Tafseer-e-Madani - Al-Qalam : 51
وَ اِنْ یَّكَادُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَیُزْلِقُوْنَكَ بِاَبْصَارِهِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّكْرَ وَ یَقُوْلُوْنَ اِنَّهٗ لَمَجْنُوْنٌۘ
وَاِنْ يَّكَادُ : اور بیشک قریب ہے کہ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا لَيُزْلِقُوْنَكَ : البتہ پھیلا دیں گے آپ کو بِاَبْصَارِهِمْ : اپنی نگاہوں سے لَمَّا سَمِعُوا : جب وہ سنتے ہیں الذِّكْرَ : ذکر کو وَيَقُوْلُوْنَ : اور وہ کہتے ہیں اِنَّهٗ لَمَجْنُوْنٌ : بیشک وہ البتہ مجنون ہے
اور کافر لوگ جب اس ذکر (قرآن) کو سنتے ہیں تو ایسے لگتا ہے جیسا کہ اکھاڑ دیں گے یہ لوگ آپ کے قدم اپنی (ٹیڑھی ترچھی) نگاہوں سے اور کہتے ہیں کہ یہ شخص تو پکا دیوانہ ہے
45 منکرین کے ‘ پیغام حق سے نفرت اور بغض وعناد کی تصویر کا ذکر وبیان : سو اس ارشاد سے منکرین کے پیغام حق و ہدایت سے نفرت اور ان کے بغض وعناد کی تصویر پیش فرمائی گئی ہے کہ یہ لوگ پیغمبر کو اس طرح کی ٹیڑھی ترچھی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ ان کے شدت بغض وعناد کی وجہ سے ‘ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو یہ لوگ جب قرآن سنتے ہیں تو آپ کی طرف اس طرح گھورتے اور ایسی تیزی نگاہوں سے دیکھتے ہیں ‘ جس سے یوں لگتا ہے کہ یہ اپنی ان تیز نگاہوں کے زور سے آپ ﷺ کو دھکیل کر آپ کے مقام سے پھسلا دیں گے ‘ سو اس آیت کریمہ کا تعلق بھی صبر و ثبات کے اسی مضمون سے ہے ‘ جو اوپر فاصبر لحکم ربک میں بیان ہوا ہے ‘ یعنی حالات اگرچہ نہایت سخت ہیں اور ان لوگوں کے بغض وعناد کا حال ایسا اور ایسا ہے ‘ لیکن آپ ﷺ پھر بھی صبر و ثبات اور عزم و استقامت ہی سے کام لیں ‘ اور اپنے موقف پر ڈٹے اور پکے رہیں ‘ کہ آپ تو بہرحال حق پر ہیں۔ سو اس سے دشمنان حق کی اسلام اور حآملین اسلام سے دشمنی اور ان کے بغض وعناد کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ یہ لوگ آپ کو اس طرح دیکھتے ہیں کہ گویا کہ یہ لوگ اکھاڑ دیں گے آپ کے قدم ‘ اپنی ٹیڑھی ترچھی نغا ہوں سے جیسا کہ اردو محاورے میں بھی استعمال ہوتا ہے کہ فلاں شخص ایسے دیکھتا ہے جیسا کہ کھاجائے گا ‘ علامہ ابن کثیر کہتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں نظر لگنے اور اس کی تاثیر کی صریح دلیل موجود ہے ‘ جیسا کہ یہ بات بہت سی صحیح احادیث سے بھی ثابت ہے ‘ پھر آپ نے ایسی تمام روایات کو تفصیل کے ساتھ اپنی تفسیر میں ذکر فرما دیا ‘ تفصیل کے طالب وہاں دیکھ سکتے ہیں ‘ اور حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ جس کو نظر لگ جائے تو اس کو یہ آیت کریمہ پڑھ کر دم کیا جائے تو اس کا اثر جاتا رہے گا (خازن ‘ مظہری ‘ معارف وغیرہ) بہرکیف اس سے منکرین کی حادسانہ تیز نگاہی کی تصویر پیش فرمائی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے ‘ آمین۔ 46 منکرین کا پیغمبر پر جنون کا الزام۔ والعیاذ باللہ۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ شخص پکا دیوانہ ہے۔ یعنی محمد رسول اللہ ﷺ جنہوں نے دنیا کے سامنے اس کتاب حق و ہدایت اور نور مبین کو پیش فرمایا۔ ﷺ مگر ان بدبختوں کا آپ ﷺ کے بارے میں کہنا تھا کہ یہ شخص پکا دیوانہ ہے کہ یہ ایسی باتیں کہتا ہے جو ہماری عقل میں آنے والی نہیں ہیں ‘ مثلاً یہ کہ جب ہم مرمٹ کر ہڈیوں کا چورا بن کر رہ جائیں گے ‘ تو ہمیں ازسرنو دوبارہ زندہ کرکے اٹھایا جائے گا ‘ بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ وغیرہ ‘ سو یہ قرآن حکیم جو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سب سے بڑٔ نعمت ہے ‘ وہ منحوس لوگ اسی کی بناء پر آپ کو پکار کر مجنوں کہتے تھے ‘ والعیاذ باللہ۔ چناچہ دوسرے مقام پر ان کی اس یا وہ گوئی اور بیہودہ کلامی کو اسطرح نقل فرمایا گیا ہے : " وقالوا یا ایھا الذی نزل علیہ الذکر انک لمجنون " (الحجر۔ 6) والعیاذ باللہ العظیم۔ سو یہیں سے اس بات کا بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جب اللہ کے نبی ‘ اور نبیوں کے امام نبی بھی لوگوں کے طعن وتشنیع اور ایسی دل آزار و دکھ دہ باتوں سے نہیں بچ سکے تو پھر اور کون بچ سکتا ہے ‘ پس اس بات کی کبھی فکر و کوشش نہیں ہونی چاہئے کہ مجھے سب اچھا کہیں کہ ایسا نہ کبھی ہوا ہے ‘ نہ ہوسکتا ہے ‘ بلکہ فکر و کوشش ہمیشہ اس بات کی ہونی چاہئے کہ میرا راستہ صحیح ہو اور میرا تعلق اپنے خالق ومالک سے درست ہو ‘ اور اس کی خاطر رحمت و عنایت مجھ پر سایہ فگن رہے اس کے بعد مجھے کسی کی کوئی پروا نہیں۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید ‘ ولی مایحب ویرید وھو الباری الی سواء السبیل۔
Top