Tafseer-e-Jalalain - Al-Baqara : 109
وَدَّ كَثِیْرٌ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ لَوْ یَرُدُّوْنَكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ اِیْمَانِكُمْ كُفَّارًا١ۖۚ حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِهِمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ١ۚ فَاعْفُوْا وَ اصْفَحُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
وَدَّ کَثِیْرٌ : چاہا بہت مِنْ اَهْلِ الْكِتَابِ : اہل کتاب میں سے لَوْ يَرُدُّوْنَكُمْ : کاش تمہیں لوٹادیں مِنْ : سے بَعْدِ : بعد اِیْمَانِكُمْ : تمہارا ایمان كُفَّارًا : کفر میں حَسَدًا : حسد مِنْ عِنْدِ : وجہ سے اَنْفُسِهِمْ : اپنے دل مِنْ : سے بَعْدِ : بعد مَا : جبکہ تَبَيَّنَ : واضح ہوگیا لَهُمُ : ان پر الْحَقُّ : حق فَاعْفُوْا : پس تم معاف کر دو وَ اصْفَحُوْا : اور در گزر کرو حَتّٰى : یہاں تک يَأْتِيَ اللّٰهُ : اللہ لائے بِاَمْرِهٖ : اپنا حکم اِنَّ اللہ : بیشک اللہ عَلٰى : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز قَدِیْرٌ : قادر
بہت سے اہل کتاب اپنے دل کی جلن سے یہ چاہتے ہیں کہ ایمان لا چکنے کے بعد تم کو پھر کافر بنادیں حالانکہ ان پر حق ظاہر ہوچکا ہے تو تم معاف کرو اور درگزر کرو یہاں تک کہ خدا اپنا دوسرا حکم بھیجے بیشک خدا ہر بات پر قادر ہے
آیت نمبر 109 تا 112 ترجمہ : اور اہل کتاب میں سے اکثر یہ چاہتے ہیں لَو مصدر یہ ہے کہ کسی طرح تمہیں ایمان سے کفر کی طرف پھیر دیں، اس حسد کی وجہ سے جو خود ان کی طرف سے ہے، حَسَدًا مفعول لہٗ ہے (یعنی بلاوجہ) حسد پر ان کو ان کے خبیث نفس نے آمادہ کیا ہے، اس کے باوجود کہ تورات میں نبی کی بابت ان پر حق ظاہر ہوچکا ہے (اس کے باوجود) تم فعو و درگزر سے کام لو، اور نظر اندوز کرو اور ان سے بدلہ نہ لو، تاآنکہ ان سے قتال کے بارے میں خود اللہ کا حکم آجائے، بلاشبہ وہ ہر شئی پر قادر ہے، نماز قائم کرو، اور زکوٰۃ ادا کرو اور اپنے لئے جو بھلائی مثلاً نماز، صدقہ، تم آگے بھیجو گے تو تم اس کو یعنی اس کے اجر کو اللہ کے پاس پاؤ گے، جو کچھ تم کرتے ہو وہ اللہ کی نظر میں ہے وہ اس کا تم کو اجر دے گا، ان کا کہنا ہے کہ جنت میں یہود و نصاریٰ کے علاوہ کوئی نہ جائے گا، ھُود، ھائد کی جمع ہے، یہ بات مدینہ کے یہودیوں اور نجران کے نصاریٰ نے اس وقت کہی جب ان دونوں فریقوں نے آپ ﷺ کے سامنے مناظرہ کیا، یہود نے کہا : یہود کے سوا جنت میں کوئی نہ جائے گا، اور نصاریٰ نے کہا : نصاریٰ کے علاوہ کوئی جنت میں نہ جائے گا، یہ باتیں ان کی تمنائیں ہیں (یعنی باطل خواہشیں ہیں) آپ ان سے کہئے کہ اس بات پر اپنی دلیل پیش کرو، اگر تم اس دعوے میں سچے ہو۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : وَدَّ ماضی واحد مذکر غائب (س) مصدر، وَدٌّ، مَوَدَّۃٌ چاہنا، آرزو کرنا۔ قولہ : لَوْ مَصْدَریّۃ لَو حرف مصدری ہے جب فعل کے بعد واقع ہوتا ہے تو تمنی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، تقدیر عبارت یہ ہے وَدَّ کثیرٌ رَدَّکم الخ رَدَّ چونکہ صیَّرَ کے معنی میں ہے، دو مفعولوں کو نصب دیتا ہے، مفعول اول کُم ہے، اور ثانی کُفَّارًا ہے۔ قولہ : کائنًا مِن عِنْدِ اَنفُسِھِم مفسر علام نے کائنًا مقدر مان کر اشارہ کردیا کہ مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِھِم کائنًا محذوف کے متعلق ہو کر حَسَدًا کی صفت ہے۔ قولہ : مِنْ بَعْدِ مَاتَبَیَّنَ ، مِن بعدِ ، وَدَّ کے متعلق ہے، اور مَا مصدریہ ہے ای بَعْدَ تَبْیِیْنِ الحقِّ لَھُمْ ۔ قولہ : ھُوْدٌ جمع ھَائِدٍ ، ھَائد بمعنی تائب ابتداءً اس شخص کو ھائد کہتے تھے جس نے گوسالہ پرستی سے توبہ کرلی تھی، بعد میں پوری قوم کے لئے علم کے طور پر استعمال ہونے لگا، اس میں ایک اعتراض کے جواب کی طرف بھی شارہ ہے۔ اعتراض : مَن کان ھودًا۔ کَانَ کے اندر ضمیر مفرد کان کا اسم اور ھُوْدًا کان کی خبر ہے، جو کہ جمع ہے حالانکہ اسم و خبر میں مطابقت ضروری ہے۔ جواب : کان کے اسم کے مفرد لانے میں لفظ مَن کی رعایت کی گئی ہے، اور ھوداً کے جمع لانے میں مَن کے معنی کی رعایت کی گئی ہے اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ تفسیر و تشریح شان نزول : عمار بن یاسر ؓ اور حذیفۃ بن الیمان ؓ غزوہ احد سے جب لوٹ رہے تھے تو یہود کی ایک جماعت سے ملاقات ہوئی، یہود نے کہا : کیا ہم نے تم سے نہیں کہا تھا کہ یہودی مذہب حق ہے ؟ اور اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ سب باطل ہے اگر محمد کا دین حق ہوتا تو ان کے اصحاب قتل نہ کئے جاتے، حالانکہ محمد ﷺ کا دعویٰ ہے کہ جب وہ قتال کرتے ہیں تو اللہ ان کے ساتھ ہوتا ہے، تو عمار بن یاسر ؓ نے جواب دیا کہ عہد شکنی کا تمہارے یہاں کیا حکم ہے، یہود نے جواب دیا : نہایت بری ہے، تو حضرت عمار ؓ نے فرمایا کہ میں محمد ﷺ سے ان کی اتباع پر تاموت عہد کرچکا ہوں، یہود نے کہا : عمار بےدین ہوگیا، اور حضرت حذیفہ نے جواب دیا : رضیتُ باللہِ ربًّا، وبِالاِسلامِ دِینًا، والکعبۃ قبلۃً ، والقرآن امَامًا، والمؤمنینَ اِخوانًا چناچہ یہ حضرات واپس پہنچے اور اس واقعہ کی خبر آنحضرت ﷺ کو دی تو آپ ﷺ نے فرمایا : اَصبتُما الخیرَ واَفْلَحْتُمَا (تم خیر کو پہنچے اور کامیاب ہوئے) اس کے بعد وَدَّ کَثِیْرٌ مِّنْ اَھْلِ الْکِتَابِ نازل ہوئی۔ (صاوی) اے مسلمانو ! تم کو واپس کفر کی طرف لیجانے کی یہود کی خواہش اور تمنا کسی خیر خواہی اور ہمدردی کے جذبہ کی وجہ سے نہیں ہے، بلکہ مسلمانوں سے عناد اور حسد کی وجہ سے ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ ان پر اسلام کا حق ہونا اور محمد ﷺ کا انبی برحق ہونا واضح ہوگیا ہے، اس کے باوجود ایمان نہیں لائے لہٰذا مسلمانوں کو چاہیے کہ صبر اور عفو و درگذر سے کام لیتے رہیں، ان کے حسد وعناد کو دیکھ کر مشتعل نہ ہوں، ان سے بحث و مباحثہ کرنے میں اپنا قیمتی وقت ضائع نہ کریں، اور صبر کے ساتھ دیکھتے رہیں کہ اللہ ان کے ساتھ کیا کرتا ہے۔ عموماً مفسرین نے شان نزول کے مخصوص واقعہ کی وجہ سے یہاں اہل کتاب سے یہود یا احبار یہود مراد لئے ہیں، لیکن وَدَّ کَثِیْرٌ مِّنْ اَھْلِ الْکِتَابِ کی قرآنی الفاظ عام ہیں، اس عموم میں یہود و نصاریٰ دونوں داخل ہیں، مسیحیوں کی طرف ہے جو کھلا ہوا زبردست اور منظم اور علماء یہود کی طرف سے نسبۃً ہلکا اور مخفی پروپیگنڈہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف، سیاسی، معاشرتی، تاریخی غرضیکہ ہر قسم کا جاری رہتا ہے، وہ سب اسی حقیقت کے مظاہر ہیں، ان تمام سرگرمیوں اور کوششوں کا مقصود یہی ہوتا ہے کہ مسلمان اگر مسیحیت اور یہودیت کو قبول نہ بھی کریں تو کم از کم اپنے دین سے ضرور برگشتہ اور بدگمان ہوجائیں۔ تِلْکَ اَمٰنِیُّھُمْ (الآیۃ) یعنی دراصل ان کی یہ باتیں ہیں تو محض ان کے دلوں کی خواہشیں اور آرزوئیں مگر وہ انہیں بیان اس طرح کر رہے ہیں کہ گویا فی الواقع اسی طرح ہونے والا ہے۔ اللہ کے یہاں قوم و نسل کی قیمت نہیں ایمان اور عمل صالح کی قیمت ہے : کوئی بھی شخص محض قومیت کے زعم میں خود کو جنت کا ٹھیکیدار سمجھ لے تو یہ صرف اس کی خود فریبی ہے، جس کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں، اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی بھی قوم، نسل یا علاقہ اور وطن کی بنیاد پر مقبول و مقرب نہیں بن سکتی جب تک اس میں ایمان و عمل صالح کی روح موجود نہ ہو۔ پھر اصول ایمان تو ہر رسول کے زمانہ میں مشترک اور یکساں رہے ہیں، البتہ عمل صالح کی شکلیں ادلتی بدلتی رہتی ہیں، تورات کے زمانہ میں عمل صالح وہ سمجھا گیا جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور تورات کی تعلیم کے مطابق تھا، انجیل کے دور میں یقیناً عمل صالح وہی عمل تھا جو حضرت عیسیٰ اور انجیل کی تعلیم سے مطابقت رکھتا تھا، اور قرآن کے زمانہ میں وہی عمل صالح کہے جانے کا مستحق ہے جو نبی آخر الزمان محمد ﷺ کے فرمان اور اللہ کی کتاب قرآن کی ہدایت کے مطابق ہوگا۔ مطلب یہ کہ یہودو نصاریٰ کے اس اختلاف کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ دونوں قومیں جہالت کی باتیں کر رہی ہیں، دونوں میں سے کوئی بھی جنت کا ٹھیکیدار نہیں اور نہ ہی دونوں کے مذہب بےبنیاد اور بےاصل ہیں، بلکہ دونوں مذہبوں کی صحیح بنیاد موجود ہے۔ غلط فہمی کا سبب : غلط فہمی کا اصلی سبب یہ ہے کہ انھوں نے مذہب و ملت کی اصل روح یعنی عقائد و اعمال و نظریات کو چھوڑ کر نسلی یا وطنی بنیاد پر کسی قوم کو یہود ٹھہرایا اور کسی کو نصرانی سمجھا، جو یہود کی نسل سے تعلق رکھتا ہو یا یہود کے شہر میں بستا ہو یا مردم شماری میں خود کو یہود شمار کراتا ہو اس کو یہود سمجھ لیا گیا، اسی طرح نصرانیوں کی تشخیص و تعیین کی گئی، حالانکہ اصول ایمان کو توڑ کر اور اعمال صالحہ سے منہ موڑ کر نہ کوئی یہودی، یہودی رہتا ہے اور نہ نصرانی، نصرانی قرآن کریم میں اس اختلاف اور اس فیصلہ کا ذکر مسلمانوں کو سنانے اور متنبہ کرنے کے لئے ہے کہ کہیں وہ بھی اس قسم کی غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوجائیں کہ ہم تو پشتی مسلمان ہیں ہر دفتر اور رجسٹر میں ہمارا نام مسلمان کے خانہ میں درج ہے اور زبان سے بھی خود کو مسلمان کہتے ہیں، اس لئے جنت کے نیز ان تمام انعامی وعدوں کے وہی مستحق ہیں جو نبی کریم ﷺ کے ذریعہ مسلمانوں سے کئے گئے۔ اس سے یہ بات بخوبی واضح ہوگئی کہ کوئی شخص نہ محض دعوے سے حقیقی مسلمان بنتا ہے نہ مسلمان نام درج کرانے سے یا مسلمان کی صلب یا ان کے کسی شہر میں پیدا ہونے سے بلکہ مسلمان ہونے کے لئے اول اسلام ضروری ہے، اور اسلام کے معنی ہیں اپنے آپ کو سپرد کردینا دوسرے احسان، یعنی عمل سنت کے مطابق کرنا۔ لیکن قرآن کی اس تنبیہ کے باوجود بہت سے مسلمان اسی یہودی اور نصرانی غلطی کا شکار ہوگئے کہ خدا و رسول اور آخرت و قیامت سے بالکل غافل رہ کر اپنا نسلی مسلمان ہونا مسلمان ہونے کے لئے کافی سمجھنے لگے اور قرآن و حدیث میں فلاح دین و آخرت کے جو وعدے مسلمانوں سے کئے گئے ہیں خود کو ان کا مستحق سمجھ کر ان کے پورے ہونے کا انتظار کرنے لگے، اور جب وہ پورے ہوتے نظر نہیں آتے تو قرآن و حدیث کے وعدوں میں شک کرنے لگے، اس کو نہیں دیکھتے کہ قرآن نے محض نسلی مسلمانوں سے کوئی وعدہ نہیں کیا، جب تک وہ اپنے تمام ارادوں کو اللہ اور اس کے رسول کے تابع نہ کردیں، یہی خلاصہ ہے آیت مذکورہ بَلیٰ مَنْ اَسْلَمَ وَجْھَہٗ للہِ وَھُوَ مُحْسِنٌ فَلَہٗ اَجْرُہٗ عِنْدَ رَبِّہٖ وَلاَ خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْنَ کا۔ آج کل پوری دنیا کے مسلمان مصائب کا شکار کیوں ؟ آج کل پوری دنیا کے مسلمان طرح طرح کے مصائب و مشکلات کا شکار ہیں، اس کو دیکھ کر بہت سے ناواقف لوگوں کو یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ شاید ان آفات و مصائب کا سبب اسلام ہے، لیکن مذکورہ تحریر سے واضح ہوگیا کہ ان کا اصل سبب ہمارا اسلام نہیں بلکہ ترک اسلام ہے کہ ہم نے اسلام کا صرف نام باقی رکھا ہے، نہ اسلام کے عقائد ہمارے اندر نہ اخلاق نہ اعمال، پھر ہمیں کیا حق ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے لئے وعدوں اور انعاموں کا ہم انتظار کریں۔ ایک شبہ اور اس کا جواب : یہاں ایک (شبہ) سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ کچھ بھی سہی کم از کم نام تو اسلام کا لیتے ہیں، اور اللہ اور اس کے رسول کے نام لیوا تو ہیں اور جو کفار کھلے طور پر اللہ و رسول کی مخالفت کرتے ہیں، اسلام کا نام لینا بھی پسند نہیں کرتے وہ تو آج دنیا میں ہر طرح کی ترقی کر رہے ہیں، بڑی بڑی حکومتوں کے مالک ہیں، دنیا کی صنعتوں اور تجارتوں کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں ؛ لیکن اگر ذرا غور سے کام لیا جائے، تو یہ شبہ خودبخود ختم ہوجائے گا۔ اول تو اس لئے کہ دوست اور دشمن کے ساتھ معاملہ یکساں نہیں ہوا کرتا، دوست کو قدم قدم پر اور بات بات پر ٹوکا جاتا ہے، اور اولاد اور شاگرد کو ذرا ذرا سی بات پر تنبیہ کی جاتی ہے ؛ لیکن دشمن کے ساتھ یہ سلوک نہیں ہوتا، اس کو ڈھیل دی جاتی ہے اور وقت آنے پر دفعۃً پکڑ لیا جاتا ہے۔ مسلمان جب تک ایمان و اسلام کا نام لیتا ہے اور اللہ کی عظمت و محبت کا دم بھرتا ہے وہ دوستوں کی فہرست میں داخل ہے، اس کے برے اعمال کی سزا عموماً دنیا ہی میں دیدی جاتی ہے تاکہ آخرت کا بار ہلکا ہوجائے، بخلاف کافر کے کہ اس پر باغیوں کا قانون جاری ہے، دنیا کی ہلکی ہلکی سزاؤں سے اس کا بار عذاب ہلکا نہیں کیا جاتا، ان کو یک لخت عذاب میں پکڑا جائے گا، رسول اللہ ﷺ کے اس ارشادِ گرامی کا یہی مطب ہے ” کہ دنیا مومن کے لئے قید خانہ اور کافر کے لئے جنت ہے “۔
Top