Al-Qurtubi - An-Nahl : 42
وَ لَقَدْ جَآءَكُمْ یُوْسُفُ مِنْ قَبْلُ بِالْبَیِّنٰتِ فَمَا زِلْتُمْ فِیْ شَكٍّ مِّمَّا جَآءَكُمْ بِهٖ١ؕ حَتّٰۤى اِذَا هَلَكَ قُلْتُمْ لَنْ یَّبْعَثَ اللّٰهُ مِنْۢ بَعْدِهٖ رَسُوْلًا١ؕ كَذٰلِكَ یُضِلُّ اللّٰهُ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ مُّرْتَابُۚۖ
وَلَقَدْ : اور تحقیق جَآءَكُمْ : آئے تمہارے پاس يُوْسُفُ : یوسف مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل بِالْبَيِّنٰتِ : ( واضح) دلائل کے ساتھ فَمَا زِلْتُمْ : سو تم ہمیشہ رہے فِيْ شَكٍّ : شک میں مِّمَّا : اس سے جَآءَكُمْ : آئے تمہارے پاس بِهٖ ۭ : اس کے ساتھ حَتّىٰٓ : یہاں تک کہ اِذَا هَلَكَ : جب وہ فوت ہوگئے قُلْتُمْ : تم نے کہا لَنْ يَّبْعَثَ : ہرگز نہ بھیجے گا اللّٰهُ : اللہ مِنْۢ بَعْدِهٖ : اس کے بعد رَسُوْلًا ۭ : کوئی رسول كَذٰلِكَ : اسی طرح يُضِلُّ اللّٰهُ : گمراہ کرتا ہے اللہ مَنْ : جو هُوَ : وہ مُسْرِفٌ : حد سے گزرنے والا مُّرْتَابُۨ : شک میں رہنے والا
اور پہلے یوسف بھی تمہارے پاس نشانیاں لے کر آئے تھے تو وہ جو لائے تھے اس سے تم ہمیشہ شک ہی میں رہے، یہاں تک کہ جب وہ فوت ہوئے تو تم کہنے لگے کہ خدا اس کے بعد کبھی کوئی پیغمبر نہیں بھیجے گا، اسی طرح خدا اس شخص کو گمراہ کردیتا ہے جو حد سے نکل جانے والا اور شک کرنے والا ہو
( ولقد جاء کم یوسف۔۔۔۔۔۔ ) ولقد جاء کم یوسف من قبل بالبینت ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ موسیٰ (علیہ السلام) کا قول ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ آل فرعون کے مومن کی نصیحت کا کلمہ ہے انہیں یاد دلایا کہ وہ انبیاء پر پہلے بھی سرکشی کرتے آتے ہیں یہ ارادہ کیا کہ حضرت یوسف بن یعقوب (علیہما السلام) ان کے پاس بینات لائے :” ارباب متفرقون خیر ام اللہ الواحد القھار۔ “ (یوسف) ابن جریج نے کہا : اس سے مراد حضرت یوسف بن یعقوب ہیں اللہ تعالیٰ نے جنہیں قبطیوں کی طرف بھیجا تھا جبکہ بادشاہ فوت ہوچکا تھا یہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے پہلے ہوا، بینات سے مراد خواب ہیں (1) حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : اس سے مراد یوسف بن افرائیم ہیں۔ حضرت یوسف بن یعقوب ان کے درمیان بیس سال تک نبی کی حیثیت سے مقیم رہے نقاش نے ضحاک سے روایت نقل کی ہے : اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف جنوں میں سے ایک رسول بھیجا جسے یوسف کہا جاتا ہے (2) وہب بن منبہ نے کہا : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا فرعون حضرت یوسف کا ہی فرعون تھا اسے طویل عمر دی گئی تھی (3) دوسرے علماء کہتے ہیں وہ کوئی اور تھا۔ نحاس نے کہا : آیت میں کوئی ایسی دلیل نہیں جو اس بات پر دلالت کرے کہ وہ وہی فرعون تھا کیونکہ جب نبی بنیات لایا ان کے لیے جو اس کے ساتھ ہیں اور ان کے لیے جو ان کے بعد ہیں تو وہ ان سب کے پاس لایا تو سب لازم ہے کہ وہ ان کی وجہ سے اس کی تصدیق کریں۔ 1 ؎۔ تفسیر الماوردی، جلد 5، صفحہ 155 فمازلم فی شک مما جاء کم بہ یعنی تمہارے اسلاف شک میں تھے حتی اذا ھلک قلتم لن یبعث اللہ من بعدہٖ رسولاً یعنی جو رسالت کا دعویٰ کرے کذلک یضل اللہ اس گمراہی کی طرح یضل اللہ من ھومسرف مسرف سے مرادمشرک ہے مرتاب جو اللہ تعالیٰ کی واحدانیت میں شک کرے۔ الذین یجادلون فی ایت اللہ یعنی غالب دلائل۔ بغیر سلطن بغیر حجت اور برہان کے الدین یہ من سے بدل ہونے کی حیثیت میں محل نصب میں ہے۔ زجاج نے کہا : اسی طرح اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو گمراہ کردیتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی آیات میں مجادلہ کرتا ہے الذین محل نصب میں ہے کہا یہ بھی جائز ہے کہ یہ مرفوع ہو تقدیر کلام ھم الذین ہے، یا یہ مبتداء ہو اور خبر کبرمقتا ہو پھر کہا گیا : یہ آل فرعون کے مومن کا قول ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اللہ تعالیٰ کی جانب سے خطاب کا آغاز ہے مقتا بیان کے طور پر منصوب ہے یعنی کبر جدالھم مقتا جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : کبرت کلمۃ (الکہف : 5) مقت اللہ سے مراد ہے اللہ تعالیٰ کا ان کی مذمت کرنا، اللہ تعالیٰ کا انہیں اپنی رحمتوں سے دور کرنا اور ان پر عذاب کو نازل کرنا۔ کذلک یطبع اللہ علی کل قلب متکبر جبار۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے ان جھگڑا کرنے والوں کے دلوں پر مہر لگائی اسی طرح اللہ تعالیٰ ہر متکبر جبار کے دل پر مہر لگا دیتا ہے یہاں تک کہ وہ ہدایت کو سمجھتا نہیں اور حق کو قبول نہیں کرتا۔ عام قرأت علی کل قلب متکبر ہے یعنی قلب، متکبر کی طرف مصاف ہے، ابو حاتم اور ابو عبید نے اسے پسند کیا ہے کلام میں حذف ہے تقدیر کلام یوں ہے کذلک یطبع اللہ علی کل قلب علی کل متکبر جبار دوسرا کل حذف کردیا گیا کیونکہ اس سے پہلے وہ گزر چکا ہے جو اس پر دلالت کرتا ہے جب کل کو حذف نہ کیا جائے تو معنی درست نہیں رہتا کیونکہ اس کا معنی بنتا ہے کہ وہ اس کے تمام دل پر مہر لگا دیتا ہے معنی اس طرح نہیں معنی اس کا یہ ہے کہ وہ متکبرین جبارین کے دلوں میں سے ایک ایک دل پر مہر لگا دیتا ہے ابو دائود کا قول بھی کل کے حدف پر دلالت کرتا ہے : 1 ؎۔ تفسیر ز الماوردی، جلد 5، صفحہ 155 2 ؎۔ ایضاً 3 ؎۔ تفسیر الکشاف، جلد 4، صفحہ 166 اکل امرلی تحسبین امرا ونار توقد باللیل نارا کیا تو ہر انسان کو انسان گمان کرتا ہے اور یہ آگ جو رات کو روشن ہوتی ہے تو اسے ضیافت کی آگ سمجھتا ہے۔ حضرت ابن مسعود کی قرأت میں علی قلب کل متکبر ہے یہ قرأت تفسیر اور اضافت کی بناء پر ہے اور عمرو، ابن محیصن اور ابن ذاکو ان نے اہل شام سے قلب نقل کی ہے کہ متکبر قلب کی صفت ہے، قلب سے مراد پوری ذات ہے کیونکہ دل تکبر کرتا ہے اور باقی اعضاء اس کے تابع ہوتے ہیں اسی وجہ سے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ان فی الجسد لمفغۃ اذا صلحت صلح الجسد کلہ واذا فسدت فسد الجسد کلہ الاوھی ھی القلب (1) بیشک جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے جب وہ درست ہوجائے تو سارا جسم درست ہوجاتا ہے اور جب وہ فاسد ہوجائے تو تمام جسم فاسد ہوجاتا ہے خبردار ! وہ دل ہے۔
Top