Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mutaliya-e-Quran - Al-Baqara : 109
وَدَّ كَثِیْرٌ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ لَوْ یَرُدُّوْنَكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ اِیْمَانِكُمْ كُفَّارًا١ۖۚ حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِهِمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ١ۚ فَاعْفُوْا وَ اصْفَحُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
وَدَّ کَثِیْرٌ
: چاہا بہت
مِنْ اَهْلِ الْكِتَابِ
: اہل کتاب میں سے
لَوْ يَرُدُّوْنَكُمْ
: کاش تمہیں لوٹادیں
مِنْ
: سے
بَعْدِ
: بعد
اِیْمَانِكُمْ
: تمہارا ایمان
كُفَّارًا
: کفر میں
حَسَدًا
: حسد
مِنْ عِنْدِ
: وجہ سے
اَنْفُسِهِمْ
: اپنے دل
مِنْ
: سے
بَعْدِ
: بعد
مَا
: جبکہ
تَبَيَّنَ
: واضح ہوگیا
لَهُمُ
: ان پر
الْحَقُّ
: حق
فَاعْفُوْا
: پس تم معاف کر دو
وَ اصْفَحُوْا
: اور در گزر کرو
حَتّٰى
: یہاں تک
يَأْتِيَ اللّٰهُ
: اللہ لائے
بِاَمْرِهٖ
: اپنا حکم
اِنَّ اللہ
: بیشک اللہ
عَلٰى
: پر
كُلِّ شَيْءٍ
: ہر چیز
قَدِیْرٌ
: قادر
اہل کتاب میں سے اکثر لوگ یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح تمہیں ایمان سے پھیر کر پھر کفر کی طرف پلٹا لے جائیں اگرچہ حق ان پر ظاہر ہو چکا ہے، مگر اپنے نفس کے حسد کی بنا پر تمہارے لیے ان کی یہ خواہش ہے اس کے جواب میں تم عفو و در گزر سے کام لو یہاں تک کہ اللہ خود ہی اپنا فیصلہ نافذ کر دے مطمئن رہو کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے
[ وَدَّ : چاہا ] [ كَثِيْرٌ مِّنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ : اہل کتاب کی اکثریت ] [ لَوْ يَرُدُّوْنَكُمْ : کاش وہ لوگ پھیر دیں تم لوگوں کو ] [ مِّنْۢ بَعْدِ اِيْمَانِكُمْ : تمہارے ایمان کے بعد ] [ كُفَّارًا : کفر کرنے والی حالت ] [ ښ حَسَدًا : حسد کرتے ہوئے ] [ مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِهِمْ : اپنے جی ہی جی میں ] [ مِّنْۢ بَعْدِ مَا : اس کے بعد بھی کہ جو ] [ تَبَيَّنَ : واضح ہوا ] [ لَهُمُ : ان کے لیے ] [ الْحَقُّ ۚ: حق ] [ فَاعْفُوْا : پس تم لوگ معاف کرو ] [ وَاصْفَحُوْا : اور نظر انداز کرو ] [ حَتّٰى: یہاں تک کہ ] [ يَاْتِيَ : یہاں تک کہ لاءے ] [ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖ ۭ: اللہ اپنا فیصلہ ] [ اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ ] [ عَلٰي كُلِّ شَيْ ءٍ : ہر چیر پر ] [ قَدِيْرٌ : قدرت والا ہے ] 1 اللُّغۃ 2؛ 66: 1: (1) [ وَدَّ کَثِیْرٌ مِّنْ اَہْلِ الْکِتٰب ] A ” وَدَّ “ کا مادہ ” و د د “ اور وزن (اصلی) ” فعل “ ہے۔ اس سے فعل مجرد باب سمع اور فتح دونوں سے آتا ہے۔ یعنی وَدَّ … یَوَدًّ وَ مَوَدَّۃً ۔ ماضی مضارع در اصل وَدَدَ یَؤْدَدُ تھے ‘ پھر مضاعف کے قاعدے کے مطابق صیغہ ماضی میں مثل اول متحرک کو ساکن کر کے مثل ثانی میں مدغم کردیا جاتا ہے یعنی وَدَدَ = وَدْدَ … اور صیغہ مضارع میں متحرک مثل اول کی حرکت ما قبل ساکن حرف علت ” و “ کو منتقل ہوجاتی ہے اور اب ساکن مثل اول مثل ثانی میں مدغم ہوجاتا ہے یعنی یَوْدَدُ = یَوَدْدُ = یَوَدُّ ۔ اس فعل میں بنیادی معنی ”… سے محبت کرنا ‘ … کو دل سے چاہنا ‘ … کو دوست رکھا “ ہیں اور پھر اس میں ”… کی تمنا کرنا۔ آرزو کرنا اور کی خواہش کرنا “ کے معنی پیدا ہوتے ہیں۔ اس فعل کا مفعول بنفسہ بھی آتا ہے۔ لیکن زیادہ تر اس کا مفعول حرف تمنا ” لَوْ “ (کاش کہ) یا ” اَنْ “ (کہ) سے شروع ہونے والے جملے کی صورت میں آتا ہے۔ قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے مختلف صیغے 16 جگہ آئے ہیں جن میں سے صرف ایک جگہ (آل عمران : 117) یہ مفعول بنفسہٖ کے ساتھ آیا ہے۔ تین جگہ ” اَنْ “ کے ساتھ باقی سب جگہ ” لَوْ “ کے ساتھ آیا ہے اور بعض دفعہ دونوں معنی کو اردو میں صرف ” چاہنا “ یا ” دل سے چاہنا “ کے ذریعے ظاہر کرتے ہیں۔ اس فعل مجرد کے متعدد مصادر آئے ہیں ‘ ان میں سے دو (وَدٌّ (بضم الواو) اور ” مَوَدَّۃٌ“ قرآن کریم میں آئے ہیں۔ نیز مزید فیہ کے باب مفاعلہ سے ایک صیغہ فعل کے علاوہ اس مادہ سے متعدد ماخوذ و مشتق اسم (وَدُوْد ‘ وَدٌّ اور مَوَدَّۃ وغیرہ) بھی قرآن میں وارد ہوئے ہیں۔ نیز دیکھیے البقرہ : 96 [ 2: 59: 1 (3)] زیر مطالعہ فعل ” وَدَّ “ صیغہ ماضی ہے مگر بیان واقعہ اور سیاق عبارت کے لحاظ سے اکثر مترجمین نے اس کا ترجمہ بزمانہ حال ” درست رکھتے : چاہتے : دل سے چاہتے : یہ چاہتے ہیں “ کی صورت میں کیا ہے۔ ایک آدھ نے ” چاہا “ (بصورت ماضی) بھی ترجمہ (لفظی) کیا ہے اور بعض نے ” وَدَّ “ کا فاعل ” اہل کتاب “ (جن کا ذکر آگے) آ رہا ہے) کی بجائے ان کے ” دل “ کو ہی بتا کر با محاورہ بصورت ”… کا دل چاہتا ہے “ سے کیا ہے ‘ جس میں ” تمنا “ والا مفہوم موجود ہے۔ B ” کَثِیرٌ“ (بہت سے : بہت : بہتیرے) ۔ جو ” ک ث ر “ سے فعیل کے وزن پر اسم مبالغہ ہے ‘ اردو میں مستعمل ہے۔ اس کے متعلق مفصل بحث البقرہ : 26 [ 2: 19: 1 (10)] میں ہوئی تھی۔ C ” مِنْ “ (میں سے) بہت دفعہ گزرا ہے۔ نیز دیکھیے البقرہ : 3 [ 2: 2: 1 (5)] D ” اَھْلِ الْکِتٰبِ “ (کتاب والے : کتابی : اہل کتاب) اس ترکیب اضافی میں ” کتاب “ تو معروف لفظ ہے۔ دیکھیے البقرہ : 2 [ 2: 1: 1 (2)] اور ’ اَھْل “ … جس کا مادہ ” اھـ ل “ اور وزن فَعْلٌہے فعل مجرد ” اَھَلَ یَأھُلُ “ (نصر سے) کے معنی ” آباد ہونا “ ہیں اور جو زیادہ تر مجہول استعمال ہوتا ہے ‘ مثلاً ” اُھِلَ الْمَکَانُ “ (جگہ آباد کی گئی : ہوگئی۔ اس میں رہنے والے آگئے) … تاہم اس مادہ سے کسی قسم کا کوئی صیغۂ فعل قرآن کریم میں کہیں نہیں آیا۔ بلکہ صرف یہی لفظ (اَھْل) مرکب صورتوں میں 121 مقامات پر آیا ہے اور اس کی جمع سالم ” اَھْلُونَ “ مختلف حالتوں (رفع ‘ نصب ‘ جر) میں مضاف ہو کر بصورتِ ” اَھْلُو …: اَھْلِی …“ چھ دفعہ آئی ہے ‘ بلکہ یہ لفظ ” اَھْل “ واحد ہو یا جمع ہمیشہ مضاف ہو کر ہی استعمال ہوتا ہے۔ اس کی جمع مکسر ” اَھَالٍ “ (بروزن لیالٍ = راتیں) بھی آتی ہے۔ تاہم یہ جمع (مکسر) قرآن کریم میں نہیں آئی اور یہی جمع اردو میں بصورتِ ” اَھالِی “ استعمال ہوتی ہے ‘ جو در اصل عربی ہی ہے۔ ۔ لفظ ” اَھل “ کا اردو ترجمہ موقع استعمال کی مناسبت سے ” گھر والے ‘ افرادِ کنبہ ‘ قریبی رشتہ دار ‘ بیوی بچے ‘ پیروکار ‘ حقدار ‘ مالک مستحق ‘ سزاوار ‘ باشندے “ کی صورت میں اور بعض دفعہ ” مضاف ‘ اصحاب اور اُولُو “ کی طرح) ” والے “ کے ساتھ ترجمہ کرتے ہیں مثلاً اھل القرٰی (بستیوں والے) ‘ اھل البیتِ (گھر والے) ‘ اھل النّارِ (دوزخ والے) وغیرہ اور جمع کے مفہوم کے باوجود یہ لفظ عموماً بصورتِ واحد ہی استعمال ہوتا ہے۔ صرف ایک جگہ (المدثر : 56) یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے لیے ” سزاوار ‘ لائق “ اور ” والا “ (واحد) کے ساتھ استعمال ہوا ہے۔ یعنی ” اَھْلُ التَّقْوٰی وَ اَھْلُ الْمَغْفِرَۃُِ “ (ڈرنے کے لائق اور بخشش والا) ۔ ۔ ” اھل الکتاب “ کا ترجمہ تو ” کتاب والے “ ہے۔ عموماً اس سے مراد مسیحی اور یہودی لیے جاتے ہیں۔ اور زیر مطالعہ آیت میں بھی یہ ترکیب اسی مفہوم کے ساتھ آئی ہے … اس حصہ آیت (وَدَّ کَثِیْرٌ مِّنْ اَہْلِ الْکِتٰب) کا ترجمہ لفظی بنتا ہے ” دل سے چاہا بہتیروں نے کتاب والوں میں سے “ جس کی ایک با محاورہ صورت ” دل چاہتا ہے بہت سے اہل کتاب : کتاب والوں : کتابیوں کا “ بھی ہے ‘ تاہم اکثر مترجمین نے ” اہل کتاب “ کی اردو میں رائج (فارسی) ترکیب کو ہی استعمال کیا ہے اور اردو محاورے کے مطابق فعل (وَدَّ ) کا ترجمہ بھی آخر پر لائے ہیں “ یعنی بہت سے اہل کتاب : اکثر اہل کتاب : اہل کتاب سے بہت سے لوگ : اہل کتاب میں سے بہتیرے چاہتے ہیں : دل سے تو یہ چاہتے ہیں : دل ہی سے چاہتے ہیں “ کی صورت میں۔ 