Kashf-ur-Rahman - Aal-i-Imraan : 108
تِلْكَ اٰیٰتُ اللّٰهِ نَتْلُوْهَا عَلَیْكَ بِالْحَقِّ١ؕ وَ مَا اللّٰهُ یُرِیْدُ ظُلْمًا لِّلْعٰلَمِیْنَ
تِلْكَ : یہ اٰيٰتُ اللّٰهِ : اللہ کی آیات نَتْلُوْھَا : ہم پڑھتے ہیں وہ عَلَيْكَ : آپ پر بِالْحَقِّ : ٹھیک ٹھیک وَمَا اللّٰهُ : اور نہیں اللہ يُرِيْدُ : چاہتا ظُلْمًا : کوئی ظلم لِّلْعٰلَمِيْنَ : جہان والوں کے لیے
یہ اللہ کی آیتیں ہیں جو ہم آپ کو ٹھیک ٹھیک پڑھ کر سناتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اہل عالم پر ذرا سا بھی ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔2
2 یہ اللہ تعالیٰ کے ارشادات ہیں جو ہم آپ کو ٹھیک ٹھیک پڑھ کر سناتے ہیں اور ان کی آپ کے روبرو صحیح صحیح تلاوت کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بندوں پر کسی قسم کا ظلم نہیں کرنا چاہتا لہٰذا جو سزا بندوں کو دی جاتی ہے اور جو سزا ان کے لئے تجویز کی جاتی ہے وہ بالکل مناسب اور عین انصاف کے موافق ہوتی ہے۔ (تیسیر) حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی جہاد اور امر بالمعروف کا جو حکم فرمایا یہ ظلم نہیں خلق پر ان کی تربیت ہے۔ (موضح القرآن) حضرت شاہ صاحب (رح) نے اس آیت کو ولکن منکم کی آیت سے رابط دیا ہے۔ بہرحال حق تعالیٰ پر ظلم کا اطلاق تو کسی طرح ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ وہ مطلق مالک ہے اس پر کوئی شئے واجب نہیں جس کے خلاف کرنے پر اس کا ظلم کہا جائے سب ان کے حقیقی مملوک ہیں وہ جو کچھ بھی کریں وہ ظلم نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح کسی شئے کو غیر ما وضع لہٗ میں استعمال کرنا بھی وہاں نہیں ہوسکتا اس لئے حضرت حق جل سجدہٗ کے لئے ظلم کے یہاں حقیقی معنی تو ہو ہی نہیں سکتے بلکہ مطلب یہ ہے کہ تم لوگ جس کو ظلم کہتے ہو اور عقلاً و شرعاً بندوں کے افعال و اعمال سے جو ظلم کہلاتا ہے وہ بھی وہاں نہیں کہ کسی کے ثواب میں کمی کر دے یا کسی کی سزا بڑھا دے یا کوئی ناقابل برداشت حکم بھیج دے یا وسعت سے زیادہ تکلیف دے بلکہ جو احکام تم کو دیتا ہے اس سے محض تمہاری تربیت اور تزکیہ نفس مقصود ہوتا ہے اور بدکرداری کی جو سزا تجویز کرتا ہے اور جو پاداش دیتا ہے وہ بالکل مناسب اور موزوں ہوتی ہے اور جو برتائو کسی کے ساتھ کرتے ہیں وہ عین حکمت اور مصلحت کے موافق ہوتا ہے اب آگے تمام کائنات پر اپنی ملکیت اور اختیارات مطلقہ کا اظہار ہے۔ (تسہیل
Top