Tafseer-e-Majidi - Al-Qalam : 42
وَدَّ كَثِیْرٌ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ لَوْ یَرُدُّوْنَكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ اِیْمَانِكُمْ كُفَّارًا١ۖۚ حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِهِمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ١ۚ فَاعْفُوْا وَ اصْفَحُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
وَدَّ کَثِیْرٌ : چاہا بہت مِنْ اَهْلِ الْكِتَابِ : اہل کتاب میں سے لَوْ يَرُدُّوْنَكُمْ : کاش تمہیں لوٹادیں مِنْ : سے بَعْدِ : بعد اِیْمَانِكُمْ : تمہارا ایمان كُفَّارًا : کفر میں حَسَدًا : حسد مِنْ عِنْدِ : وجہ سے اَنْفُسِهِمْ : اپنے دل مِنْ : سے بَعْدِ : بعد مَا : جبکہ تَبَيَّنَ : واضح ہوگیا لَهُمُ : ان پر الْحَقُّ : حق فَاعْفُوْا : پس تم معاف کر دو وَ اصْفَحُوْا : اور در گزر کرو حَتّٰى : یہاں تک يَأْتِيَ اللّٰهُ : اللہ لائے بِاَمْرِهٖ : اپنا حکم اِنَّ اللہ : بیشک اللہ عَلٰى : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز قَدِیْرٌ : قادر
وہ دن (یاد کرنے کے قابل ہے) جب ساق کی تجلی فرمائی جائے گی، اور سجدہ کی طرف بلایا جائے گا، تو سجدہ نہ کرسکیں گے،24۔
24۔ (یہ منکر و کافر لوگ) (آیت) ” یوم یکشف عن ساق “۔ اس دن سے مراد روز حشر کا ہونا تو سب کے نزدیک مسلم ہے سوال یہ پیدا ہوا ہے کہ کشف ساق سے کیا مراد ہے ؟ (آیت) ” ساق “۔ کے لفظی معنی تو پنڈلی کے ہیں۔ مابین الکعب والرکبۃ (قاموس) مابین الرکبۃ والقدم (لسان) محققین کا قول ہے کہ صفات باری میں سے یہ کوئی مخصوص صفت ہے۔ جس کی تجلی اس وقت ہوگی اور اسے کسی خاص ہی مناسبت سے ساق سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ قرآن مجید ہی میں حق تعالیٰ کیلئے آخر وجہ (چہرہ) اور ید (ہاتھ) اور حدیث میں رجل، اور قدم (پیر) کے الفاظ بھی تو آتے ہیں۔ اور یہ سب کلمات متشابہات کہلاتے ہیں۔ لیکن ان کی متعدد توجیہات وتاویلات ہوسکتی ہیں۔ ایک بدیہی اور صاف سی بات یہ ہے کہ خود محاورۂ عرب میں کشف ساق سے مراد امر صعب وامر دشوار کے اہتمام سے ہوتی ہے۔ عن ساق اے عن شدۃ امر کما یقال قامت الحرب علی ساق (تاج) الساق فی اللغۃ لامر الشدید وکشفہ مثل فی شدۃ الامر کما یقال للشحیح یدہ مغلولۃ ولاید ثم ولا غل وانما ھو مثل فی شدۃ البخل وکذلک ھذا (لسان) قال بعضھم انہ اشارۃ الی شدۃ فجعل لکل امر فظیع (راغب) یوم یشتد الامر ویصعب ولاکشف ثمہ والا ساق (مدارک) ائمہ تفسیر بلکہ صحابہ وتابعین سے بھی یہاں یہی معنی منقول ہیں۔ قال جماعۃ من الصحابۃ والتابعین من اھل التاول یبد وعن امر شدید (ابن جریر) عن ابن عباس قال ھو یوم کرب وشدۃ (ابن جریر) عن ابن عباس ؓ ھو الامر الشدید المفظع عن الھول یوم القیامۃ (ابن جریر) الی نحو ھذا ذھب مجاھد وابراھیم النخعی وعکرمۃ وجماعۃ وقد روی ایضا عن ابن عباس ؓ (روح) والجمھور علی ان الکشف عن الساق عبارۃ عن شدہ الامروصعوبۃ الخطب فمعنی یوم یشتد الامرو یصعب ولاکشف ثمہ ولا ساق (مدارک) (آیت) ” ویدعون الی السجود “۔ یہ سجدہ کا حکم مومن و کافر سب کے لئے عام ہوگا۔ یہ حکم کافروں کے حق میں محض توبیخی ہوگا گویا اس تجلی ساق کی یہ ایک تاثیر طبعی ہوگی کہ کافر و مومن سب ہی سجدہ کرنا چاہیں گے۔ مومن بآسانی قادر ہوجائیں گے، کافر و منافق قادرنہ ہو پائیں گے۔ لاتکلیفا ولکن توبیخا علی ترکھم السجود فی الدنیا (مدارک) لایدعون الی السجود تعبدا وتکلیفا ولکن توبیخا وتعنیفا علی ترکھم السجود فی الدنیا (کبیر) (آیت) ” فلایستطیعون “۔ اس سے یہ نکلا کہ کافر و منافق بھی اس وقت ارادہ سجدہ کا کریں گے لیکن اس پر قادر نہ ہو پائیں گے۔ وفیہ دلالۃ علی انھم یقصدونہ فلایتاتی منھم (روح)
Top