Jawahir-ul-Quran - Al-Ghaafir : 34
وَ لَقَدْ جَآءَكُمْ یُوْسُفُ مِنْ قَبْلُ بِالْبَیِّنٰتِ فَمَا زِلْتُمْ فِیْ شَكٍّ مِّمَّا جَآءَكُمْ بِهٖ١ؕ حَتّٰۤى اِذَا هَلَكَ قُلْتُمْ لَنْ یَّبْعَثَ اللّٰهُ مِنْۢ بَعْدِهٖ رَسُوْلًا١ؕ كَذٰلِكَ یُضِلُّ اللّٰهُ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ مُّرْتَابُۚۖ
وَلَقَدْ : اور تحقیق جَآءَكُمْ : آئے تمہارے پاس يُوْسُفُ : یوسف مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل بِالْبَيِّنٰتِ : ( واضح) دلائل کے ساتھ فَمَا زِلْتُمْ : سو تم ہمیشہ رہے فِيْ شَكٍّ : شک میں مِّمَّا : اس سے جَآءَكُمْ : آئے تمہارے پاس بِهٖ ۭ : اس کے ساتھ حَتّىٰٓ : یہاں تک کہ اِذَا هَلَكَ : جب وہ فوت ہوگئے قُلْتُمْ : تم نے کہا لَنْ يَّبْعَثَ : ہرگز نہ بھیجے گا اللّٰهُ : اللہ مِنْۢ بَعْدِهٖ : اس کے بعد رَسُوْلًا ۭ : کوئی رسول كَذٰلِكَ : اسی طرح يُضِلُّ اللّٰهُ : گمراہ کرتا ہے اللہ مَنْ : جو هُوَ : وہ مُسْرِفٌ : حد سے گزرنے والا مُّرْتَابُۨ : شک میں رہنے والا
اور42 تمہارے پاس آچکا ہے یوسف اس سے پہلے کھلی باتیں لے کر پھر تم رہے دھوکے ہی میں ان چیزوں سے جو وہ تمہارے پاس لیکر آیا یہاں تک کہ جب مرگیا لگے کہنے ہرگز نہ بھیجے گا اللہ اس کے بعد کوئی رسول اسی طرح بھٹکاتا ہے اللہ اس کو جو ہو بےباک شک کرنے والا
42:۔ ” ولقد جاء کم یوسف “ اب مومن نے اپنی قوم کو ان کی گذشتہ بد اعمالیوں پر کوسنا شروع کیا۔ فرمایا : موسیٰ (علیہ السلام) سے پہلے حضرت یوسف (علیہ السلام) بھی اسی ملک مصر میں دلائل و معجزات کے ساتھ تمہارے پاس آچکے ہیں، تو اس وقت بھی تم ان کی رسالت اور اللہ کی وحدانیت کے بارے میں شکوک و شبہات کی بیماری میں مبتلا رہے اور تم نے ان کو نہ مانا، یہانتک کہ جب ان کی وفات ہوگئی تو تم ان کی نبوت کے تو تم پہلے ہی سے قائل نہ تھے، لیکن ان کیو فات کے بعد تم نے صاف صاف کہنا شروع کردیا کہ ہمیشہ کے لیے یہ جھگڑا ختم ہوگیا۔ ” کذلک الخ “ کاف بمعنی لام تعلیلیہ ہے، اسی وجہ سے یعنی اللہ کی توحید میں شک کرنے کی وجہ سے حد سے گذرنے والوں اور شک میں پڑنے والوں کو ہدایت نہیں دیتا گمراہی میں ڈالے رکھتا ہے۔ قالہ الشیخ قدس سرہ۔
Top