Kashf-ur-Rahman - An-Nisaa : 104
وَ لَا تَهِنُوْا فِی ابْتِغَآءِ الْقَوْمِ١ؕ اِنْ تَكُوْنُوْا تَاْلَمُوْنَ فَاِنَّهُمْ یَاْلَمُوْنَ كَمَا تَاْلَمُوْنَ١ۚ وَ تَرْجُوْنَ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا یَرْجُوْنَ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَكِیْمًا۠
وَلَا تَهِنُوْا : اور ہمت نہ ہارو فِي : میں ابْتِغَآءِ : پیچھا کرنے الْقَوْمِ : قوم (کفار) اِنْ : اگر تَكُوْنُوْا تَاْ لَمُوْنَ : تمہیں دکھ پہنچتا ہے فَاِنَّھُمْ : تو بیشک انہیں يَاْ لَمُوْنَ : دکھ پہنچتا ہے كَمَا تَاْ لَمُوْنَ : جیسے تمہیں دکھ پہنچتا ہے وَتَرْجُوْنَ : اور تم امید رکھتے ہو مِنَ : سے اللّٰهِ : اللہ مَا لَا : جو نہیں يَرْجُوْنَ : وہ امید رکھتے وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَلِيْمًا : جاننے والا حَكِيْمًا : حکمت والا
اور تم دشمن کا پیچھا کرنے میں ہمت نہ ہارو اگر تم دکھی ہوتے ہو تو وہ کافر بھی اسی طرح دکھی ہوتے ہیں جس طرح تم دکھی ہوتے ہو اور تم اللہ تعالیٰ سے اجر وثواب کی ایسی ایسی امیدیں رکھتے ہو جو ان کو نصیب نہیں ہیں اور اللہ تعالیٰ کمال علم اور حکمت کا مالک ہے۔3
3 اور اے مسلمانو ! تم اپنی دشمن اور مخالف قوم کا تعاقب اور پیچھا کرنے میں ہمت نہ ہارو اور بزدلی نہ دکھائو اگر جنگ کی وجہ سے اور زخم خوردہ ہونے کے باعث تم بےآرام اور دکھی ہوتے ہو تو وہ تمہارے دشمن بھی اسی طرح بےآرام اور دکھی ہوتے ہیں جس طرح تم بےآرام اور دکھی ہوتے ہو یعنی جہاں تک جنگ اور مجروح ہونے کی وجہ سے تم کو درد اور تکلیف ہوتی ہے اسی طرح انکو بھی ہوتی ہے تو گویا اس معاملہ میں تم اور وہ مشترک ہو مگر تم اللہ تعالیٰ سے اجر وثواب کی ایسی ایسی امیدیں رکھتے ہو جو امیدیں ان کو ہیں اور وہ اجر وثواب کی توقع سے محروم ہیں اور اللہ تعالیٰ کمال علم اور کمال حکمت کا مالک ہ وہ تمہارے حال سے خوب واقف ہے اور جو حکم تم کو دیتا ہے وہ کسی نہ کسی حکمت پر مبنی ہوتا ہے۔ اس آیت کا تعلق یا تو بدر صغریٰ سے ہے جیسا کہ اکثر مفسرین نے کہا ہے ۔ یا غزوئہ حمر الاسد سے ہے۔ جیسا کہ بعض نے کہا ہے۔ بہرحال آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب کبھی دشمن کے تعاقب کا حکم ہو تو تم اس میں کاہلی اور پس و پیش نہ کیا کرو اور اپنے زخموں وغیرہ کا عذر نہ کیا کرو کیونکہ اس قسم کی جسمانی تکالیف میں تم اور وہ برابر ہو۔ جنگ میں اس قسم کا دکھ لڑنے والے کو پہنچتا ہی ہے۔ خواہ تم ہو یا تمہارے مخالف ہوں لیکن اجر وثواب کے اعتبار سے تمہارے اور ان کے اعتقاد میں بڑا فرق ہے اور تم کو اللہ تعالیٰ سے ثواب کی جو جو امیدیں وابستہ ہیں وہ امیدیں ا ن کو نہیں ہیں کیونکہ نہ ان کو آخرت پر ایمان ہے اور نہ وہ اللہ تعالیٰ کے اجر وثواب پر اعتقاد رکھتے ہیں اور چونکہ ان کو اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید نہیں اس لئے ان میں کمزوری اور بزدلی ہونی چاہئے نہ کہ تم میں کیونکہ تم کو ثواب اخروی کی امیدیں ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ کفار کے سامنے صرف دنیوی زندگی ہے اور تمہارے سامنے دین و دنیا دونوں کی کامیابی کا سوال ہے لہٰذا دکھ درد کے موقعہ پر تم میں ہمت اور جرأت زیادہ ہونی چاہئے۔ دھن کے معنی ضعف، سستی، کاہلی، بعض احادیث میں دھن کے معنی حب الدنیا و کر ابیت الموت کے ساتھ کئے گئے ہیں۔ بعض علماء نے تھنوا کو اہانت سے مشتق کیا ہے اور ترجمہ جبن اور بزدلی سے کیا ہے۔ ہم نے تیسیر میں دونوں لفظ رکھے ہیں جیسا کہ ہمارا قاعدہ ہے کہ ہم ترجمہ اور تیسیر میں اس امر کا لحاظ رکھتے ہیں کہ خواہ عبارت بڑھ جائے لیکن جہاں تک ممکن ہو مختلف اقوال کو جمع کردیں۔ اب آگے بعض منافقین کا ایک واقعہ مذکور ہے چونکہ اوپر کفار کا ذکر تھا اس لئے ان کی مناسبت سے بعض منافقوں کا ذکر فرماتے ہیں۔ آگے کی آیتیں ایک خاص واقعہ کی تفصیل سے تعلق رکھتی ہیں۔ واقعہ مختصراً اس طرح ہے کہ ایک انصاری نے اپنی زرہ آٹے میں رکھ چھوڑی تھی۔ وہ کسی نے نقب لگا کر نکال لی صبح کو اس کی تلاش ہوئی اور آٹے کا نشان دیکھتے ہوئے لوگ چلے تو اس نشان سے معلوم ہوا کہ زرہ طعمہ بن ابیرق کے گھر میں ہے گھر کی تلاشی لی تو زرہ برآمد نہیں ہوئی پھر لوگوں نے آٹے کے نشان کی کھوج لگائی تو ایک یہودی کے گھر تک پہنچے اس کے ہاں وہ زرہ نکل آئی۔ اس یہودی نے کہا مجھ کو تہ یہ زرہ طعمہ بن ابیرق نے دی ہے۔ میں چوری سے بری ہوں، چور وہی ہے۔ اس پر طعمہ کے خاندان والوں نے رات کو مشورہ کیا کہ ہم سب مل کر حضور ﷺ سے کہیں کہ جامعہ طعمہ بری ہے تو حضور ﷺ ہماری طرف داری کریں گے اور یہودی جس کا نام زید ہے وہی چوری کا ملزم قرار پائے گا۔ بعض حضرات نے واقعہ کی تفصیل اور طرح بیان کی ہے اگرچہ واقعہ یہی ہے۔ حضرت قتاد کہتے ہیں بنو بریق والوں کا ایک گھر تھا جس میں بشیر اور شبیر اور مبشر تھے ۔ بشیر منافق تھا اور حضور ﷺ کی شان میں اور صحابہ کرام کی شان میں ہجو کہا کرتا تھا اور دوسرے لوگوں کے نام سے مزے مزے لے لے کر پڑھا کرتا تھا مگر صحابہ جانتے تھے کہ یہ اشعار اسی کے کہے ہوئے ہوتے ہیں مگر یہ خبیث دوسروں کے نام سے سناتا تھا یہ لوگ جاہلیت کے زمانے سے غربت میں مبتلا اور فاقہ مست تھے اور آج کل بھی تنگدستی میں رہتے تھے۔ یوں تو عام طور پر مدینے کے لوگ جو اور کھجوریں کھا کر پیٹ بھرتے تھے لیکن بعض اہل ثروت شامی قافلوں سے میدہ خرید لیا کرتے تھے جسے وہ خود استعمال کیا کرتے تھے۔ باقی گھر والے موٹا اناج کھالیا کرتے تھے ایک دفعہ میرے چچا رفاعہ بن زید نے بھی شامی قافلے سے کچھ مید ا خرید لیا اور اس میدے کو مکان کی دو چھتی میں رکھ دیا ۔ جہاں ان کے ہتھیار وغیرہ بھی رکھے رہتے تھے رات کو چوروں نے نقب لگا کر ہتھیار بھی چرا لئے اور میدہ وغیرہ بھی لے گئے۔ صبح کو میرے چچا رفاعہ میرے پاس آئے انہوں نے چوری کا قصہ مجھے سنایا۔ اب ہم لوگ پتہ لگانے نکلے تو ہم کو معلوم ہوا کہ رات بنو ابیرق والوں کے گھر میں آگ روشن ہو رہی تھی اور کھانا پکانا ہو رہا تھا ۔ غالباً انہوں نے تمہارے ہاں چوری کی ہوگی۔ تمہارے آنے سے پہلے ہم نے ان لوگوں سے تمہارے ہاں کی چوری کا حال دریافت کیا تھا تو وہ لبید کا نام لیتے تھے اور یہ کہتے تھے کہ رفاعہ کے ہاں لبید نے چوری کی ہے مگر ہم کو یقین نہیں آیا کیونکہ لبید بہت نیک آدمی ہے۔ چنانچہ جب لبید کو معلوم ہوا کہ بنو ابیرق میرا نام لے رہے ہیں تو وہ تلوار لے کر آئے اور انہوں نے بنو ابیرق کو ڈانٹ کر کہا یا تو مجھے چور ثابت کرو ورنہ تمہارے حق میں اچھا نہ ہوگا۔ اس پر ان لوگوں نے لبید سے معذرت کی اور معافی چاہی قتادہ کہتے ہیں اس واقعہ کو سن کر مجھ کو اور میرے چچا کو یقین ہوگیا کہ بنو ابیرق ہی چور ہیں مگر پھر بھی میرے چچا نے احتیاطاً مجھے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں بھیجا کہ قتادہ تم جا کر یہ تمام رپورٹ حضور ﷺ کی خدمت میں پیش کردو اور حضور ﷺ سے یہ کہو کہ جناب ان چوروں سے صرف ہمیں ہمارے ہتھیار دلوا دیجیے کھانے پینے کے سامان کو جانے دیجیے حضور ﷺ نے تمام واقعہ قتادہ سے سن کر تحقیق کا وعدہ فرمایا۔ چنانچہ جب بنو ابیرق کو یہ پتہ لگا تو انہوں نے اپنی طرف سے ایک آدمی کو حضور ﷺ کی خدمت میں بھیجا جس کا نام اسید بن عروہ تھا اس نے آ کر حضور ﷺ سے کہا یا رسول اللہ ﷺ یہ تو بڑا ظلم ہو رہا ہے ۔ بنو ابیرق کے لوگ تو مخلص مسلمان ہیں ان پر چوری کا الزام لگایا جا رہا ہے ان کو قتادہ بن نعمان اور ان کے چچا رفاعہ بن زید چور بتاتے ہیں اور بلا ثبوت کے ان کو چور بتاتے ہیں قتادہ کہتے ہیں کہ جب میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ قتادہ یہ تم بہت برا کرتے ہو کہ دیندا اور بھلے لوگوں کے ذمہ چوری لگاتے ہو اور تمہارے پاس کوئی ثبوت ان کے چور ہونے کا نہیں قتادہ کہتے ہیں کہ میں حضور ﷺ کا ارشاد سن کر چپ چاپ واپس چلا آیا اور میں نے اپنے چچا کو یہ بات سنائی کہ حضور ﷺ نے اس طرح فرمایا ہے۔ ان کے چچا نے یہ قصہ سن کر کہا اللہ المستعان یعنی اللہ تعالیٰ ہی سے ہم مدد چاہتے ہیں۔ قتادہ کہتے ہیں اس کے تھوڑی ہی دیر بعد نبی کریم ﷺ پر وحی آئی اور یہ آیتیں نازل ہوئیں۔ بعض لوگوں نے ایک چادر کی چوری کے واقعہ میں ان آیتوں کا نزول بتایا ہے بہرحال شان نزول کی وجوہ اگر متعدد ہوں تو بھی مضائقہ نہیں۔ بہرحال واقعہ چوری کا ہے اور اس کی تحقیق میں چور کے حمایتی غلط فہمی پیدا کرنی کی جو کوشش کر رہے تھے اس سے پیغمبر کو باخبر کرنے کا ہے اور نبی کریم ﷺ کو کسی غلط نتیجے پر پہنچنے سے بچا لینے کا ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)
Top