Kashf-ur-Rahman - Az-Zukhruf : 14
وَ اِنَّاۤ اِلٰى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ
وَاِنَّآ : اور بیشک ہم اِلٰى رَبِّنَا : اپنے رب کی طرف لَمُنْقَلِبُوْنَ : البتہ پلٹنے والے ہیں
اور بیشک ہم کو اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
(14) اور بیشک ہم اپنے پروردگار و کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ حضرت حق جل مجدہ نے دلائل توحید کے سلسلے میں ان احسانات کا تذکرہ فرمایا…ظاہر ہے کہ بحری اور بری میں سفروں کی سہولت اور آسانی کے لئے یہ چیزیں پیدا فرمائیں پھر ان چیزوں پر انسان کو قابو یافتہ فرمایا۔ وہ کشتیاں ہوں یا چوپائے ہوں انسان سب پر حکمرانی کرت ہے آخر میں آداب تعلیم فرمائے کہ جب کسی سواری پر بیٹھو تو اللہ تعالیٰ کے احسانات کا اپنے دل میں اعتراف کیا کرو اور قلب میں اس کی نعمت ہائے بےکراں کو محسوس کیا کرو……اور زبان سے بھی اس کا اظہار کیا کرو سواری پر سوار ہوتے وقت مختلف دعائیں حدیث کی کتابوں میں منقول ہیں قرآن میں یہ الفاظ ہیں۔ سبحن الذی سخرلنا ھذا وما کنا لہ مقرنین۔ یہ واقعہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ ان چیزوں کو پیدا نہ فرماتا تو کوئی اور پیدا کرنے والا نہ تھا اور گر وہ پیدا کرنے کے بعد ان کو انسان کے لئے مسخر نہ فرماتا تو ان کے قابو میں میں کرنا اور ان حیوانات کو اپنا قرین بنانا انسان کے بس کی بات نہ تھی۔ دعا میں اپنی عاجزی، بےبسی اور اللہ تعالیٰ کے احسانات کا اعتراف ہے اور ساتھ ہی سفر آخرت کا بھی اقرا رہے جو آخری اور حقیقی سفر ہے آگے بندوں کی نافرمانی اور حضرت حق کی شان میں غلط الزامات اور ان کے جوابات مذکور ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں اس سفر سے آخرت کا سفر یاد کرو حضرت سوار ہوتے تو یہی تسبیح کہتے۔
Top