Tadabbur-e-Quran - An-Nisaa : 52
وَ لَا تَهِنُوْا فِی ابْتِغَآءِ الْقَوْمِ١ؕ اِنْ تَكُوْنُوْا تَاْلَمُوْنَ فَاِنَّهُمْ یَاْلَمُوْنَ كَمَا تَاْلَمُوْنَ١ۚ وَ تَرْجُوْنَ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا یَرْجُوْنَ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَكِیْمًا۠
وَلَا تَهِنُوْا : اور ہمت نہ ہارو فِي : میں ابْتِغَآءِ : پیچھا کرنے الْقَوْمِ : قوم (کفار) اِنْ : اگر تَكُوْنُوْا تَاْ لَمُوْنَ : تمہیں دکھ پہنچتا ہے فَاِنَّھُمْ : تو بیشک انہیں يَاْ لَمُوْنَ : دکھ پہنچتا ہے كَمَا تَاْ لَمُوْنَ : جیسے تمہیں دکھ پہنچتا ہے وَتَرْجُوْنَ : اور تم امید رکھتے ہو مِنَ : سے اللّٰهِ : اللہ مَا لَا : جو نہیں يَرْجُوْنَ : وہ امید رکھتے وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَلِيْمًا : جاننے والا حَكِيْمًا : حکمت والا
اور دشمن کے تعاقب میں تھڑدلا پن نہ دکھاؤ۔ اگر تم دکھ اٹھاتے ہو تو آخر وہ بھی تو تمہاری ہی طرح دکھ اٹھاتے ہیں اور تم خدا سے وہ توقع رکھتے ہو جو توقع وہ نہیں رکھتے اور اللہ علم والا اور حکمت والا ہے
وَلَا تَهِنُوْا فِي ابْتِغَاۗءِ الْقَوْمِ ۭ اِنْ تَكُوْنُوْا تَاْ لَمُوْنَ فَاِنَّھُمْ يَاْ لَمُوْنَ كَمَا تَاْ لَمُوْنَ ۚ وَتَرْجُوْنَ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا يَرْجُوْنَ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ عَلِــيْمًا حَكِــيْما۔ " القوم " کا لفظ، جب اس سیاق وسباق میں آئے گا جس سیاق وسباق میں یہاں تو اس سے مراد دشمن اور حریف ہوگا۔ کلامِ عرب میں اس مخصوص استعمال کی مثالیں بہت ہیں۔ قرآن میں بھی اس کی مثال موجود ہے۔ مثلاً ان یمسسکم قرح فقد مس القوم قرح مثلہ : اگر تمہیں کوئی چوٹ پہنچی تو کوئی تعجب کی بات نہیں، آخر دشمن کو بھی اسی طرح کی چوٹ پہنچی۔ ترغیب جہاد کے مضمون کی مزید تاکید : یہ اسی ترغیب جہاد کے مضمون کی تاکدی مزید ہے جو اوپر سے چلا آرہا ہے بلکہ یہاں صلوۃ الخوف کا ذکر بھی، جیسا کہ ہم نے واضح کیا، اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اب یہ فرمایا کہ اگر تمہیں دشمن کے ہاتھوں کوئی نقصان پہنچ جائے تو اس سے بد دل ہو کر اس کے تعاقب میں تمہیں پست ہمت نہیں ہونا چاہیے۔ نقصان جس طرح تمہیں پہنچتا ہے انہیں بھی پہنچتا ہے۔ اس اعتبار سے تم اور وہ یکساں ہو، رہی عاقبت کار کی کامیابی تو اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، وہ سو فیصد تمہاری ہی ہے، اس میں ان کا سرے سے کوئی حصہ ہی نہیں ہے تو اس وقتی اور عارضی نقصان سے کیوں پست ہمت ہو۔ یاد رکھو کہ اللہ علیم و حکیم ہے۔ اگر وہ اپنی راہ میں جہاد کرنے والوں کو کسی آزمائش میں ڈالتا ہے، ان کو کوئی نقصان پہنچ جاتا ہے تو یہ چیز اس کے علم و حکمت کا تقاضا ہوتی ہے جس سے اہل ایمان کی اصلاح و تبیت مقصود ہوتی ہے۔
Top