Tadabbur-e-Quran - An-Naml : 76
اِنَّ هٰذَا الْقُرْاٰنَ یَقُصُّ عَلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اَكْثَرَ الَّذِیْ هُمْ فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ
اِنَّ : بیشک هٰذَا : یہ الْقُرْاٰنَ : قرآن يَقُصُّ : بیان کرتا ہے عَلٰي بَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل پر اَكْثَرَ : اکثر الَّذِيْ : وہ جو هُمْ : وہ فِيْهِ : اس میں يَخْتَلِفُوْنَ : اختلاف کرتے ہیں
بیشک یہ قرآن بنی اسرائیل پر بھی ان بہت سی چیزوں کو واضح کر رہا ہے جن میں وہ اختلاف کر رہے ہیں
آیت 78-72 یہ اشارہ یہود کی طرف ہے۔ اصلاً تو یہ سورة قریش کے جواب میں ہے اس لئے کہ دعوت کے ابتدائی دور میں قرآن کے دوسرے مخالفین … یہود وغیرہ صرف دور کے تماشائی تھے لیکن دعوت کے قدم جتنے ہی آگے بڑھتے گئے آہستہ آہستہ یہود نے بھی پس پردہ قریش کی حمایت شروع کردی۔ چناچہ قرآن نے بھی ان سے تعرض شروع کردیا۔ ابتداء تو ان کا ذکر اشارات ہی کی شکل میں ہوا لیکن پھر بالتدریج جس طرح وہ کھلتے گئے اسی طرح قرآن کا انذار بیان بھی کھلتا گیا۔ یہاں تک کہ وہ بھی پوری طرح بینقاب ہو کر سامنے آگئے۔ زیر بحث آیات میں ان کی طرف ایک اجمالی اشارہ ہے۔ بعد کی سورتوں میں آپ دیکھیں گے کہ بالتدریج یہ احمال تفصیل کا رنگ اختیار کرے گا۔ یہود کے معاملہ میں یہی انذار بحث پچھلے گروپوں میں بھی رہا ہے۔ فرمایا کہ قرآن جس طرح نبی اسماعیل (قریش) پر اتمام حجت کر رہا ہے اسی طرح یہ بنی اسرائیل پر بھی ان بہت سے حقائق کو واضح کر رہا ہے جن سے وہ اختلاف میں پڑ کر محروم ہوگئے تھے وانہ لھدی و رحمۃ للمومنین یعنی اگر وہ اس پر ایمان لانے والے بنیں تو یہ ان کو اختلافات کی بھول بھلیوں سے نکال کر دین کی صراط مستقیم پر لائے گا اور ان کے لئے دنیا و آخرت دونوں میں موجب رحمت ہوگا ان ربک یقضی بینھم مکہ یعنی اگر انہوں نے اس قرآن کی قدر نہ پہچانی اور اس کی رہنمائی نہ قبول کی تو یاد رکھیں کہ آج تک اللہ تعالیٰ ان کے اختلافات اس کتاب کے ذریعہ سے رفع کرنا چاہتا ہے لیکن اس کے بعد وہ دن بھی آنے والا ہے جس میں وہ اپنے حکم ناطق کے ذریعہ سے ان کے درمیان فیصلہ فرمائے گا۔ یہاں واضح قرینہ موجود ہے کہ یہ بات روز قیامت سے متعلق فرمائی گی ہے اور حکم سے مراد وہ حتمی و آخری فیصلہ ہے جس کے بعد کسی کے لئے زبان کھولنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہے گی۔ ”ھو العزیز العلیم یہ اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات کا حوالہ دیا ہے کہ یہود یاد رکھیں کہ اللہ عزیز وعلیہم ہے نہ کوئی اس کا ہاتھ پکڑ سکتا اور نہ کوئی چیز اس سے محفی ہے۔ یہی ممضون بعینیہ اسی طرح کے موقع و محل میں سورة یونس میں بھی گزر چکا ہے۔ فرمایا ہے۔ آیت (یونس 93) اور ہم نے بنی اسرائیل کو عزت و استحکام کا مقام بخشا اور ان کو اپنے پاکیزہ رزق و فضل سے نوازا تو علم پانے کے بعد انہوں نے اس میں اختلاف پیدا کیا۔ بیشک تمہارا رب قیامت کے دن ان چیزوں کے باب میں ان کے درمیان فیصلہ فرمائے گا جن میں وہ اختلاف کرتے رہے ہیں۔ سورة ہود میں یہی مضمون اس طرح آیا ہے۔ سورة ہود میں یہی مضمون اس طرح آیا ہے۔ (آیات ھود :110) اور ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی تو اس میں اختلاف پیدا کردیا گیا اور اگر تیرے رب کی طرف سے ایک بات پہلے طے نہ ہوچکی ہوتی تو ان کے درمیان فیصلہ کردیا جاتا اور بیشک وہ اس کی طرف سے ایک الجھن میں ڈال دینے والے شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ یہاں جس اختلاف کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے اس کی وضاحت سورة یونس اور سورة ہود کی مذکورہ بالا آیات کے تحت بھی ہوچکی ہے اور سورة بقرہ کی تفسیر میں بھی۔ تو رات کے متعلق یہ بات یاد رکھیے کہ اس میں صرف تحریف ہیں ہیں ہوئی ہے بلکہ وہ متناقض روایات کا مجموعہ بھی ہے۔ اس سے یہ پتہ چلانا ناممکن ہے کہ اس میں کتنا حصہ حق ہے اور کتنا باطل و معروف تو رات کے اس طرح مسخ ہو انے کے سبب سے یہود خدا کی دی ہوئی روشنی سے محروم ہو کر بالکل تاریکی میں گھر گئے تھے۔ قرآن نے ان کو اس تاریکی سے نکال کر روشنی میں لانا چاہا لیکن انہوں نے اس روشنی کی قدر کرنے کے بجائے اس کو بجھانے کی کوشش کی۔
Top