Kashf-ur-Rahman - Al-Muminoon : 61
اُولٰٓئِكَ یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَ هُمْ لَهَا سٰبِقُوْنَ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ يُسٰرِعُوْنَ : جلدی کرتے ہیں فِي الْخَيْرٰتِ : بھلائیوں میں وَهُمْ : اور وہ لَهَا : ان کی طرف سٰبِقُوْنَ : سبقت لے جانیوالے ہیں
یہی وہ لوگ ہیں جو دوڑ دوڑ کر بھلائیاں حاصل کررہے ہیں اور یہی لوگ ان بھلائیوں کی طرف بڑھ جانے والے ہیں
(61) یہی وہ لوگ ہیں جو دوڑ دوڑ کر بھلائیاں اور فائدے حاصل کررہے ہیں اور یہی لوگ ان بھلائیوں کی طرف بڑھ جانے والے ہیں۔ یعنی حقیقی فائدے تو وہ لوگ حاصل کررہے ہیں جو دین حق کے پیرو ہیں اپنے پروردگار کی ہیبت و جلالت سے ڈرتے ہیں۔ قرآن کریم کی صداقت پر ایمان رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناتے اور خیرات و صدقات بھی اپنی توفیق کے موافق کرتے ہیں اور باوجود صدقات و خیرات کے ان کے دل اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں یہی لوگ جلدی جلدی منافع حاصل کررہے ہیں اور یہی لوگ بھلائیوں کی طرف بڑھ جانے والے ہیں یعنی بھلائیوں کے یہ اہل حق ہی مالک ہیں نہ یہ کہ یہ کافر جن کے سامنے دنیا ہی دنیا ہے۔ یعلمون ظاھراً من الحیٰوۃ الدنیا۔ خیرات کے موقعہ پر دل کا خوف شاید اس وجہ سے ہو کہ نامعلوم صدقہ قبول ہوتا ہے یا نہیں۔ اچھے بندوں کا یہی شیوہ ہے کہ وہ نیکی کے بعد بھی ڈرتے ہیں۔ کانوا قلیلا من اللیل مایھجعون وبالا سحارھم یستغفرون۔ یعنی رات کو بہت کم سوتے ہیں اور کہ کم سونے پر بھی صبح سویرے استغفار کرتے ہیں یا یہ کہ رات کی عبادت کے قبول ہونے یا نہ ہونے پر صبح سویرے استغفار کرتے ہیں۔ بہرحال ! حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی کیا جانیں وہاں قبول ہوا یا نہ ہوا آگے کام آوے نہ آوے دیتے ہیں یعنی اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ 12 خلاصہ ! یہ کہ کفار مال اولاد کی زیادتی کو بھلائی سمجھتے ہیں اور اہل حق دین کے کاموں کو نفع اور فائدہ سمجھتے ہیں ان کو فقط دنیا میں عارضی فائدہ اور ان کو دنیا میں بھی بھلائی اور آخرت میں بھی مستقل بھلائی لہٰذا اصلی بھلائی کے اہل حق مستحق ہیں نہ دین حق کے منکر۔
Top