Jawahir-ul-Quran - An-Naml : 76
اِنَّ هٰذَا الْقُرْاٰنَ یَقُصُّ عَلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اَكْثَرَ الَّذِیْ هُمْ فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ
اِنَّ : بیشک هٰذَا : یہ الْقُرْاٰنَ : قرآن يَقُصُّ : بیان کرتا ہے عَلٰي بَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل پر اَكْثَرَ : اکثر الَّذِيْ : وہ جو هُمْ : وہ فِيْهِ : اس میں يَخْتَلِفُوْنَ : اختلاف کرتے ہیں
یہ قرآن65 سناتا ہے بنی اسرائیل کو بہت چیزیں جس میں وہ جھگڑ رہے ہیں
65:۔ یہ جملہ معترضہ ہے اور اس سے حضرت نبی اکرم ﷺ کی صداقت کا بیان مقصود ہے۔ یعنی یہ قرآن بہت سے ایسے مسائل کا صحیح صحیح فیصلہ کرتا ہے جن میں بنی اسرائیل آپس میں مختلف تھے اور کوئی حتمی فیصلہ نہ کر پاتے تھے۔ مثلاً حضرت مسیح اور حضرت مریم کے بارے میں ان کا اختلاف وہ ان کے بارے میں افراط وتفریط میں گرفتار تھے قرآن نے اس معاملے میں افراط وتفریط کے درمیان صحیح راہ بتائی۔ یہودی ان کو برا جانتے تھے اور طعن کرتے تھے۔ عیسائی ان کو خدا اور خدا کا بیٹا اور دونوں کو کارساز سمجھتے تھے قرآن نے دونوں نظریوں کو باطل ٹھہرا کر صحیح فیصلہ دیا کہ وہ دونوں ہمارے نیک اور برگزیدہ بندے ہیں وہ نہ خدا ہیں، نہ خدا کے نور سے ہیں اور نہ کارساز ہیں ایسے امور غیبیہ صحیح صحیح بتا دینا یہحضور ﷺ کے صدق نبوت کی دلیل ہے۔
Top