Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 16
یَّهْدِیْ بِهِ اللّٰهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهٗ سُبُلَ السَّلٰمِ وَ یُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ بِاِذْنِهٖ وَ یَهْدِیْهِمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ
يَّهْدِيْ : ہدایت دیتا ہے بِهِ : اس سے اللّٰهُ : اللہ مَنِ اتَّبَعَ : جو تابع ہوا رِضْوَانَهٗ : اس کی رضا سُبُلَ : راہیں السَّلٰمِ : سلامتی وَيُخْرِجُهُمْ : اور وہ انہیں نکالتا ہے مِّنَ : سے الظُّلُمٰتِ : اندھیرے اِلَى النُّوْرِ : نور کی طرف بِاِذْنِهٖ : اپنے حکم سے وَيَهْدِيْهِمْ : اور انہیں ہدایت دیتا ہے اِلٰي : طرف صِرَاطٍ : راستہ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھا
اللہ اس کتاب کے ذریعے ان لوگوں پر جو اللہ کی خوشنودیوں کے تابع ہوں سلامتی کی راہ کھول دیتا ہے اور (اپنے خاص حکم سے) انہیں تاریکیوں سے نکالتا ، روشنی میں لاتا اور (پہلے ایمان لانے والوں کی) سیدھی راہ پر لگا دیتا ہے
اللہ کی خوشنودیوں کی راہ کن لوگوں کے لئے کھولی جاتی ہے : 77: فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ نے تم پر اپنی خوشنودیوں کی راہ کھول دی ہے تاکہ تم کو باہم جنگ و جدل سے نجات دے کر امن و سلامتی کی طرف لے آئے اور تاریکی سے نکال کر رشنی میں اور کج رویوں اور کج بحثوں سے نکال کر صراط مستقیم کی طرف تمہاری راہنمائی کرے لیکن قانون الٰہی ہے کہ یہ سب کچھ اس کو نصیب ہوتا ہے جو اس کو حاصل کرنے کے لئے خود تگ و دو کرے اور اپنے تعصبات کی پٹیاں اپنی آنکھوں سے اتارنے کی ہمت کرے پھر اس روشنی کو دیکھو اس کی قدر کرو اور اسکی راہنمائی سے فائدہ حاصل کرو اور پھر کتنے واضح الفاظ میں بتا دیا کہ جن لوگوں کے اندر رضائے الٰہی کی جستجونہ ہو بلکہ وہ اپنی خواہشات کے پرستار ہوں ان کے لئے توفیق کا دروازہ کبھی وا نہیں ہوتا۔ اصول خداوندی یہی ہے کہ جوئندہ یا بندہ ہوتا ہے جو تلاش وجستجونہ کرے وہ ہمیشہ محروم رہتا ہے ۔ اللہ کی خوشنودیوں کی راہ انہی لوگوں پر کھولی جاتی ہے جوا س راہ کے جو یا ہوں اور اللہ نے کبھی کسی کو راہ ہدایت کی طرف مجبور نہیں کیا کہ یہ اس کے قانون کے خلاف ہے اور اپنے قانون کے خلاف وہ کبھی نہیں کرتا۔ حکم الٰہی ہی دراصل قانون الٰہی ہے اس کے حکم اور قانون میں تفاوت نہیں ہے : 78: اللہ کا حکم کیا ہے ؟ وہی جو اس کا قانون ہے فرمایا اللہ نے انسانوں کو تاریکیوں سے نکالنے کے لئے ایک قانون بنا دیا اور وہی قانون اس کا حکم کہلاتا ہے۔ اس احکم الحاکمین نے قرآن کریم جیسی کتاب اور محمد رسول اللہ ﷺ جیسا خاتم الانبیاء رسول بھیجا ہے تو اسکا مقصد تو یہی ہے کہ تم کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لے آئے اور سیدھی راہ کی طرف تمہاری راہنمائی کرے۔ قرآن کریم اپنا کام یقیناً کرتا ہے لیکن اس وقت جب کوئی اس سے ہدایت حاصل کرے اور کوئی سیدھی راہ کی طرف آنا بھی چاہے کوئی تاریکی کو چھوڑنا پسند بھی کرے یہ کسے ی ممکن ہے کہ اہل کتاب تو کفر پر کفر کرتے جائیں اور اہل کتاب کہلانے کے باوجود کتاب الٰہی سے منحرف ہوں وہ تورات وانجیل ہی کی روشنی سے کام نہ لیں تو قرآن کریم کی روشنی سے وہ مسقفید کیسے ہو سکتے ہیں ؟ پھر اس طرح قرآن کریم کی روشنی کو کوئی زبان سے تسلیم کرے اور سر ہلاہلا کر تصدیق کرے اور عملی زندگی اس روشنی کے سراسر خلاف ہو تو اس کے ہاں ! ہاں ! کی کوئی قیمت ؟ فرمایا اللہ کی رضا تو ان کو ہدایت دینے کی ہے لیکن اس کی رضا کے سچے دل سے طالب بھی تو ہوں۔
Top