Jawahir-ul-Quran - Maryam : 88
وَ قَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًاؕ
وَقَالُوا : اور وہ کہتے ہیں اتَّخَذَ : بنالیا ہے الرَّحْمٰنُ : رحمن وَلَدًا : بیٹا
اور لوگ کہتے ہیں رحمان رکھتا ہے اولاد61
61:۔ یہ شکوی ہے۔ سورة کہف کی ابتداء میں فرمایا ” ویُنْذِرَ الَّذِیْنَ قَالُوْا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا “ یعنی ان لوگوں کو زجر و تخویف سنائی جو اللہ کے سوا اوروں کو نائب و متصرف سمجھتے تھے اس کے بعد سورة کہف اور مریم میں مشرکین کے شبہات کا ازالہ کیا گیا اب آخر میں ازالہ شبہات کے بعد سورة کہف والے شکوے کا اعادہ کیا گیا ہے تاکہ یہ بات واضح ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی نائب نہیں اور اللہ کے سوا اوروں کو متصرف اور کارساز سمجھنا بہت بڑا جرم ہے اور ولد سے یہاں ولد حقیقی مراد نہیں ہے بلکہ نائب اور سفارشی مراد ہے جیسا کہ ” اتخذ “ کی تعبیر بتا رہی ہے۔ ” لَقَدْ جِئْتُمْ شَیْئًا اِدًّا “ سے ” اَنْ یَّتَّخِذَ وَلَدًا “ تک مشرکین کے قول مذکور کی شناعت و قباحت کو نہایت زور دار الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ ” شَیْئًا اِدًّا “ بہت بڑی بھاری بات۔ المنکر العظیم۔ ” ھَدًّا “” تَخِرُّ “ کا مفعول مطلق من غیر لفظہ ہے۔ ” اَنْ دْعُوْا “ سے پہلے لام تعلیلیہ مقدر ہے ای لان دعوا۔ حاصل یہ کہ انہوں نے ایسی شنیع اور گستاخانہ بات منہ سے نکالی ہے کہ اسے سن کر اگر آسمان پھٹ پڑیں، زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں تو کچھ بعید نہیں۔ اس گستاخانہ بات پر اگر غضب الٰہی بھڑک اٹھے تو سارا نظام عالم درہم برہم ہوجائے۔
Top