Jawahir-ul-Quran - Al-Maaida : 16
یَّهْدِیْ بِهِ اللّٰهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهٗ سُبُلَ السَّلٰمِ وَ یُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ بِاِذْنِهٖ وَ یَهْدِیْهِمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ
يَّهْدِيْ : ہدایت دیتا ہے بِهِ : اس سے اللّٰهُ : اللہ مَنِ اتَّبَعَ : جو تابع ہوا رِضْوَانَهٗ : اس کی رضا سُبُلَ : راہیں السَّلٰمِ : سلامتی وَيُخْرِجُهُمْ : اور وہ انہیں نکالتا ہے مِّنَ : سے الظُّلُمٰتِ : اندھیرے اِلَى النُّوْرِ : نور کی طرف بِاِذْنِهٖ : اپنے حکم سے وَيَهْدِيْهِمْ : اور انہیں ہدایت دیتا ہے اِلٰي : طرف صِرَاطٍ : راستہ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھا
ظاہر کرنے والی41 جس سے اللہ ہدایت کرتا ہے اس کو جو تابع ہوا اس کی رضا کا سلامتی کی راہیں اور ان کو نکالتا ہے اندھیروں سے روشنی میں اپنے حکم سے اور ان کو چلاتا ہے سیدھی راہ
41 قَدْ جَاءَکُمْ مِّنَ اللہِ نُورٌ وَّ کِتَابٌ مُّبِیْنٌ۔ اس آیت میں نور سے مراد کتاب مبین یعنی قرآن مجید ہے اور عطف تفسیری ہے۔ والمراد بہ و بقولہ کتاب مبین القرآن لما فیہ من کشف ظلمات الشرک والشک وابانۃ ما خفی علی الناس من الحق والاعجاز البین والعطف لتنزیل المغایرۃ بالعنوان ؟ المغایرۃ بالذات (ابو السعود ج 3 ص 543) یعنی نور اور کتاب سے قرآن مراد ہے کیونکہ اس سے شرک و شبہات کے اندھیرے دور ہوتے ہیں اور لوگوں پر حق واضح ہوتا ہے۔ باقی رہی یہ بات کہ معطوف علیہ اور معطوف میں تغایر ضروری ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ تغایر فی العنوان کافی ہے۔ اس کے بعد کتاب کی تین صفتیں بیان فرمائی۔ اول یَھْدِیْ بِہِ اللہُ الخ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہٗ ۔ یَھْدِیْ کا مفعول اول ہے۔ اور سُبُلَ السَّلَامِ اس کا مفعول ثانی ہے۔ جو لوگ اللہ کی رضامندی کے متلاشی ہیں ان کو وہ اس کتاب کے ذریعہ سلامتی کی راہوں تک پہنچا دیتا ہے جن پر چل کر وہ اللہ کی رضا حاصل کرسکتے ہیں۔ دوئم۔ وَیُخْرِجُھُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ اور اپنی توفیق اور تائید سے ان کو شرک و گمراہی کے اندھیروں سے نکال کر توحید و ہدایت کی روشنی کی طرف لے جاتا ہے۔ سوئم۔ وَیَھْدِیْھِمْ اِلیٰ صِرَاطِ مُّسْتَقِیْمٍ اور ان کو صراط مستقیم (سیدھی راہ) دکھاتا ہے جس پر تمام انبیاء (علیہم السلام) خود گامزن رہے اور جس کی طرف اپنی امتوں کو دعوت دیتے رہے۔ لفظ نور کی تحقیق بعض لوگ جو علم و دیانت سے بےبہرہ ہیں اور قرآن مجید کو اپنی تحریفات کا نشانہ بناتے ہیں جن کا سرمایہ دین ہے کہتے ہیں کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو نور فرمایا ہے تو اس سے معلوم ہوا کہ آپ بشر نہیں ہیں اور آپ کے جسد اطہر کا سایہ نہیں تھا کیونکہ بشریت اور نور میں تضاد ہے اور نور کا سایہ نہیں ہوتا۔ اس کے دو جواب ہیں۔ پہلا جواب۔ اس آیت میں نور سے آنحضرت ﷺ ذات گرامی مراد نہیں بلکہ اس سے قرآن مجید مراد ہے۔ جیسا کہ سیاق وسباق سے معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ اللہ کی طرف سے ہمارے پاس دو ہی چیزیں آئی ہیں۔ ایک حضور ﷺ دوم قرآن مجید۔ حضور (علیہ الصلوۃ والسلام) کی آمد کا ذکر اس سے قبل یَا اَھْلَ الْکِتَابِ قَدْ جَاءَکُمْ رَسُوْلُنَا سے فرمایا۔ اور دوسری چیز یعنی قرآن مجید کا ذکر قَدْ جَاءَکُمْ مِّنَ اللہِ نُوْرٌ وَّ کِتَابٌ مُّبِیْنٌ سے فرمایا کِتَابٌ مُّبِیْنٌ کا عطف نُوْرٌ پر عطف تفسیری ہے۔ متعدد مفسرین نے اس کی صراحت کی ہے۔ مفسر ابو السعود کا حوالہ پہلے گذر چکا ہے۔ امام نسفی حنفی فرماتے ہیں۔ یرید القراٰن لکشفہ ظلمات الشرک والشک و لابانتہ ما کان خافیا علی الناس من الحق (مدارک ج 1 ص 214) قاضی ثناء اللہ فرماتے ہیں وجاز ان یکون العطف تفسیر یا وسمی محمدا ﷺ والقرآن نورا لکونھما کاشفین لظلمات الکفر (مظھری ج 3 ص 67، کذا فی البحر ج 3 ص 448 وغیرہ) جیسا کہ سورة حدید ع 3 میں فرمایا۔ وَ اَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ ۔ یہاں بھی عطف تفسیری ہے اور المیزان سے الکتاب ہی مراد ہے۔ اور اگر واو کو عاطفہ ہی قرار دیا جائے تو اس صورت میں وہ ایک ہی چیز (قرآن) کے دو متغائر وصف نور اور کتاب مبین) بیان کرنے کے لیے ہوگی۔ قرآن نور ہے کیونکہ اس سے کفر و شرک اور شکوک و شبہات کے اندھیرے چھٹ جاتے ہیں۔ نیز وہ کتاب مبین ہے یعنی حق و باطل کو اس طرح کھول کر بیان کرتی ہے کہ ہر شخص بخوبی ان میں امتیاز کرسکتا ہے۔ قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ نے کئی بار نور سے تعبیر فرمایا۔ مثلا ارشاد ہے۔ وَاَنْزَلْنَا اِلَیْکُمْ نُوْراً مُّبِیْناً (نساء ع 24) اسی طرح سورة تغابن ع 1 میں فرمایا فَاٰمِنُوْا بِاللہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ النُّوْرِ الَّذِیْ اَنْزَلْنَا۔ ان دونوں آیتوں میں نور سے لا محالہ قرآن مجید ہی مراد ہے۔ دوسرا جواب : اگر سیاق وسباق کے خلاف اس آیت میں نور سے مراد آنحضرت ﷺ کی ذات گرامی ہی مراد لی جائے تو بھی ان کا مطلب حاصل نہیں ہوسکتا۔ نہ اس سے آپ کی بشریت کا انکار ثابت ہوتا ہے نہ آپ کے سایہ کی نفی ہوتی ہے کیونکہ لفظ نور کا آپ کی ذات اقدس پر اطلاق بطور تشبیہ و استعارہ ہے جس سے آپ کی شان رہنمائی اور وصف ہدایت کو نمایاں کرنا مقصود ہے جس طرح نور (روشنی) سے اندھیرا زائل ہوجاتا ہے اور ہر چیز صاف نظر آنے لگتی ہے۔ اسی طرح حضور ﷺ کی تعلیمات سے کفر و شرک اور ضلالت و جہالت کے اندھیرے دور ہوتے ہیں اور صراط مستقیم صاف صاف دکھائی دینے لگتا ہے تو آنحضرت ﷺ کو نور اس لیے نہیں فرمایا کہ آپ کی ذات نور ہے بشر نہیں ہے بلکہ آپ کو نور اس لیے فرمایا کہ آپ کی صفت نور ہے۔ آپ کے ذریعے کفر و شرک کا اندھیرا دور ہوا اور راہ حق واضح ہوئی جیسا کہ مفسرین کرام نے اس کی تصریح فرمائی ہے۔ علامہ خازن لکھتے ہیں یعنی محمد ﷺ انما سماہ نورا لانہ یھتدی بالنور فی الظلام (خازن ج 2 ص 214) امام نسفی فرماتے ہیں او النور محمد (علیہ السلام) لانہ یھتدی بہ کما یھتدی بالنور فی الظلام کما سمی سراجا (مدارک ج 1 ص 314) تفسیر مظہری کا حوالہ پہلے گذر چکا ہے۔ جن مفسرین نے نور سے آنحضرت ﷺ کی ذات گرامی مراد لی ہے ان میں سے کسی نے بھی اس سے آپ کی بشریت یا آپ کے سایہ کی نفی پر استدلال نہیں کیا بلکہ سب نے اس اطلاق کو استعارہ قرار دیکر اس سے نور ہدایت یعنی ہدایت کی روشنی مراد لی ہے۔
Top