہیں الذِّكْرَ : ذکر کو وَيَقُوْلُوْنَ : اور وہ کہتے ہیں اِنَّهٗ لَمَجْنُوْنٌ : بیشک وہ البتہ مجنون ہے
اور کافر جب (یہ) نصیحت (کی کتاب) سنتے ہیں تو یوں لگتے ہیں کہ تم کو اپنی نگاہوں سے پھسلا دیں گے اور کہتے ہیں کہ یہ تو دیوانہ ہے
وان یکاد الذین کفروا لیزلقونک بابصارھم، لیزلقونک، ازلاق سے مشتق ہے جس کے معنی پھسلانے اور گرا دینے کے ہیں، مطلب یہ کہ کفار مکہ آپ ﷺ کو غضبناک اور ترچھی نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ آپ ﷺ کو اپنی جگہ اور مقام سے لغزش دیدیں یعنی کار رسالت سے روک دیں، چناچہ جب وہ اللہ کا کلام سنتے ہیں تو کہنے لگتے ہیں کہ ” یہ تو مجنون ہے “۔ (معارف) اس کا ایک مطلب یہ بھی بیان کیا ہے کہ، یعنی اگر تجھے اللہ کی حمایت اور حفاظت حاصل نہ ہوتی تو ان کفار کی حاسدانہ نظروں سے تو نظر بد کا شکار ہوجاتا یعنی ان کی نظر تجھے لگ جاتی امام ابن کثیر نے اس کا یہی مطلب لیا ہے، مزید لکھتے ہیں کہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ نظر کا لگ جانا اور اس کا اللہ کے حکم سے اثر انداز ہونا حق ہے، جیسا کہ متعدد احادیث سے بھی ثابت ہے، چناچہ احادیث میں اس سے بچنے کے لئے دعائیں بھی بیان کی گئی ہیں، اور یہ بھی تاکید کی گئی ہے کہ جب تمہیں کوئی چیز اچھی لگے تو ” ماشاء اللہ “ یا ” بارک اللہ “ کہا کرو، تاکہ اسے نظر بد نہ لگے، اسی طرح اگ کسی کو کسی کی نظر لگ جائے تو فرمایا : اسے غسل کروا کر اس کا پانی اس شخص پر ڈالا جائے جس کو اس کی نظرلگی ہے۔ وذکر الماوردی ان العین کانت فی بنی اسد من العرب، ماوردی نے ذکر کیا ہے کہ نظر بدبنی اسد میں زیادہ تھی، اور ان میں جب کوئی شخص کسی کو یا کسی کے مال کو نظر لگانا چاہتا تو تین روز تک خود کو بھوکا رکھتا پھر وہ اس شخص یا اس مال کے پاس جاتا جس کو نظر لگانی مقصود ہوتی اور اس کے بارے میں پسندیدہ الفاظ کہتا، اور تعریف و توصیف کرتا تو اس شخص یا مال کو نظر لگ جاتی اور ہلاک و برباد ہوجاتا۔ (صاوی، جمل) وان یکاد الذین کفروا لیزلقونک بابصارھم لما سمعوالذکر و یقولون انہ لمجنون اگر مذکورہ آیت کو پانی پر دم کر کے پلایا جائے یا دم کیا جائے تو ازالہ نظر بد کے لئے مجرب ہے۔ (صاوی) امام بغوی وغیرہ مفسرن نے ان آیات کا ایک خاص واقعہ بھی نقل کیا ہے کہ انسان کی نظر بد لگ جانا اور اس سے کسی کو نقصان اور بیماری بلکہ ہلاکت تک پہنچ جانا جیسا کہ حقیقت ہے اور احادیث صحیحہ میں اس کا حق ہونا وارد ہے، مکہ میں ایک شخص نظر لگانے میں بڑا مشہور و معروف تھا، اونٹوں اور جانوروں کو نظر لگا دیتا تو وہ (اللہ کے حکم سے) فوراً مرجاتے، کفار مکہ کو آپ ﷺ سے عداوت تو تھی ہی اور ہر طرح کی کوشش آپ ﷺ کو قتل کرنے اور ایذا پہنچانے کی کیا کرتے تھے، ان کو یہ سوجھی کہ اس شخص سے رسول اللہ ﷺ کو نظر لگوائیں اور اس شخص کو بلایا، اس نے نظر لگانے کی پوری کوشش کرلی مگر اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی حفاظت فرمائی یہ آیات اسی سلسلہ میں نازل ہوئیں۔ حضرت حسن بصری (رح) تعالیٰ سے منقول ہے کہ جس شخص کو نظر بد کسی شخص کی لگ گئی ہو تو اس پر ان آیات کو پڑھ کر دم کردینا اس کے اثر کو زائل کردیتا ہے یعنی وان یکاد الذین سے آخر تک۔ (معارف القرآن مظہری) بحمدتم اللہ
Top