Tafseer-e-Mazhari - Al-Muminoon : 61
اُولٰٓئِكَ یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَ هُمْ لَهَا سٰبِقُوْنَ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ يُسٰرِعُوْنَ : جلدی کرتے ہیں فِي الْخَيْرٰتِ : بھلائیوں میں وَهُمْ : اور وہ لَهَا : ان کی طرف سٰبِقُوْنَ : سبقت لے جانیوالے ہیں
یہی لوگ نیکیوں میں جلدی کرے اور یہی اُن کے لئے آگے نکل جاتے ہیں
اولئک یسارعون فی الخیرت وہم لہا سبقون۔ یہ لوگ (البتہ) اپنے فائدے جلدی جلدی حاصل کر رہے ہیں اور بھلائیوں کی طرف تیزی سے جا رہے ہیں۔ آیت کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ طاعتوں کی بہت زیادہ رغبت رکھتے ہیں اس لئے جلدی جلدی طاعتیں کرتے ہیں تاکہ کوئی طاعت فوت نہ ہوجائے۔ یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ طاعتوں میں پیش قدمی کرنے پر جن اخروی بھلائیوں کا وعدہ کیا گیا ہے اور نیک اعمال میں تیزی کرنے سے جن دنیوی فوائد کو وابستہ کیا گیا ہے سب فائدوں کے حاصل کرنے کے لئے وہ تیزی سے کام لیتے ہیں اور جلدی جلدی حاصل کرتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا مصیبت کو کوئی چیز رد نہیں کرتی سوائے دعا کے اور عمر میں کوئی چیز زیادتی نہیں کرتی مگر نیکی (یعنی خیر ‘ خیرات ‘ حسن سلوک) اس تفسیر پر اس آیت کا مضمون ویسا ہی ہوگا جیسا آیت فَاٰتاَہُمُ اللّٰہُ ثَوَاب الدُّنْیَا وَحُسَنَ ثَوَابِ الْاٰخِرَۃِکا ہے گویا ان کو وہ ثواب ملے گا جو ان کے مخالف لوگوں کو نہیں ملے گا۔ میں کہتا ہوں جن بھلائیوں کی طرف دنیا میں مؤمن تیزی سے بڑھتے ہیں ان سے مراد شاید یہ ہو کہ مؤمن کو اللہ کی یاد میں لذت آتی ہے اس کے دل کو چین ملتا ہے ‘ وہ بقدر کفاف رزق پر قناعت کرتا اور سیر ہوجاتا ہے اس کو دنیوی نعمتوں کے زوال کا کوئی خوف نہیں ہوتا وہ سوائے اللہ کے نہ کسی سے امید وابستہ رکھتا ہے نہ ڈرتا ہے اس کو خواب میں یا بطور الہام مبشرات پہنچتی رہتی ہے۔ وَہُمْ لَہَا سَبِقُوْنَ یعنی وہ نیکیوں کی طرف پیش قدمی کی وجہ سے جنت کی طرف سب سے آگے بڑھنے والے ہیں یا سابقون سے (مراد سب سے آگے بڑھنا اور سبقت کر جانا نہیں بلکہ) مراد ہے طاعتوں کی طرف یا ثواب کی طرف یا جنت کی طرف بڑھنا۔ یا یہ مراد ہے کہ آخرت سے پہلے وہ دنیوی فائدوں کی طرف بڑھنے والے ہیں کیونکہ (ثواب آخرت سے پہلے) فوری طور پر ان کے لئے دنیوی فائدے فراہم کردیئے جاتے ہیں۔ بعض علماء کا قول ہے کہ لَہَا سَبِقُوْنَ میں لام بمعنی الیٰ ہے یعنی وہ بھلائیوں کی طرف پیش قدمی کرتے ہیں جیسے آیت لَمَا نہوا عنہ میں لام بمعنی الیٰ ہے اسی وجہ سے کلبی نے آیت مذکورہ کی تفسیر میں کہا ہے کہ وہ تمام اقوام سے بھلائیوں کی طرف سبقت کرنے والے ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا اللہ کی طرف سے ان کے لئے سعادت پہلے ہی سے (مقدر) ہوچکی ہے۔
Top