Anwar-ul-Bayan - At-Tawba : 27
ثُمَّ یَتُوْبُ اللّٰهُ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
ثُمَّ : پھر يَتُوْبُ : توبہ قبول کرے گا اللّٰهُ : اللہ مِنْۢ بَعْدِ : بعد ذٰلِكَ : اس عَلٰي : پر مَنْ يَّشَآءُ : جس کی چاہے وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
پھر اس کے بعد اللہ جس کی چاہے توبہ قبول فرمائے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
آخر میں فرمایا۔ (ثُمَّ یَتُوْبُ اللّٰہُ مِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ عَلٰی مَنْ یَّشآءُ وَ اللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ) (پھر اس کے بعد اللہ جس کی چاہے توبہ قبول فرمائے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے) ۔ جو کافر مقتول ہوجائیں وہ تو دنیا کا عذاب یہیں چکھ لیتے ہیں اور آخرت کے دائمی عذاب کی طرف منتقل ہوجاتے ہیں۔ لیکن جو لوگ قتل سے بچ جائیں اللہ تعالیٰ ان میں سے جس کو چاہے توبہ کی توفیق دے دیتا ہے جو کفر چھوڑ کر اسلام میں داخل ہوجاتا ہے۔ انہیں میں سے مالک بن عوف بھی تھا جو بہت بڑی جمعیت کو لے کر مقابلہ کے لیے حنین میں آیا تھا۔ جب شکست ہوئی تو طائف جا کر قلعہ بند ہوگیا لیکن آنحضرت سرور عالم ﷺ کا پیغام پہنچنے پر واپس آیا اور مسلمان ہوگیا آپ نے اس کو اس کی قوم پر عامل بھی بنا دیا۔ نیز اور بھی بہت سے بنی ہوازن کے لوگ مسلمان ہوئے جو جنگ میں قتل ہونے سے بچ گئے تھے۔ طائف میں جا کر آپ نے محاصرہ فرمایا پھر محاصرہ کے بعد واپس تشریف لے آئے بعد میں وہ لوگ بھی مسلمان ہوگئے۔ اسلام کے بڑے بڑے دشمنوں نے اسلام قبول کیا اور مستحق جنت ہوئے۔ زمانہ کفر میں جو کیا تھا اللہ تعالیٰ نے سب معاف فرما دیا۔ مالک بن عوف نے اسلام قبول کر کے جو رسول اللہ ﷺ کی صفت بیان کرتے ہوئے چند اشعار کہے اہل علم کی دلچسپی کے لیے نقل کیے جاتے ہیں : ما ان رأیت و لا سمعت بمثلہ فی الناس کلھم بمثل محمد أوفی و أعطی للجزیل اذا اجتدی و متی تشأ یخبرک عما فی غد و اذا الکتیبۃ عردت أنیابھا بالسمھری وضرب کل مھند فکأنہ لیث علی أشبالہ وسط الھباۃ خادر فی مرصد جن کا ترجمہ یہ ہے : (1) میں نے تمام لوگوں میں محمد ﷺ جیسا نہ دیکھا اور نہ سنا۔ (2) خوب زیادہ مال کثیر کا دینے والا جب کہ وہ سخاوت کرے اور جب تو چاہے تو تجھے اس بات کی خبر دیدے جو کل ہونے والی ہے (وہ جو آپ نے فرما دیا تھا کہ بنی ہوازن کے مال کل انشاء اللہ مسلمانوں کے لیے مال غنیمت ہوں گے اس کی طرف اشارہ ہے) (3، 4) اور جب لشکر اپنے دانتوں کو پیسنے لگے نیزوں کے ساتھ، اور ہر تلوار استعمال کرلی جائے، تو گویا وہ شیر ہے اپنے بچوں (کی نگرانی) پر غبار کے درمیان ہر گھات کی جگہ میں۔ ذکرھا الحافظ ابن کثیر فی البدایۃ ص 361 ج 4 و الخادر (بالخاء) الاسدالذی اختفی فی اجمتہ کما فی القاموس (اسے حافظ ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں ذکر کیا ہے۔ الخادر اس شیر کو کہتے ہیں جو اپنی کچھار میں چھپا ہوا ہو)
Top