2: 66: 1 (2) [ لَوْ یَرُدُّوْنَکُمْ مِّنْم بَعْدِ اِیْمَانِکُمْ کُفَّارًا ] A ” لَوْ “ (کاش : کہ : کی طرح) ۔ گرائمر والے اے حرفِ تقدیر کہتے ہیں کیونکہ عموماً اس کے ذریعے کوئی اندازہ بیان کیا جاتا ہے۔ یہاں یہ ” تمنا “ کے مفہوم میں آیا ہے۔ مزید یکھیے [ 2: 15:1 (7)] B ” یَرُدُّوْنَکُمْ “ (پھیر دیں : پھیر کر : پھر سے بنادیں : بنالیں وہ تم کو …) اس میں آخری ضمیر منصوب (کُمْ ) بمعنی ” تم کو : تمہیں “ ہے اور اس سے پہلے صیغۂ فعل (مضارع) ” یَرُدُّونَ “ کا مادہ ” ر د د “ اور وزن اصلی ” یَفْعُلُونَ “ ہے ‘ جو در اصل ” یَرْدُدُوْنَ “ تھا ‘ پھر مثل اوّل کی حرکت اس سے ما قبل ساکن (ر) کو دے کر مثلین کو مدغم کردیا گیا ‘ یعنی ” یَرْدُدُوْنَ = یَرُدْدُوْنَ = یَرْدُّوْنَ ۔ ۔ اس مادہ سے فعل مجرد ” رَدَّ یَرُدُّ “ (در اصل رَدَدَ - یَرْدُدُ ) رَدًّ اَوْ مَرَدًّا (باب نصر سے) کے بنیادی معنی ” پھیر دینا ‘ واپس لانا “ ہیں۔ اس فعل کے استعمالات اور معانی پر البقرہ : 85 [ 2: 52: 1 (8)] میں بات ہوئی تھی۔ یہاں اس کے جو مختلف لفظی یا با محاورہ تراجم کیے گئے ہیں وہ اوپر لکھ دیئے گئے ہیں۔ سب کا مفہوم ایک ہی ہے۔ C ” مِنْ بَعْدِ اِیْمَانِکُمْ “ (تمہارے ایمان : لائے : لا چکنے : لے آنے : مسلمان ہوئے : ہونے : (کے) پیچھے : کے بعد) ۔ اس پوری ترکیب جاری پر تو آگے ” الاعراب “ میں مزید بات ہوگی۔ مرکب کے ابتدائی حصہ (مِنْ بَعْدِ ) کے استعمالات اور معنی پر البقرہ : 51 [ 2: 33: 1 (7)] میں بحث ہوچکی ہے۔ اور ”… اِیمَانِکُمْ “ کی آخری ضمیر مجرور (کُمْ ) تو بمعنی ” تمہارا : تمہارے “ ہے۔ اور لفظ ” اِیمَان “ (بمعنی ” ایمان لے آنا “ ) پر (جو باب افعال کا مصدر ہے) البقرہ : 3 [ 2: 2: 1 (1)] میں بات ہوچکی ہے۔ ” ایمان لے آنا “ کی بجائے ” مسلمان ہونا “ کا ترجمہ بلحاظ مفہوم (زیر مطالعہ عبارت کی حد تک تو) درست ہے۔ تاہم ” ایمان “ اور ” اسلام “ کے باہمی تعلق اور دقیق فرق کے بارے میں ذہن میں واضح تصور ہونا چاہیے جو قرآن کریم کی مختلف آیات میں موجود ہے اور محتاج مطالعہ ہے۔ D ” کُفَّارًا “ (کافر) اس لفظ کی (یہاں) نصب پر تو آگے ” الاعراب “ میں بات ہوگی۔ لغوی اعتبار سے یہ لفظ (کُفَّار) اسم الفاعل (کَافِر کی ایک جمع مکسر ہے جو قرآن کریم میں کم و بیش بیس جگہ آئی ہے (ایک اور جمع مکسر ” الکَفَرَۃ “ بھی ایک جگہ آئی ہے) ورنہ زیادہ تر تو قرآن کریم میں اس لفظ کی جمع مذکر سالم ” الکَافِرُون - الکَافِرِین) ہی استعمال ہوئی ہے۔ اس لفظ کے مادہ (کر) سے فعل مجرد کے باب معنی وغیرہ پر پہلی دفعہ البقرہ : 6 [ 2: 5: 1 (1)] میں مفصل بات ہوئی تھی۔ یہ الفاظ (کَافِر - کُفَّار) اردو میں اتنے متعارف ہیں کہ ترجمہ کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی۔ اردو میں لفظ ” کَافِر “ بطور جمع بھی استعمال ہوتا ہے۔ جیسے ” کافر بھاگ گئے “ میں۔ اسی لیے اکثر مترجمین نے ” کُفَّار “ کا ترجمہ ” کافر “ ہی کردیا ہے۔ ایک آدھ نے سابقہ عبارت (پھیر دیں) کی مناسبت سے اس لفظ کا ترجمہ ” کفر کی طرف “ کیا ہے جو بلحاظ مفہوم ہی درست قرار دیا جاسکتا ہے۔ ۔ الفاظ اور تراکیب کے الگ الگ لفظی اور با محاورہ ترجموں کی مدد سے (جو اوپر دیئے گئے ہیں) اب آپ مندرجہ بالا دونوں حصۂ عبارت (وَدَّ کَثِیْرٌ مِّنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ لَوْ یَرُدُّوْنَکُمْ مِّنْ بَعْدِ اِیْمَانِکُمْ کُفَّارًا) کا ترجمہ مختلف انداز (مگر یکساں مفہوم) میں کرسکتے ہیں۔ تاہم ابھی یہ عبارت آگے چلتی ہے اور پورا ترجمہ اختتامِ آیت کے بعد ہی ممکن ہوگا۔ 2: 66: 1 (3) [ … حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِہِمْ …] A ” حَسَدًا “ (حسد : جلن : سے : کی وجہ سے : رکھ کر : کے بب : کی راہ سے) اس لفظ کی (یہاں) نصب پر تو ” الاعراب “ میں بات ہوگی۔ اس کا مادہ (جسیا کہ ظاہر ہے) ” ح س د “ اور وزن ” فَعَلٌ“ ہے جو یہاں منصوب آیا ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد حَسَدَ … یَحْسُدُ حَسَدًا (نصر سے) آتا ہے اور اس کا عام اردو ترجمہ ”… سے حسد کرنا “ کرسکتے ہیں۔ کیونکہ لفظ ” حَسَد “ (جو اس فعل مجرد کا مصدر ہے) اردو میں رائج اور مستعمل ہے۔ عربی میں اس لفظ (اور اس کے فعل) کا مطلب ہے ” کسی مستحق شخص کی کسی خداداداد نعمت کو خود چھین لینے یا کم از کم اس شخص سے چھن جانے کی خواہش اور تمنا رکھنا۔ “ اور اس مقصد کے لیے ہر طرح کی تدبیر کرنا بھی اس کے مفہوم میں شامل ہے۔ جس شخص سے حسد کیا جائے اور جس چیز (نعمت) کی وجہ سے حسد کیا جائے وہ دونوں مفعول بنفسہٖ (منصوب) بھی آتے ہیں اور دوسرے مفعول (وجہ حسد چیز) پر ” عَلٰی “ بھی لگتا ہے۔ مثلاً کہتے ہیں : ” حَسَدَہُ الشَّیْئَ وَ حَسَدَہُ عَلیَ الشَّیْئِ “ (اس نے اس سے چیز کا : کی وجہ سے : حسد کیا) ۔ بعض دفعہ دوسرا مفعول (وجہ حسد) محذوف یا غیر مذکور ہوتا ہے اور بعض دفعہ دونوں مفعول محذوف ہوتے ہیں۔ قرآن کریم میں اس فعل سے تین صیغے (تین جگہ) آئے ہیں اور تینوں طرح استعمال ہوتے ہیں [ یعنی دونوں مفعول کے حذف کے ساتھ ‘ صرف دوسرے مفعول کے حذف کے ساتھ اور دوسرے مفعول پر ” عَلٰی “ کے ساتھ ] بعض مترجمین نے اس کا ترجمہ ” جلن “ یا ” دلی جلن “ کی صورت میں کیا ہے ‘ جو حسد کی خاصیت یا حاسد کی کیفیت کو ظاہر کرتا ہے۔ B ” مِنْ عِنْدِ …“ (کے پاس سے : … کی ہی جانب سے : … کی طرف سے) ” عِنْدَ “ (ظرف منصوب) کی اصل ‘ اس کے معنی و استعمال اور اس پر ” مِنْ “ (الجارۃ) کے استعمال پر البقرہ : 54 [ 2: 34: 1 (8)] میں مفصل بات ہوچکی ہے۔ C ”… اَنْفُسِھِمْ “ (… ان کی جانوں کے : … اپنے اندر کے : … ان کے دلوں ہی …: اپنے ہی دلی…) عربی کے کسی بھی مرکب جاری یا اضافی کی طرح اس پوری ترکیب (مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِھِمْ ) کے اردو ترجمہ میں پہلے ” اَنْفُسِھِمْ “ اور پھر ” مِنْ عِنْدِ “ کا ترجمہ کرنا پڑتا ہے اسی لیے اس کا بالکل لفظی ترجمہ ” جانوں اپنی کے پاس سے “ کیا گیا ہے جسے با محاورہ کرنے کے لیے ” اپنے اندر سے : خود ان کے دلوں ہی سے : ان کے نفسوں میں سے : اپنے ہی دلوں سے “ کی صورت میں دی گئی ہے۔ ۔ ” انفسھم “ میں آخری مجرور ضمیر ” ھم “ بمعنی ” ان کے “ ہے اور ” اَنْفُس “ بمعنی ” جانیں “ جمع مکسر ہے ‘ جس کا واحد ” نفسٌ“ ہے۔ اس مفرد کلمہ (نفس) اور خود زیر مطالعہ ترکیب (انفسِھم سے ملتی جلتی ترکیب ” انفسَھم “ [ یعنی صرف ” انفس “ کی اعرابی حالت کے فرق کے ساتھ ] پر البقرہ : 9 [ 2: 8: 1 (4)] میں مفصل بات ہوچکی ہے۔ ۔ اس طرح اس پرے حصہ عبارت (حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِھِمْ کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ” حسد سے پاس جانوں اپنی کے “ یا ” حس کر کر (کرتے ہوئے) اپنے اندر سے “ … جسے با محاورہ کرتے ہوئے ” بسبب اپنے دلی حسد کے : حسد کی وجہ سے جو خود ان کے دلوں ہی سے ہے : اپنے دلی حسد کی وجہ سے : اپنے ہی دلوں کی جلن سے : اپنے دلوں میں حسد رکھ کر : اپنے دل کی جلن سے : حسد کی راہ سے جو ان کے نفسوں میں (ہے) “ کی صورت دی گئی ہے۔ ان تمام تراجم میں ” انفس “ کا ترجمہ ” دل : دلوں “ سے کرنے کی وجہ یہی ہے کہ اس میں ایک اندرونی پوشیدہ کیفیت کا ذکر ہے۔ اسی لیے قرآن کریم میں ” نفوس : انفس (جانو) صُدور (سینو) قلوب (دلوں) “ کئی مقامات پر قریباً ہم معنی (یا ایک جیسی نفسیاتی کیفیت کے لیے) استعمال ہوئے ہیں۔ بعض تراجم میں لفظ ” جو “ لانے کی وجہ آگے ” الاعراب “ میں بیان ہوگی۔ 2: 66: 1 (4) [ … مِّنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمُ الْحَقُّ …] A ” مِنْ بَعْدِ مَا “ (پیچھے اس کے جو : بعد اس کے کہ : باوجود یہ کہ : حالانکہ) ” مِنْ بَعْدِ …“ تو ابھی اوپر گزرا ہے۔ یہاں ” مِنْ بَعْدِ …“ کا مضاف الیہ وہ جملہ ہے جو ” مَا “ سے شروع (ہو کر … الحق پر ختم) ہوتا ہے۔ اس سے پہلے ہی ترکبی (مِن بَعْدِ مَا) البقرہ : 75 [ 2: 47؛ 1 (5)] میں زیر بحث آچکی ہے۔ اس کے ” ما “ کی مصدریت پر آگے ” الاعراب “ میں بات ہوگی۔ C ” تَبَیَّنَ “ (ظاہر ہوگیا : چکا : مکمل چکا : واضح ہوچکا : خوب ظاہر ہوچکا) اس لفظ کا مادہ ” ب ی ن “ اور وزن ” تَفَعَّلَ “ ہے۔ یعنی یہ اس مادہ سے باب تفعُّل کا صیغہ ماضی (واحد مذکر غائب) ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد کے باب ‘ معنی اور استعمال کے بیان کے علاوہ اس سے مزدی فیہ کے باب تفعیل کے معنی وغیرہ پر بھی البقرہ : 68 [ 2: 43: 1 (6)] میں مفصل بات ہوچکی ہے۔ ۔ ” تَبَیَّنَ یَتَبَیَّنُ “ کے معنی عموماً تو ہوتے ہیں ” طاہر اور واضح ہوجانا “ اور چونکہ باب تفعُّل کی ایک خصوصیت ” تکلف ‘ کوشش اور بنانا سنوارنا “ بھی ہے اس لیے اس فعل کا زیادہ بہتر مفہوم ” خوب طاہر ہوجانا ‘ اچھی طرح واضح ہوجانا “ کی صورت میں ادا کیا جاسکتا ہے۔ جس شخص وغیرہ پر بات واضح ہوجائے اس کے لیے عربی میں لام (لِ ) کا صلہ لگتا ہے ‘ مثلاً کہیں گے ” تَبَیَّنَ لَہٗ “ (اس پر : کے لیے : واضح ہوگیا) یعنی اس کے اردو ترجمہ میں ” کے لیے “ کی بجائے ” پر “ لگ سکتا ہے ‘ مگر عربی میں ” تَبَیَّنَ عَلَیْہِ “ کہنا غلط ہوگا۔ ۔ اوپر ہم نے اس فعل کے معنی فعل لازم کی صورت میں بیان کیے ہیں ‘ تاہم یہی فعل بطور متعدی بھی استعمال ہوتا ہے۔ یعنی یہ فعل ” خوب واضح کرنا ‘ ظاہر کرنا “ کے معنی بھی دیتا ہے۔ مثلاً کہہ سکتے ہیں ” تَبَیَّنَ الشَّیْئٌ“ (چیز واضح ہوگئی) اور ” تَبَیَّنَ الشَّیئَ “ (اس نے چیز واضح کردی) … بلکہ یہ عجیب بات ہے کہ اس مادہ (ب ی ن) سے فعل مجرد کی ایک صورت [ بَانَ یَبِینُ بَیانًا ] کے علاوہ اس سے باب تفعیل ‘ تفعّل ‘ اِفعال اور استفعال سے بھی فعل لازم اور متعدی دونوں طرح (اور ہم معنی) استعمال ہوتے ہیں ‘ مثلاً کہیں گے بَانَ الشَّیئُ و بَیَّنَ وَ تَبَیَّنَ وَ اَبَانَ وَ اسْتَبَانَ (سب کا مطلب ہے چیز واضح ہوگئی) اور اسی کو بطور متعدی یوں بھی کہہ سکتے ہیں : بَانَ الشَّیئَ وَ بَیَّنَہُ وَ تَبَیَّنَہُ وَ اَبَانَہُ وَ اسْتَبَانَہُ (سب کا مطلب ہے ” اس نے چیز کو واضح کردیا “ ) ” بَانَ یَبِینُ “ اور ” بَیَّنَ یُبَیِّنُ “ کے متعلق یہی بات (لازم متعدی استعمال والی) البقرہ : 68 [ 2: 43: 1 (6)] میں بھی بیان ہوئی تھی۔ بابِ ” تفعّل “ کی وضاحت یہاں ہوگئی ہے۔ اسی مادے سے باب افعال اور استفعال کے استعمال آگے آئیں گے۔ ۔ ثلاثی مجرد والا استعمال قرآن کریم میں نہیں آیا مگر مذکورہ بالا مزید فیہ کے چاروں افعال قرآن کریم میں استعمال ہوئے ہیں اگرچہ قرآن کریم می اس مادہ سے باب تفعیل اور افعال کا زیادہ استعمال بطور متعدی اور باب تفعُّل اور استفعال کا زیادہ استعمال بطور لازم ہوا ہے۔ ۔ اس فعل (تَبَیَّنَ ) کے ایک معنی ” کسی بات یا معاملے کی وضاحت کے لیے (جلد بازی کی بجائے ٹھنڈے دل سے) غور و فکر سے کام لینا “ بھی ہیں جس کا عام فہم اردو ترجمہ ” تحقیق کرلینا ‘ تحقیق سے کام لینا ‘ اچھی طرح تحقیق کرلینا “ کی صورفت میں کیا جاسکتا ہے۔ یہ استعمال بھی قرآن کریم میں متعدد جگہ آیا ہے۔ مزید بات حسب موقع ہوگی۔ ان شاء اللہ۔ ۔ اس فعل (تَبَیَّنَ ) سے مختلف صیغے قرآن کریم میں کم و بیش اٹھارہ جگہ آئے ہیں۔ ان میں سے گیارہ جگہ یہ فعل لام کے صلہ کے ساتھ (یعنی جس پر بات واضح ہو ‘ اس کے ذکر کے ساتھ) آیا ہے ‘ باقی مقامات پر عمومی وضاحت (مثلاً سب ہی پر) کے لیے آیا ہے یا ” تحقیق کرلینا “ کے معنی میں آیا ہے اور کم از کم ایک موقع (سبائ : 14) پر اس کے لازم متعدی دونوں طرح استعمال کا امکان بھی ہے۔ C ” لَھُمْ “ (ان کے لیے : ان پر) یہ لام الجر + ضمیر جمع غائب (ھم) کا مرکب ہے جس میں ضمیر کی آخری ساکن میم کو آگے ملانے کے لیے ما قبل والی ہائے مضمومہ (ہُ ) کی مناسبت سے ضمہ (-ُ ) دیا گیا ہے۔ یہاں لام الجر ” لِ “ جو ضمیر کے ساتھ آنے کی وجہ سے ” لَ “ ہوگیا ہے) وہی صلہ ہے جو فعل تَبَیَّنَ کے ساتھ (… پر واضح ہونا) کے مفہوم کے لیے آتا ہے جس کے لیے یہاں ضمیر ” ھُمْ ‘ ہے جس سے مراد (مرجع) اہل کتاب کی وہ اکثریت ہے جس کا ذکر شروع آیت میں آیا ہے۔ D ” الحَقُّ “ (حق : سچ) اپنے بہت سے (بنیادی 9 عربی معانی کے ساتھ یہ لفظ اردو میں اتنا متعارف اور مستعمل ہے کہ اس کی ترجمہ کی ضرورت کبھی محسوس نہیں ہوتی۔ ویسے اس کے متعلق مفصل لغوی بحث البقرہ : 26 [ 2: 19: 1 (6)] میں گزر چکی ہے۔ ۔ اس طرح اس حصہ آیت (مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَھُمُ الْحَقُّ ) کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ” پیچھے : بعد : اس کے جو کہ ظاہر : واضح ہوگیا ان کے لیے حق) جسے با محاورہ بناتے ہوئے ” بعد اس کے : اس کے بعد کہ : ظاہر ہوچکا : کھل چکا : ان پر : حق “ کی صورت دی گئی ہے۔ بعض نے جملے کی اردو ترتیب و ترکیب کی بناء پر ” تَبَیَّنَ لَھُمُ الْحَقُّ “ کے ترجمہ میں ” الحَقُّ ‘ کا ترجمہ پہلے اور پھر ” لَھُمْ “ کا ترجمہ اور آخر پر فعل ” تَبَیَّنَ “ کا ترجمہ کیا ہے ‘ یعنی بصورت ” حق ان پر خوب ظاہر ہوچکا ہے : (حالانکہ) حق بات ان پر کھل چکی ہے “ اور بعض نے اردو جملے کی اسی ترکیب کی بناء پر سب سے پہلے ” لَھُمْ “ کا ترجمہ اور پھر ” الحَقُّ “ کا ترجمہ اور بعد میں فعل ” تَبَیَّنَ “ کا ترجمہ کیا ہے (اردو کے جملہ فعلیہ میں فعل - فاعل مفعول کے بعد ‘ آخر پر آتا ہے) یعنی تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ ترجمہ کو ” ان پر حق ظاہر ہوچکا : واضح ہوچکا ہے “ کی صورت دی ہے … اور ایک ترجمہ ” حق واضح ہوئے پیچھے “ کی صورت میں کیا گیا ہے۔ اس میں ” لھم “ کا ترجمہ نظر انداز ہوگیا ہے اگرچہ مفہوم درست ہے۔۔ ۔ مندرجہ بالا چار حصہ ہائے عبارت [ ۔ وَدَّ کَثِیْرٌ مِّنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ ۔ لَوْ یَرُدُّوْنَکُمْ مِّنْ بَعْدِ اِیْمَانِکُمْ کُفَّارًا ۔ حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِہِمْ ۔ مِّنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمُ الْحَقُّ ] کا مجموعی ترجمہ (کیونکہ یہ در اصل ایک ہی مربوط طویل جملہ ہے) جزوی فرق کے ساتھ … عموماً چاروں اجزاء جملہ کی اسی ترتیب کے ساتھ کیا گیا ہے۔ البتہ دو مترجمین نے (غالباً اردو محاورہ کی خاطر) پہلے ” کَثِیْرٌ مِّنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ “ کا ‘ پھر ” حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِہِمْ “ کا ترجمہ کرنے کے بعد (اردو جملہ فعلیہ کے مطابق) فعل ماضی ” وَدَّ “ کا ترجمہ (بزمانہ حال) اور پھر اس کے بعد ” لَوْ یَرُدُّوْنَکُمْ مِّنْ بَعْدِ اِیْمَانِکُمْ کُفَّارًا “ کا ترجمہ کیا ہے۔ یعنی بصورت ” اہل کتاب سے بہت سے لوگ : بہت سے اہل کتاب : دل میں حسد رکھ کر : اپنے دل کی جلن سے : یہ چاہتے ہیں کہ مسلمان ہونے کے بعد : ایمان لا چکنے کے بعد : پھر تم کو : تم کو پھر : کافر بنادیں۔ “ اگرچہ اس ترجمہ کی بڑی وجہ تو اردو محاورہ اور جملے کی اردو ترتیب کا لحاظ ہی ہے ‘ تاہم اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ کلمہ ” حَسَدًا “ کا تعلق فعل ” وَدَّ ‘ سے ہے یا فعل ” یَرُدُّونَ “ سے ؟ لہٰذا اس پر مزید بات ” الاعراب “ میں ہوگی۔ ۔ کم از کم ایک مترجم نے ” غالباً اردو محاورے کے جوش میں) آیت کے مذکورہ بالا تمام اجزاء کی ترتیب کو الٹ پلٹ کر (یعنی پہلے A - وَدَّ پھر D + وَدَّ پھر C اور آخر پر B کرتے ہوئے) ترجمہ یوں کیا ہے ” اکثر اہل کتاب : باوجود یہ کہ ان پر حق ظاہر ہوچکا ہے : (پھر بھی) اپنے دلی حسد کی وجہ سے : چاہتے ہیں کہ : تمہارے ایمان لائے پیچھے پھر تم کو کافر بنادیں “۔ یہ ترجمہ اردو محاورے کے لحاظ سے بھی اور مفہوم عبارت کو واضح کرنے کے لحاظ سے بھی بہت عمدہ ہے۔ مگر اس قسم کے ترجمہ کو بین السطور (عربی عبارت کے نیچے) لکھنے سے عام (غیر عربی دان) قاری کو کچھ پتہ نہیں چلتا کہ کس عبارت کا کہاں اور کیا ترجمہ کیا گیا ہے ؟ … اس قسم کے با محاورہ ‘ رواں اور سلیس (اور آزاد) ترجمہ کے لیے مناسب یہ ہے کہ اصل (پوری) مجموعی عربی عبارت (بصورت آیت یا قطعۂ آیات) اور ترجمہ الگ الگ ایک دوسرے کے بالمقابل یا اوپر نیچے … مگر بین السطور نہیں … لکھے جائیں ‘ جیسا کہ اکثر انگریزی تراجم میں اور بعض تفاسیر میں کیا گیا ہے۔ جہاں تک اصل ترجمہ کی صحت ‘ انتخابِ الفاظ کی موزونیت اور اصل (عربی عبارت) کی نحوی ترکیب کی رعایت کا تعلق ہے تو اس کو جانچنا تو عربی دانی کا محتاج ہے۔ گزشتہ سے پیوستہ 2: 66: 1 (5) [ فَاعْفُوْا وَاصْفَحُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖ ] عبارت میں دو کلمات (اعفوا : اصفحوا “ نئے یعنی پہلی دفعہ (بلحاظ مادہ) آئے ہیں ‘ جن کی وضاحت توجہ طلب ہوگی۔ باقی کلمات بلحاظ اصل پہلے گزر چکے ہیں۔ A ” فَاعْفُوا “ یہ در اصل ” فَ “ + ” اُعْفُوا “ ہے جس میں ہمزۃ الوصل ” فَ “ کے ساتھ ملا کر بصورتِ ” فَا “ لکھا جاتا ہے مگر پڑھا نہیں جاتا … ابتدائی فاء (فَ ) عاطفہ ہے جو یہاں فاء رابطہ بھی ہوسکتی ہے اور فاء فصیحہ بھی۔ مزید دیکھیے البقرہ : 22 [ 2: 16: 1 (10)] نیز آگے ” الاعراب “ میں۔ بہر حال اس کا اردو ترجمہ ” سو پھر : پس پھر : پس : تو “ سے ہی ہوگا۔ ۔ ” اُعْفُوا “ کا مادہ ” عو “ اور وزن اصلی ” اُفْعُلُوْا “ ہے یعنی یہ فعل امر حاضر کا صیغہ جمع مذکر ہے۔ یہ در اصل ” اُعْفُوُوْا “ تھا ‘ پھر ناقص کی گردانوں میں استعمال ہونے والے قاعدہ -ُ وُوْا = -ُ وْا “ کے مطابق پہلی ” و “ (جو بوجہ ضمہ (-ُ ) ثقیل تھی) گر کر صورت کلمہ ” اُعْفُوا “ رہ گئی۔ جس کا وزن اب ” اُفْعُوا “ رہ گیا ہے۔ اس کی املاء ” اُعْفُوا “ میں آخری صامت الف جو الف الوقایہ کہلاتا ہے ‘ واو الجمع پر ختم ہونے والے تمام صیغوں کے آخر پر لکھا جاتا ہے ‘ تاہم یہ پڑھنے میں نہیں آتا۔ اور اسی لیے عرب اور افریقی ممالک کے مصاحف میں اس پر الف زائدہ صامتہ کی علامت باریک گول دائرے ’ ’ ْ “ کی صورت میں ڈالتے ہیں۔ یعنی ” فَاعْفُواْ “۔ برصغیر کے مصاحف میں اس الف کو ہر طرح کی علاماتِ ضبط سے خالی رکھا جاتا ہے جس کا مطلب ہے یہ تلفظ میں نہیں آئے گا۔ ۔ اس مادہ (عو) سے فعل مجرد ” عَفَا یَعْفُو عَفْواً “ (ماضی ادر اصل ” عَفَوَ “ تھی جس میں ”-َ وَ = -َ ا “ کے مطابق ” واو متحرکہ ما قبل مفتوح الف میں بدل جاتی ہے اور مضارع ” یَعْفُو “ کی آخری واو کا ضمہ (-ُ ) بوجہ ثقل گرا دیا جاتا ہے) باب نصر سے آتا ہے جس کا عام ترجمہ ” معاف کردینا “ کیا جاتا ہے اور جسے بعض دفعہ ” درگزر کرنا ‘ چھوڑ دینا اور جانے دینا “ کی صورت بھی دیتے ہیں۔ لیکن در اصل یہ فعل متعدد معانی کے لیے --- لازم متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ اور خود قرآن کریم میں بھی نہ صرف یہ فعل (عَفَا یَعْفُو) بلکہ اس کا مصدر (اور اسم) ” العَفْو “ بھی کم از کم ایک سے زیادہ معنوں کے لیے استعمال ہوئے ہیں۔ بعض علمائِ لگہ اور اصحاب معاجم نے اس کے اصل اور بنیادی معنی کی نشاندہی کی ہے اور پھر اس بنیادی معنی کا اس فعل کے مختلف معانی سے تعلق کا بھی ذکر کیا ہے۔ مثلاً صاحب ” لسان العرب “ نے اس کی اصل ” مَحْو وَطَمْس “ (” مٹانا “۔ ” مٹ جانا “۔ خیال رہے مصدر معروف و مجہول کا ایک ہی ہوتا ہے) کو قرار دیا ہے۔ صاحب ” المفردات “ (راغب ) نے ا کی اصل ” القَصد لتناول الشیِٔ “ (چیز کو لے لینے کا ارادہ کرلینا) بتائی ہے اور صاحب ” مقاییس اللغۃ “ (ابن فارس) نے اس کی دو ” اصلیں “ (بنیادی معنی) بیان کی ہیں (جو باہم متضاد بھی ہیں) یعنی ترک الشیٔ و طلبُہ (چیز کو چھوڑ دینا : یا اسے طلب کرنا) ۔ ” طلب کرنا “ والے معنی میں یہ فعل قرآن کریم میں استعمال نہیں ہوا۔ ۔ اس فعل مجرد کے چند اہم معانی اور استعمال کی صورتیں یوں ہیں ـ: A مٹا دینا اور مٹ جانا (متعدی لازم ہر دو ) کے لیے۔ کہتے ہیں ” عفتِ الریحُ الآثار “ (ہوا نے نشانات مٹا دیئے) اور ” عفتِ الآثار : عَفا الاثرُ “ (نشانات مٹ گئے : نشان مٹ گیا) ۔ راغب کے نزدیک اس کا مطلب ہے : ” گویا ہوا نے نشانیوں کو مٹانے کے لیے ہاتھ ڈالنے کا ارادہ کیا “ یا ” آثار : اثر نے خود بوسیدگی اور نابود ہونے کا ارادہ کرلیا “۔ اور ابن فارس کے نزدیک جب حفاظت و نگہداشت ترک کردی تو گویا مٹا دیا … یا جب کسی شے کی نگہداشت ترک کردی گئی تو مٹ گئی “ (تَرْک = چھوڑ دینا : چھوڑ دیا جانا) ۔ B زیادہ کرنا ‘ بڑھا دینا : زیادہ ہوجانا۔ بڑھ جانا (متعدی نزی لازم) کے لیے۔ مثلاً کہتے ہیں ” عَفَا الشیئَ “ (چیز کو زیادہ کردیا : لمبا کردیا : چھوڑ دیا) مثلاً عفا الشعرَ او النبتَ (بالوں یا پودوں (وغیرہ) کا کاٹنا چھانٹنا چھوڑ دیا ‘ بڑھنے دیا ‘ چناچہ وہ بڑھ گئے : لمبے یا زیادہ ہوگئے۔ “ اور اسی سے حدیث شریف میں آیا ہے قَصُّو الشَّوارِبَ وَاعفُوا اللُّحٰی [ مونچھوں (کے بالوں) کو کاٹو اور داڑھیوں (کے بالوں) کو لمبا ہونے دو (چھوڑ دو )] ۔ اور فعل کے لازم استعمال میں کہتے ہیں ” عَفا الشیئُ “ (چیز زیادہ ہوگئی ‘ یا ضرورت سے زائد ہوگئی) بظاہر ” مٹا دینا : مٹ جانا “ اور ” بڑھا دینا : بڑھ جانا “ لغت اضداد (یعنی ایک ہی لفظ کے دو ایسے معنی جو ایک دوسرے کے ” الٹ “ اور ” ضد “ ہوں) معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن اگر بنیادی معنی (ترک کرنا : چھوڑ دینا) کو سامنے رکھیں تو ایک معنی میں ” حفاظت اور نگہداشت چھوڑ دینا “ کا مفہوم اور دوسرے معنی میں ” کانٹ چھانٹ اور قطع و برید کو چھوڑ دینا “ کا مفہوم موجود ہے۔ لغت اضداد نہیں 1؎۔ 1؎ دیکھیے ” مقاییس اللغۃ “ ج 4‘ ص 58 C ” معاف کردینا “ کے معنی میں یہ فعل ہمیشہ متعدی استعمال ہوتا ہے (اور قرآن کریم میں یہ زیدہ تر ان ہی معنی کے لیے آیا ہے) اور اس مقصد کے لیے بنیادی طور پر اسس کے دو مفعول ہوتے ہیں : جس کو معاف کیا جائے اور جو چیز (گناہ وغیرہ) معاف کی جائے۔ اور اس کے لیے کبھی ایک مفعول پر اور کبھی دوسرے مفعول پر (زیادہ تر تو) ” عَنْ “ کا استعمال زیادہ آیا ہے اگرچہ ایک دفعہ لام (لِ ) بھی آیا ہے … ان (معاف کردینے والے) معنی کے لیے یہ فعل کئی طرح استعمال ہوتا ہے ‘ مثلاً کہتے ہیں ” عَفا عنہ “ ) اس نے اس کو معاف کردیا) اور ” عفا عنہ ذنبہ “ (اس نے اس کو اس کا گناہ معاف کردیا) اور ” عفا عَن ذَنبِہٖ “ (اس نے اس کے گناہ سے معافی دے دی) اور ” عفا لَہٗ ذنبَہ “ (اس نے اس کے لیے (یعنی اس کو) اس کا گناہ معاف کردیا) ان سب استعمالات میں ” گناہ کی سزا ترک کردینے “ یا ” گناہ کے نتائج مٹا دینے “ یا ” گناہ کے ازالہ کے ارادہ کرنے “ کی صورت میں اصل بنیادی مفہوم (ترک : محو : قصد) موجود ہے۔ ۔ عام عربی میں فعل مجرد کے علاوہ اس سے مزید فیہ کے مختلف ابواب سے بھی متعدد اور مختلف معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ تاہم قرآن کریم میں اس کا استعمال صرف فعل مجرد ہی کی صورت میں ہوتا ہے۔ اس فعل مجرد سے مختلف صیغے قرآن کریم میں 27 مقامات پر وارد ہوئے ہیں ‘ جن میں سے صرف ایک جگہ یہ ” زادَ و کَثُرَ “ (زیادہ ہوجانا) کے معنی میں آیا ہے ‘ باقی 26 جگہوں پر یہ فعل ” معاف کردینا “ والے معنی کے ساتھ ہی استعمال ہوا ہے اور ان میں سے صرف ایک جگہ اس سے فعل مجہول لام الجر کے ساتھ (عُفِیَ لَہٗ کی صورت میں) آیا ہے۔ باقی 25 مقامات پر اس سے معروف کے صیغے ہی آئے ہیں۔ البتہ ان (25) میں سے نو (9) مقامات پر مفعول اوّل (جن کو معافی ملی) پر ” عَنْ “ کے استعمال (مثلاً عنکم ‘ عنھم ‘ عنک ‘ عَنّا ‘ عن طائفۃٍ وغیرہ کی صورت میں) اور مفعول ثانی (جس بات کی معافی ملی) کے حذف کے ساتھ (فعل) آیا ہے۔ جبکہ آٹھ (8) مقامات پر مفعول اوّل (جس کو معافی ملی) کے حذف اور مفعول ثانی (جس پر معافی ملی) پر ” عن “ کے استعمال (مثلاً عَمَّا سَلَفَ ‘ عَنْ ذٰلِکَ ‘ عَن سُوْئٍ : السَّیِّئَاتِ اور عَنْ کَثیرٍ کی صورت میں) کے ساتھ آیا ہے۔ باقی آٹھ مقامات پر یہ فعل مفعول اوّل و ثانی ہر دو کے حذف کے ساتھ استعمال ہوا ہے جو عبارت کے سیاق وسباق سے سمجھے جاتے ہیں۔ فاعل کا ذکر کبھی بطور اسم ظاہر (مثلاً اللّٰہ) اور اکثرت بصورتِ ضمیر فاعل آیا ہے۔ ۔ اکثر مترجمین نے ” فَاعْفُوْا “ کا ترجمہ ” پس : سو : تم معاف کرو “ سے کیا ہے ‘ بعض نے ” معاف کرتے رہو “ اختیار کیا ہے۔ اس کے علاوہ ” درگزر کرو “ ‘ ” چھوڑ دو “ اور ” جانے دو “ سے بھی ترجمہ کیا گیا ہے۔ مفہوم ایک ہی ہے۔ ۔ فعل کے مذکورہ بالا استعمالات کے علاوہ اس مادہ (اور فعل مجرد) سے مشتق اور ماخوذ بعض کلمات (مثلاً العَفْو ‘ عَفُوّ اور العافِین) بھی آئے ہیں۔ ان سب پر حسب موقع بات ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ البتہ بر سبیل تذکرہ غالباً یہاں یہ بتانا مناسب ہوگا کہ اردو میں عام استعمال ہونے والے بعض کلمات (مثلاً ” معاف “ ‘ ” عافیت “ اور ” استعفائ “ کا تعلق اسی مادہ (عفو) سے ہے ‘ اگرچہ یہ الفاظ قرآن کریم میں استعمال نہیں ہوئے۔ کلمہ ” معاف “ اور (اس کا اردو حاصل مصدر) ” معافی “ اردو میں اتنا متعارف ہے کہ فعل ” عفا یعفو “ کا ترجمہ ہی معاف کرنا ‘ معافی دینا “ کرنا پڑتا ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ بعض دفعہ عربی کے (بلحاظ اشتقاق) خاصے مشکل الفاظ اردو میں بغیر تکلف کے استعمال ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ لفظ (معاف) ہے جو در اصل ” عفو “ مادہ سے باب مفاعلہ ” عَافَی یُعَافِی مُعَافاۃً و عِفائً و عَافِیۃً “ (صحت و تندرستی دینا : چھوٹ دینا) کے یا تو مصدر (مُعافاۃ) کی بگڑی ہوئی شکل ہے یا اسی (باب مفاعلہ والے) فعل سے اسم الفاعل ” مُعافٍی “ یا اسم المفعول ” مُعافًی “ کی بدلی ہوئی شکل ہے۔ لفظ ” عَافِیۃ “ (جس کی اردو فارسی املاء ” عافیت “ ہے) عربی کی طرح اردو فارسی میں ” صحت و تندرستی “ کے معنی میں متعارف ہے۔ بظاہر یہ لفظ فعل ” عَفا یعفُو “ سے صیغہ اسم الفاعلۃ (مؤنث) ہے لیکن در اصل یہ باب مفاعلہ کا ایک مصر ہے (جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے) باب مفاعلہ سے بعض مصادر ” فاعلۃ “ کے وزن پر بھی آجاتے ہیں۔ اور لفظ ” استعفائ “ (کام ترک کرنے کی اجازت چاہنا) تو جیسا کہ ظاہر ہے ” عفو “ سے باب استفعال کا مصدر ہے۔ B ” وَاصْفَحُوْا “ کی ابتدائی ” وَ “ عاطفہ بمعنی ” اور “ ہے۔ اور ” اِصْفَحُوا “ (جو فعل امر حاضر جمع مذکر ہے اور جس کا ابتدائی مکسور ہمزۃ الوصل ” و “ کی وجہ سے تلفظ میں نہیں آتا) کا مادہ ” صح “ اور وزن ” اِفْعَلُوا “ ہے ‘ اس سے فعل مجرد ” صَفَحَ یَصْفَحُ صَفْحًا “ (باب فتح سے) آتا ہے اور اس کے متعدد معانی اور استعمالات ہیں اور سب میں بنیادی معنی ” الگ الگ پھیلانا اور چوڑا کرنا “ کے ہیں مثلاً ” صَفَحَ الْکَلْبُ ذِرَاعَیہ “ (کتے نے دونوں (اگلے) بازو پھیلا دیئے) اور ” صفَح ورقَ المُصحَف “ (اس نے قرآن مجید کا ایک ایک ورق پھیلاتے ہوئے سامنے سے گزارا یعنی دیکھ ڈالا) اور ” صفَح الناسَ اَوِ القومَ “ (اس نے لوگوں کو (بغرض معائنہ و پڑتال) ایک ایک کر کے سامنے پیش کیا) ۔ تاہم قرآن کریم میں یہ فعل ان میں سے کسی بھی معنی کے لیے استعمال نہیں ہوا۔ بلکہ قرآن کریم میں تو … جہاں اس فعل مجرد کے مختلف صیغے چھ جگہ آئے ہیں … یہ فعل صرف ایک ہی معنی ” درگزر کرنا : خیال میں نہ لانا “ کے لیے استعمال ہوا ہے۔ یعنی یہ بھی گویا گزشتہ فعل (عفا یعفو) کے ہم معنی ہے اور (اس کی طرح) اس فعل کے ساتھ بھی ” عن “ استعمال ہوتا ہے مگر اس فرق کے ساتھ کہ ” عفا یعفو “ کے ساتھ بعض دفعہ دونوں مفعول (شخص اور گناہ) مذکور ہوتے ہیں (جیسے ” وفا عنہ ذنبہ “ میں ہے) مگر اس فعل (صفَح یصفَح) میں ” عن “ کے بعد صرف ایک مفعول (شخص یا گناہ) ہی مذکور ہوتا ہے۔ مثلاً کہتے ہیں ” صفَح عنہ “ (اس نے اس شخص سے درگزر کیا) یا کہتے ہیں ” صفَح عَن ذنبِہٖ “ (اس نے اس کے گناہ سے درگزر کیا) یعنی اس فعل میں ” صفَح عنہ زنبہ “ نہیں کہتے۔ البتہ جب ” عن “ ساتھ استعمال نہ ہو تو دونوں افعال (عفا اور صفَح) کے دونوں مفعول محذوف بھی کردیئے جاتے ہیں جیسے زیر مطالعہ دونوں کے صیغہ امر ” فاعفُوا وَاصفَحوا “ (معاف کر دو : درگزر کر دو ) میں یہ نہیں بتایا گیا کہ کس کو معاف کرو اور کیا معاف کرو ؟ البتہ یہ بات سیاق و عبارت سے سمجھی جاسکتی ہے۔ ۔ ہم معنی اور مترادف ہونے کے باوجود ” عَفْوٌ“ اور ” صَفْحٌ“ میں ایک لطیف فرق ہے ” عفو “ (عفا یعفو) کا مطلب ہے ” ترکِ عقوبت “ یعنی کسی کو اس کے جرم و گناہ کی سزا کا ارادہ ترک کردینا “ جب کہ ” صفْح “ (صفَح یصفَح) کا مطلب ہے ترک تثریب یعنی گناہ گار اور مجرم کو ملامت اور سرزنش بھی نہ کرنا۔ اور اسی لیے صاحب المفردات نے لکھا ہے کہ ” صفح “ ” عفو “ سے بھی بڑا طرز عمل ہے کیونک کتنی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کسی کو (سزا) معاف تو کردیتا ہے مگر ملامت کر گزرتا ہے۔ یعنی ترک عقوبت قدرے آسان ہے مگر ” ترکِ ملامت “ نسبتاً مشکل اور زیادہ بلند ہمتی کا کام ہے اور یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں اکثر جگہ ” عفو “ کے معاً بعد ” صفح “ کا حکم آیا ہے۔ اس فعل کے مصدر (صَفْ ) کا بطور اسم استعمال ” کسی چیز کی چوڑائی جو آپ کے سامنے ہو “ کے لیے ہوتا ہے اور اسی لیے ” صفحٌ“ کے معنی ” جانب “ اور ” طرف “ کے ہوتے ہیں اور ” صفح “ اور ” صفحۃ “ رخسار کو بھی کہتے ہیں۔ کسی ورق کے دونوں صحفے عربی میں ” صفحتان “ اور ” صفحتا الورقۃ “ کہلاتے ہیں اور یہ لفظ (صفحۃ) ہماری روز مرہ کی زبان میں مستعمل ہے۔ اس طرح اس فعل ” صفح یصفح “ کے مفہوم کی اصل یہی ہے کہ گویا سزا بلکہ ملامت سے بھی چہرہ دوسری طرف کرلیا جائے یعنی چہرے سے بھی ملامت ظاہر نہ کی جائے۔ ۔ عام عربی میں اس مادہ (صح) سے فعل مجرد کے علاوہ مزید فیہ کے مختلف ابواب سے بھی فعل مختلف معانی کے لیے استعمال ہوتے ہیں (جو ڈکشنریوں میں دیکھے جاسکتے ہیں) تاہم قرآن کریم میں اس سے صرف فعل مجرد کے ہی چند صیغے چھ جگہ آئے ہیں اور ان میں سے صرف ایک جگہ یہ فعل ” عن “ کے ساتھ آیا ہے ‘ باقی مقامات پر ” عن “ محذوف ہے ‘ یعنی مفعول (شخص یا گناہ) غیر مذکور ہے ‘ تاہم سیاق عبارت سے سمجھا جاسکتا ہے۔ اور ان چھ میں سے چار مقامات پر ” عفو “ اور ” صفح “ سے صیغہ امر معاً مذکور ہوئے ہیں۔ اکثر مترجمین نے ” اصفحوا “ کا ترجمہ ” درگزر کرو “ سے ہی کیا ہے ‘ صرف ایک ترجمہ میں ” خیال نہ کرو “ آیا ہے جس میں ترک ملامت کا مفہوم واضح ہے۔ C ” حتَّی “ (یہاں تک کہ : جب تک کہ نہ) ” حتی “ کے معانی اور استعمالات پر مفصل بات البقرہ : 55 [ 2: 35: 1 (2)] میں گزر چکی ہے۔ D ” یَاْتِیَ اللّٰہُ …“ (اس کا ترجمہ اس سے اگلی عبارت (بامرہ) کے ساتھ مل کر ہی ممکن ہوگا) ۔ اس میں دوسرے حصہ اسم جلالت (اللّٰہ) کی لغوی بحث اگر دیکھنا ہی چاہیں تو بحث بِسْمِ اللّٰہ [ 1: 1: 1 (2)] میں دیکھ لیجیے۔ ۔ پہلے حصہ ” یَأْتِی “ کا مادہ ” أ ت ی “ اور وزن ” یَفْعِلُ “ ہے۔ یعنی یہ اس مادہ سے فعل مجرد کا صیغہ مضارع منصوب ہے (نصب پر بات آگے ” الاعراب “ میں ہوگی) اس فعل مجرد ” أَتیَ یَأًتِی۔ آنا۔ کرنا “ کے معنی اور استعمال پر سب سے پہلے البقرہ : 23 [ 2: 17: 1 (4)] میں (کلمہ ” فَاْتُوا “ کے ضمن میں) بات ہوچکی ہے۔ اس کے بعد اس فعل کے متعدد صیغے گزر چکے ہیں مثلاً ” اُتُوا “ [ 2: 18: 1 (8)] میں۔ ” یَاْتِیَنَّ “ البقرہ : 38 [ 2: 27: 1 (2)] میں ” یَاْتُوا “ [ 2: 52: 1 (5)] اور ” نَاْتِ “ ابھی اوپر گزرا ہے [ 2: 17: 1 (4)] میں۔ اس فعل پر باء (بِ ) لگنے سے اس کے معنی میں تبدیلی (یعنی اَتَی بِ … = لانا۔ آنا) کی بات بھی ہوئی تھی۔ ۔ ” بِاَمْرِہٖ “ جو بِ + امر + ہ کا مرکب ہے اس میں آخری ضمیر مجرور ” ہ “ (بمعنی … اس کا : اپنا) ہے اور ابتدائی باء (بِ ) وہی صلہ ہے جو فعل اتی یاتی (بمعنی ” آنا “ ) پر لگ کر اس میں ” لانا ‘ لے آنا “ کے معنی پیدا کرتا ہے۔ باقی لفظ ” امر “ جس کا مادہ اور وزن بالکل ظاہر ہیں (ا م ر “ سے فَعْلٌ یہ اس مادہ سے فعل مجرد ” امر یامر - حکم دینا “ کا مصدر ہے جو زیادہ تر بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ فعل مجرد (امر یامر ) کے معنی اور استعمال پر سب سے پہلے البقرہ : 27 [ 2: 19: 1 (16)] میں بات ہوئی تھی۔ اور اس کے بعد اس کے متعدد صیغہ ہائے فعل گزر چکے ہیں مثلاً ” تَاْمُرُوْنَ “ البقرہ : 44 [ 2: 29: 1 (6)] سے متصل پہلے۔ اور ” تُؤْمَرُونَ “ البقرہ : 68 [ 2: 43: 1 (8)] کے متصل بعد گزرا ہے۔ ۔ کلمہ ” اَمْر “ ایک کثیر الاستعمال اور متعدد معانی کا حامل لفظ ہے۔ قرآن کریم میں یہ لفظ کم و بیش ڈیڑھ سو جگہ آیا ہے۔ اور کم از کم دس کے قریب متنوع معانی میں استعمال ہوا ہے۔ ان مختلف معانی کو بلحاظ اصل دو قسموں میں تقسی کیا جاسکتا ہے ‘ بلکہ اس کے استعمالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کا ایک طرح سے بنیادی (یا جامع) ترجمہ بھی (یوں تو صرف) دو لفظوں میں کیا جاسکتا ہے یعنی A حکم اور B معاملہ۔ باقی تراجم ان کی فرع (قسم) ہیں۔ ۔ پہلے معنی (حکم) کا تعلق اس مادہ کے فعل مجرد (اَمَر - حکم دینا) سے ہے ‘ یعنی یہ اس فعل کا مصدر بھی ہے اور بطور حاصل مصدر یا اسم مصدر بھی استعمال ہوتا ہے۔ گرائمر میں جسے ہم امر و نہی (فعل) کہتے ہیں ‘ شرعی یا قانونی اعتبار سے وہ دونوں ” حکم “ ہی ہوتے ہیں۔ اس اصل کی بناء پر لفظ ” امرٌ“ کے تراجم (بلحاظ استعمال) ” فرمان ‘ فرمانروائی ‘ حکومت ‘ حکمرانی ‘ اختیار ‘ فیصلہ “ کی صورت میں بھی کیے جاسکتے ہیں اور کیے گئے ہیں۔ ان سب میں مشترک مفہوم ” حکم “ کا ہے۔ ان معنی میں امر کی جمع ” اَوَامِر “ آتی ہے (تاہم یہ جمع قرآن کریم میں استعمال نہیں ہوئی) ۔ دوسرے معنی (معاملہ) کا بظاہر تو اس مادہ (ا م ر) کے کسی فعل سے تعلق نہیں ہے۔ البتہ (شاید) یہ کہہ سکتے ہیں کہ جن کاموں کے بارے میں ” حکم “ دیا جاتا ہے یا کسی ” حکم “ کے نتیجے میں جو باتیں یا چیزں سامنے آتی ہیں ان ہی کو ” معاملہ “ یا ” معاملات “ کہتے ہیں ‘ جس کے لیے فارسی میں ” کار “ اور انگریزی میں affair یا matter استعمال ہوتے ہیں۔ اس مفہوم میں لفظ ” اَمر “ کی جمع ” اُمور “ آتی ہے (اور خود یہ جمع بھی قرآن کریم میں 13 جگہ آئی ہے) بلکہ یہ لفظ (امور بمعنی ” معاملات “ ) اردو میں بھی مستعمل ہے۔ ۔ اور چونکہ لفظ ” معاملہ “ ہر طرح کے اقوال و افعال کے لیے عام ہے ‘ اس لیے … موقع استعمال کے لحاظ سے … لفظ ” اَمر “ کا ترجمہ ” کام ‘ بات ‘ چیز ‘ خبر ‘ واقعہ ‘ حالت ‘ حال ‘ قدرت ‘ مشیت ‘ مرضی ‘ رائے ‘ خواہش اور ارادہ “ کی صورت میں کیا جاسکتا ہے اور کیا گیا ہے۔ اور بعض دفعہ ایک ہی جگہ دو مختلف معانی بھی لیے جاسکتے ہیں۔ ۔ یوں اس پورے [ 2: 66: 1 (5)] والے حصہ عبارت (فاعفوا و اصفحوا حتی یاتی اللّٰہ بامرہ) کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ” پس : سو : تم معاف کر دو اور درگزر کرو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ لائے حکم اپنا “ جس کی سلیس صورت ” سو معاف کرو اور درگزر کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے “ ہے۔ بعض نے ” فَاَعفُوا “ کے لیے ” جانے دو ‘ چھوڑ دو “ (جس میں ” ترک کرنا “ کا مفہوم ہے) اختیار کیا ہے۔ ” حتی “ کا ترجمہ بعض نے ” تا آنکہ “ سے کیا ہے جو اصل سے بھی مشکل ہے۔ بعض نے اس کا ترجمہ ” جب تک “ سے کیا ہے مگر پھر اردو محاورے کے طابق فعل (یاتی) کے ترجمہ پر ” نہ “ نہیں لگایا۔ بلکہ شاید ” اس وقت تک جب کہ “ کے مفہوم کی بناء پر صرف ” لائے “ سے ہی ترجمہ کیا ہے۔ بیشتر مترجمین نے ” لائے “ کی بجائے ” بھیج : بھیج دے “ کو لیا ہے جو بلحاظِ مفہوم اچھا ترجمہ ہے اگرچہ لفظ سے ذرا ہٹ کر ہے۔ بعض نے تعظیماً (حکم) ” صادر فرمائے : بھیجیں “ سے ترجمہ کیا ہے۔ جب کہ بعض نے ” حکم “ کے ساتھ ” دوسرا “ یا ” کوئی اور “ کا اضافہ کیا ہے جو سیاق عبارت کا تقاضا ہے۔ 2: 66: 1 (6) [ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ] بعینہٖ یہی (پوری) عبارت سب سے پہلے البقرہ : 20 [ 2: 15: 1 (10- 11)] میں آئی تھی جہاں اس کے تمام کلمات پر مفصل بات ہوئی تھی۔ اور پھر معمولی فرق کے ساتھ یہی عبارت البقرہ : 106 [ 2: 14: 1 (3) میں بھی زیر بحث آئی تھی۔ 2: 66: 1 (7) [ وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃ ] ٹھیک یہی عبارت سب سے پہلے البقرہ : 43 میں [ 2: 29؛ 11 (2)] کے آخر پر اور پھر [ 2: 29: 1 (3-4)] میں گزر چکی ہے جہاں اس عبارت کے کلمات پر بات ہوئی تھی۔ اس کا عام لفظی ترجمہ بنتا ہے ” اور قائم رکھو نماز کو اور دو : ادا کرو زکوٰۃ “۔ جسے ” اقامۃ الصلٰوۃ “ کے جامع مفہوم کو سامنے رکھتے ہوئے (جس پر سب سے پہلے البقرہ : 3 [ 2: 2: 1 (3-4)] میں مفصل بات ہوئی تھی) ” نماز : کی پابندی رکھو : ادا کرتے رہو : درست رکھو : پابندی سے پڑھو : اور زکوٰۃ دیتے رہو “ کی صورت میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ ” صَلٰوۃ “ کا ترجمہ بصورت ” نماز “ کرنے کی وجہ بھی [ 2: 2: 1 (4)] میں اور ” زکٰوۃ “ کا ترجمہ نہ کرنے کی وجہ [ 2: 29: 1 (4)] میں بیان ہوچکی ہے۔ ضرورت ہو تو ان مقامات پر دوبارہ نظر ڈال لیجیے۔ 2: 66: 1 (8) [ وَمَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِکُمْ مِّنْ خَیْرٍ ] در اصل یہ شرط اور جوابِ شرط پر مبنی پورے جملے کا صرف ابتدائی حصہ (بیانِ شرط) ہے۔ لہٰذا اس کے پورے ترجمہ پر اگلی عبارت (بقایا) کی وضاحت کے بعد بات ہوگی۔ پہلے ہم اس (زیر مطالعہ) حصہ عبارت کے کلمات کی لغوی بحث کو لیتے ہیں۔ تمام کلمات براہ راست (موجودہ شکل میں) یا بالواسطہ (بلحاظ مادہ) پہلے گزر چکے ہیں۔ A ” وَ “ مستانفہ ہے اسی لیے س سے سابق جملے کے آخر پر وقف مطلق کی علامت (ط) لگی ہے۔ ترجمہ ” اور “ ہی ہوگا۔ B ” مَا “ یہاں موصولہ شرطیہ ہے جس کا ترجمہ تو ” جو کچھ بھی کہ “ ہے ‘ مگر بیشتر مترجمین نے صرف ” جو کچھ “ یا ” جو “ پر ہی اکتفا کیا ہے۔ C ” تُقَدِّمُوا “ کا مادہ ” ق د م “ اور وزن ” تفعلوا “ ہے جو اس مادہ سے باب تفعیل کے فعل مضارع مجزوم (جزم کی وجہ آگے ” الاعراب “ میں بیان ہوگی) کا صیغہ جم حاضر مذکر ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد متعدد ابواب سے ‘ بعض خاص صلات کے ساتھ یا کسی صلہ کے بغیر بھی بطور فعل لازم و متعدی مختلف معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے جس کے باب ‘ معنی اور استعمالات پر البقرہ : 95 [ 2: 58: 1 (4)] میں بات ہوئی تھی۔ اور وہیں اس سے باب تفعیل کے فعل ” قَدَّمَ یُقَدِّمُ تَقْدِیما “ کے معانی (= آگے کرنا : لانا : بھیجنا : پیش کرنا : آگے ہونا : بڑھنا : پہل کر جانا وغیرہ) بھی زیر بحث آ چکے ہیں۔ یعنی اس فعل کے متعدی اور لازم استعمال کا بھی ذکر ہوا تھا۔ یہاں ہم اس فعل (جس سے ایک صیغہ فعل (… تُقَدِّمُوا …) اس وقت زیر مطالعہ ہے) کے قرآنی استعمال کے متعلق چند امور (مزید) بیان کرنا چاہتے ہیں) ۔ ۔ متعدی استعمال کی صورت میں اس کا مفعول براہ راست (بنفسہٖ ) آتا ہے جس کی کم از کم چار قرآنی مثالیں موجود ہیں (ص : 60‘ 61 المجادلہ : 12‘ 13) ۔ ویسے یہ فعل قرآن مجید میں بطور متعدی قریباً 25 جگہ آیا ہے ‘ بعض مقامات پر (مثلاً البقرہ : 223 اور الفجر : 24) اس کا مفعول محذوف (غیر مذکور) ہے اور بیشتر مقامات پر مفعول مقدَّم (یعنی فعل سے پہلے) بصورت ” ما “ (صلہ موصول ہو کر) آیا ہے اور ہر جگہ ضمیر عائد محذوف ہے۔ اور اکثر اس (مفعول محذوف یا بصورتِ صلہ موصول) سے مراد انسان کے اعمال اور افعال ہوتے ہیں ‘ جیسے یہاں زیر مطالعہ عبارت میں ” وَ مَا تُقَدِّمُوْا …“ آیا ہے جس کا ترجمہ بنتا ہے ” اور جو کچھ بھی کہ تم آگے : پہلے بھیجو گے : بھیج دو گے “۔ (یعنی اعمال) D ” لِاَنْفُسِکُمْ “ جو لام الجر (لِ ۔ کے لیے) + انفس (جانیں) + ضمیر مجرور ” کُمْ “ (بمعنی تمہاری : اپنی) کا مرکب ہے۔ لام الجر کے معانی اور استعمالات پر مفصل بات الفاتحہ : 2 [ 1: 2: 1 (2)] میں گزری ہے۔ ۔ لفظ ” اَنْفُس “ جمع مکسر ہے جس کا واحد ” نَفْسٌ“ (بمعنی ” جان “ ) ہے۔ اس کلمہ (اَنْفُس) اور اس کے واحد (نَفْس) کے مادہ ‘ باب ‘ فعل اور معانی وغیرہ پر سب سے پہلے البقرہ : 9 [ 2: 8: 1 (4)] میں بات ہوچکی ہے اور اس کے بعد سے یہ دونوں لفظ اب تک متعدد بار آ چکے ہیں۔ یوں اس حصہ عبارت (لاَنْفُسِکُم) کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ” واسطے اپنی جانوں کے “۔ جسے سلیس اور با محاورہ کرتے ہوئے ” اپنی جانوں کے لیے : اپنے واسطے : اپنے لیے “ کی شکل دی گئی ہے۔ بعض نے … غالباً آگے آنے والے لفظ ” خیر “ کی مناسبت سے … ” اپنی بھلائی کے لیے “ سے ترجمہ کیا ہے ‘ جو بلحاظ مفہوم ہی درست ہے۔ ۔ ” مِنْ خَیْرٍ “ یہ دونوں لفظ متعدد بار گزر چکے ہیں۔ ” مِنْ “ کے استعمال پر البقرہ : 3 [ 2: 2: 1 (5)] میں بات ہوئی تھی۔ اور کلمہ ” خیر “ پر بحث البقرہ : 54 [ 2: 34: 1 (5)] میں دیکھیے۔ یہاں یہ لفظ اسم تفضیل کے طور پر نہیں بلکہ عام اسم (ذات) کے طور پر ” بھلائی یا نیکی “ کے معنی میں آیا ہے یا اسے اسم صفت (بمعنی اچھا ‘ عمدہ) بھی سمجھ سکتے ہیں مگر اس صورت میں اس کا ایک موصوف (مثلاً ” عمل “ ) محذوف سمجھنا پڑے گا ‘ جبکہ اسم ذات کے طور پر لینے میں کسی مقدر یا محذوف کی ضرورت نہیں۔ اسی طرح ” مِنْ “ یہاں بیانیہ بھی ہوسکتا ہے جس میں ابتدائی ” مَا “ (جو کچھ بھی کہ) کا بیان یا وضاحت ہے۔ اس لیے اس کا ترجمہ ” از قسم : کی قسم سے “ ہوسکتا ہے اور اس ” من “ کو تبعیض کے لیے بھی لے سکتے ہیں۔ اس صورت میں اس کا ترجمہ ”… کا کچھ بھی ‘ … میں سے کچھ بھی “ ہوسکتا ہے۔ اس طرح یہاں ” مِنْ خَیْرٍ “ ترجمہ ” از قسم نیکی : بھلائی کی قسم سے “ بھی ہوسکتا ہے اور بصورت ” کسی نیکی سے کچھ بھی “ … اور دونوں قسم کے تراجم کو سلیس و با محاورہ بنانے کے لیے صرف ” بھلائی : نیک کام “ کی صورت میں ترجمہ کیا گیا ہے ‘ جو بلحاظ مفہوم درست ہے ‘ اگرچہ اس میں ترکیب الفاظ کی باریکی کو ملحوظ نہیں رکھا گیا۔ ۔ یوں اس پورے حصہ عبارت (وَ مَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِکُمْ مِّنْ خَیْرٍ ) کا لفظی ترجمہ بنے گا ” اور جو کچھ بھی کہ تم آگے بھیجو گے واسطے اپنی جانوں کے بھلائی کی قسم سے کچھ بھی “ … جس کو سلیس و با محاورہ بنانے کے لیے بعض نے تو اصل عربی میں عبارت کی مجموعی ترتیب کو مد نظر رکھتے ہوئے اور صرف ” من خیر “ کے ترجمہ میں اختصار سے کام لیتے ہوئے ترجمہ ” جو کچھ آگے بھیجو گے : بھیج دو گے اپنے واسطے : اپنے لیے بھلائی “ کی صورت میں کیا ہے۔ اکثر نے اردو کے جملہ فعلیہ کو سامنے رکھتے ہوئے فعل کا ترجمہ آخر پر کرنے کے علاوہ اصل عربی عبارت (کی ترکیب و ترتیب) کو بھی آگے پیچھے کردیا ہے (نیز دیکھیے حصہ ” الاعراب “ ) مثلاً بعض نے ” مَا “ کے بعد پہلے ” مِنْ خَیْرٍ “ سے ابتداء کرتے ہوئے ‘ پھر ” لِانْفُسِکُمْ “ کو لیا ہے اور آخر پر تُقَدِّمُوا کو۔ اور یوں ترجمہ بنا : ” جو کچھ بھلائی اپنے لیے : اپنے واسطے آگے : پہلے سے بھیجو گے : بھیج دو گے “۔ اور اسی کو بعض نے ” جو نیک کام بھی اپنی بھلائی کے واسطے : لیے آگے بھیجو گے : جمع کرتے رہو گے “ کی صورت دی ہے۔ اس میں ” اپنے لیے “ کی بجائے ” اپنی بھلائی کے لیے “ اور ” بھیجو گے “ کی بجائے ” جمع کرتے رہو گے “ ایک طرح سے تفسیری ترجمہ ہے جو بلحاظ مفہوم ہی درست ہے ‘ ورنہ اصل عبارت سے ذرا ہٹ کر ہے۔ اسی طرح بعض نے ” لانفسکم “ سے ابتدا کرتے ہوئے ترجمہ کو ” اور اپنی جانوں کے لیے جو بھلائی آگے بھیجو گے “ کی شکل دی ہے۔ تمام تراجم بلحاظ مفہوم یکساں ہیں اور اصل (عربی) نص اور (اردو) محاورے میں توازن رکھنے کی کوششوں کا ایک مظہر (یا نمونہ) ہیں۔ 2: 66: 1 (9) [ … تَجِدُوْہُ عِنْدَ اللّٰہِ ] یہ سابقہ جملے (وَ مَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِکُمْ مِّنْ خَیْرٍ ) کا ہی ایک حصہ (جوابِ شرط) بنتا ہے۔ A ” تَجِدُوْہُ “ کی آخری ” ہُ “ تو ضمیر منصوب (بمعنی ” اس کو “ ) ہے اور ” تَجِدُوا “ (ضمیر مفعول کے بغیر لکھنے پر فعل کی واو الجمع کے بعد الف الوقایۃ لکھنا ضروری ہے) کا مادہ ” و ج د “ اور وزن اصلی ” تَفْعِلُوْا “ ہے ‘ یعنی یہ اس کے فعل مجرد سے صیغہ مضارع معروف مجزوم ہے (جزم کی وجہ ” الاعراب “ میں دیکھیے) گویا یہ در اصل ” تَوْجِدُوْنَ “ تھا۔ پھر مثال دادی اور باب ضرب سے ہونے کے باعث مضارع معروف میں ” و “ (فاء کلمہ) گرجاتی ہے اور مجزوم ہونے کی بنا پر آخر کا نون اعرابی (صیغہ جمع مذکر والا) گرگیا۔ یوں اب اس کا وزن ” تَعِلُوْا “ رہ گیا ہے۔ ۔ اس مادہ سے فعل مجرد وَجَدَ یَجِدُ کے باب ‘ معانی اور استعمال وغیرہ البقرہ : 96 [ 2: 59: 1 (1) میں بیان ہوچکے ہیں۔ یہاں ” تَجِدُوہُ “ کا ترجمہ ” تو تم پائو گے اس کو “ بنتا ہے۔ ” تو “ کا اضافہ جوابِ شرط ہونے کی وجہ سے ہے ‘ جسے محاورے کی وجہ سے اکثر نے نظر انداز کرتے ہوئے ترجمہ ” پائو گے اس کو : وہ پائو گے : اس کو پالو گے : اسے پائو گے : پالو گے “ کی صورت میں کیا ہے۔ بعض نے ” اس کا ثواب پائو گے “ کیا ہے جو تفسیری ترجمہ ہے اور بلحاظِ مفہوم ہی درست ہے۔ B ” عِنْدَ اللّٰہِ “ (اللہ کے پاس : ہاں) کلمہ ” عِنْدَ “ کے معنی و استعمال وغیرہ کے لیے دیکھیے البقرہ : 54 [ 2: 34: 1 (6)] اور اس کے بعد سے یہ لفظ مختلف تراکیب میں کم از کم دس دفعہ گزر چکا ہے۔ بعض نے اس جزء (عند اللّٰہ) کے ترجمہ میں اسم جلالت (اللہ) کے لیے بھی ہمارے ہاں عام متداول فارسی لفظ ” خدا “ (استعمال کیا ہے ‘ تاہم اکثر نے اصلی عربی لفظ کو ہی لیا ہے اور یہی بہتر ہے۔ ۔ یوں اس جوابِ شرط حصہ عبارت (… تَجِدُوْہُ عِنْدَ اللّٰہِ ) کا ترجمہ بنا ” تو تم پائو گے اس کو اللہ کے پاس : ہاں “ جسے بیشتر حضرات نے اردو کے جملہ فعلیہ کی ساخت کو ملحوذ رکھتے ہوئے فعل کا ترجمہ آخر پر کیا ہے۔ یعنی ” اسے : اس کو : اللہ : خدا : کے ہاں : یہاں : پاس : پائو گے : پالو گے “ کی صورت میں۔ اکثر نے ضمیر فاعلین ” تم “ کا ترجمہ نہیں کیا کیونکہ وہ اردو کے صیغہ فعل سے خود بخود سمجھی جاتی ہے۔ اب آپ عبارت کے ان دونوں حصوں (نمبر 8‘ نمبر 9 بالا) … جو مل کر مکمل جملہ شرطیہ بنتا ہے … کا ترجمہ بآسانی کرسکتے ہیں۔ 2: 66: 1 (10) [ اِنَّ اللّٰہَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ] اس جملے کے تمام الفاظ پہلے گزر چکے ہیں ‘ بلکہ تھوڑے سے فرق کے ساتھ قریباً یہی جملہ (بصورت ” وَاللّٰہُ بَصِیْرٌ بِمَا یَعْمَلُوْنَ “ اس سے پہلے البقرہ : 96 [ 2: 59: 1 (6)] میں گزرا ہے۔ A ” اِنَّ اللّٰہَ “ (بےشک اللہ تعالیٰ ) ” اِنَّ “ حرف مشبہ بالفعل کہلاتا ہے ‘ پہلی دفعہ البقرہ : 6 [ 2: 5: 1] میں گزرا ہے۔ B ” بِمَا “ (اس کو جو کہ) ۔ اس کی باء (بِ ) تو فعل ” بَصْرَ بِہٖ “ (اسے دیکھا) کے صلہ والی ہے اور ” ما “ موصولہ ہے جو کئی دفعہ گزری ہے۔ C ” تَعْمَلُوْنَ “ (تم کرتے ہو ‘ کام کرتے ہو) اس کے فعل مجرد ” عمل “ (سمع سے) کے معنی باب وغیرہ پر البقرہ : 25 [ 2: 18: 1 (2)] میں بات ہوئی تھی۔ اور ” بِمَا تَعْمَلُوْنَ “ کا مصدریت کے ساتھ ترجمہ ” تمہارے کام “ بھی ہوسکتا ہے۔ D ” بَصِیْرٌ“ (خوب دیکھنے والا ‘ ہر وقت دیکھنے والا) جیسا کہ ظاہر ہے اس کا مادہ ” ب ص ر “ اور وزن ” فَعِیْلٌ“ ہے جو فعل مجرد ” بَصِرَہٗ : بَصْرَ بِہ “ (… کو دیکھ لینا : دیکھنا) سے صفت مشبہ ہے۔ اس فعل کے استعمال پر بات البقرہ : 7 [ 2: 6: 1 (4)] میں اور پھر البقرہ : 17 [ 2: 13: 1 (11)] میں ہوچکی ہے۔ صفت مشبہ ہونے کی بنا پر ” بَصِیرٌ“ کا ترجمہ ہے ” خوب اچھی طرح اور ہر وقت دیکھنے والا “۔ ۔ اس طرح اس حصہ عبارت (اِنَّ اللّٰہَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْر) کا لفظی ترجمہ ہوگا ” بیشک اللہ تعالیٰ اس کو جو کہ تم کرتے ہو اچھی طرح دیکھنے والا ہے “ جسے با محاورہ و سلیس کرنے کے لیے ” یقینا تم جو کچھ کر رہے ہو اللہ اس کا خوب دیکھنے والا ہے “ کی صورت بھی دی گئی ہے۔ تاہم بعض نے ” بَصِیْرٌ“ کا ترجمہ صفت مشبہ کی طرح کرنے کی بجائے صیغہ فعل (یَبْصُرُ بِ …) کی طرح کیا ہے یعنی ” دیکھتا ہے “ البتہ بیشتر حضرات نے صفت مشبہ کے دوام اور استمرار والے مفہوم کو ” دیکھ رہا ہے “ کی صورت میں ظاہر کیا ہے اور اور اکثر نے ” بِمَا تَعْمَلُوْنَ “ (جو کچھ بھی تم کرتے ہو) کا ترجمہ … ” مَا “ کو مصدریہ سمجھتے ہوئے … تمہارے کام : تمہارے کاموں کو : تمہارے سب کاموں کو : تمہارے سب کیے ہوئے کاموں کو “ کی صورت میں کیا ہے۔ اور قریباٍ سب نے ہی عربی عبارت کی ترتیب کے مطابق ابتداء ” بیشک اللہ : خدا “ سے ہی کی ہے (البتہ ایک مترجم نے محاورہ ہی کی بناء پر ترجمہ کے الفاظ میں تقدیم و تاخیر کی ہے یعنی ” یقینا جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس کو خوب دیکھنے والا ہے) ۔ اس طرح عبارت کے اکثر تراجم کی مجموعی صورت کچھ یوں بنتی ہے … ” یقینا : بیشک اللہ : خدا : جو کچھ بھی تم کرتے ہو : تمہارے کام : کاموں کو : سب کاموں کو : تماہرے کیے ہوئے کاموں کو دیکھتا ہے : دیکھ رہا ہے : کی دیکھ بھال کر رہا ہے “۔ 2: 66: 2 الاعراب بلحاظ مضمون اس قطعہ کو سات جملوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے جن میں سے پہلے دو اپنے مضمون کی بناء پر در اصل ایک ہی جملہ بنتے ہیں۔ خیال رہے ” الاعراب “ کے بیان میں ” جملہ “ سے مراد کم و بیش ایک مستقل مضمون کی بناء پر باہم مربوط عبارت ہوتی ہے جس کا ایک معیار کسی علامت وقف کا استعمال ہے … ورنہ خالص نحوی نقطۂ نظر سے تو محض ایک صیغہ فعل بھی مستقل جملہ (فعلیہ) ہوتا ہے۔ اس طرح باعتبار مضمون اس عبارت کے اجزاء (جملوں) کی تقسیم اور ہر ایک کی نحوی وضاحت یوں بنتی ہے : A وَدَّ کَثِیْرٌ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ لَوْ یَرُدُّوْنَکُمْ مِنْ بَعْدِ اِیْمَانِکُمْ کُفَّارًا [ وَدَّ ] فعل ماضی (واحد غائب مذکر) ہے [ کثیر ] اس کا فاعل (لہٰذا) مرفوع ہے اس لیے آخر پر تنوین رفع (-ٌ) ہے [ مِنْ اَھْلِ الکِتابِ ] یہ پورا مرکب جاری (جس میں حرف الجر ” مِن “ کے بعد مجرور ” اھل الکتاب “ خود مرکب اضافی ہے یعنی ” اھل “ مضاف ‘ لہٰذا خفیف بھی ہے اور ” الکتاب “ مجرور بالاضافہ ہے) فاعل (کثیرٌ) کی صفت کا کام دے رہا ہے [ لَوْ ] حرفِ تمنی (تمنا) ہے جسے ” لَوْ مصدریہ “ بھی کہتے ہیں کیونکہ یہ اپنے بعد والے فعل کو مصدر مؤول کے معنی دیتا ہے۔ [ یردُّونکم ] میں ” کُمْ “ تو ضمیر منصوب مفعول بہ ہے اور فعل ” یردُّون “ مضارع کا صیغہ ہے جس میں ضمیر فاعلین ” ھُمْ “ بصورت واو الجمع مستتر ہے اور یہ عبارت ” لَو یردُّونکم “ فعل ” وَدَّ “ کا مفعول لہٰذا محلاً منصوب ہے۔ مصدر مؤول کی صورت میں عبارت ” لَوْ یردُّونکم “ (گویا) ” رَدَّکم “ (تم کو لوٹا دینا) سمجھی جائے گی یعنی ” وَدَّ کَثِیْرٌ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ رَدَّکُمْ “ (بہت سے اہل کتاب تم کو لوٹانا چاہتے ہیں) [ مِنْ بَعدِ…] جار (مِنْ ) اور مجرور (بَعْد) آگے مضاف بھی ہے (ہر ظرف عموماً مضاف ہو کر ہی استعمال ہوتا ہے) [ ایمانِکم ] مرکب اضافی ہے جس میں مضاف الیہ تو ضمیر مجرور ” کُم “ ہے اور کلمہ ” اِیمان “ جو آگے مضاف ہونے کی وجہ سے خفیف بھی ہوگیا ہے اپنے سے ما قبل ظرف (بعد) کا مضاف الیہ بھی ہے ‘ اس لیے اس کی تنوین الجر (-ٍ ) اب صرف ایک کسرہ (-ِ ) رہ گئی ہے۔ [ کُفَّارًا ] فعل ” یردُّون “ کا مفعول ثانی ہے (مفعول اوّل ” لو یردُّونکم “ یا ” رَدَّکم “ تھا) ۔ در اصل تو فعل ” ردَّ یَرُدُّ “ (لوٹا دینا) کا مفعول ایک ہی ہوتا ہے لیکن یہاں چونکہ یہ ” صَیَّرَ “ (بنا دینا یعنی … کو … بنادینا) کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اس لیے اس کو دو مفعول الاٹ کیے جاسکتے ہیں۔ تاہم بعض نحویوں نے اس (کُفَّارًا) کو ” یَرُدُّنکم “ کی ضمیر مفعول (اول) کا حال قرار دیا ہے۔ اس صورت میں ترجمہ ہوگا ” لوٹا دیں تم کو کافر ہوتے ہوئے : لوٹا دیں تم کو اس حالت میں کہ (تم) کافر ہو وہ “ مگر اس پیچیدہ ترکیب کو اکثر نحویوں نے ” ضعیف “ قرار دیا ہے۔ ویسے ” حال “ کا اردو ترجمہ بھی فہم سے بالاتر ہی رہ جاتا ہے جبکہ مفعول ثانی کی صورت میں اردو ترجمہ بھی آسان ہے ‘ یعنی ” وہ تم کو بنانا چاہتے ہیں کافر “ اور ہمارے تمام مترجمین نے معمولی فرق عبارت کے ساتھ یہی ترجمہ کیا ہے۔ B ” حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِہِمْ مِّنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمُ الْحَقُّ “ یہ عبارت نہ تو بلحاظ مضمون ایک مستقل جملہ بنتی ہے (جو اپنا مطلب سمجھانے کے لیے کسی دوسری عبارت کا محتاج نہ ہو) اور نہ ہی نحوی اعتبار سے کوئی جملہ بنتا ہے (بلکہ نحوی لحاظ سے تو صرف اس کا آخری حصہ ” تبیَّن لھُمُ الحَقُّ “ ہی جملہ بن سکتا ہے) در اصل یہ پوری عبارت سابقہ جملے (نمبر 1) پر ‘ [ جو بلحاظ مضمون بھی اور بلحاظ نحو بھی ایک مکمل جملہ ہے اور اسی لیے ” کُفَّارًا “ کے بعد وقف جائز کی علامت (ج) لکھی ملتی ہے ] تبصرہ کی حیثیت رکھتی ہے اور اسی کے مضمون کے بعض پہلوؤں کی مزید وضاحت کرتی ہے۔ لہٰذا یہ نحوی اعتبار سے اسی کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اور یوں اسی جملہ (نمبر 1) کا ہی حصہ بنتی ہے اور اسی لیے سابقہ جملے کے آخر پر (کُفَّارًا کے بعد) علامت وقف جائز ” ج “ کے اوپر ” صلے “ (ج صلے) بھی لکھا جاتا ہے جس کا مطلب یہی ہے کہ اگرچہ بلحاظ مضمون ایک جملہ ختم ہوتا ہے ‘ تاہم بلحاظ ترکیب نحوی (اِعراب) اس کے ما بعد والی عبارت بھی اسی (سابقہ جملے) سے ملی ہوئی بنتی ہے۔ اس عبارت کی وجوہ اعراب کچھ یوں ہیں۔ [ حَسَدًا ] مفعول لاجلہ (لَہٗ ) ہے ‘ اس لیے منصوب ہے۔ علامت نصب تنوین نصب (-ً ) ہے اور یہ فعل ” وَدَّ “ کا مفعول لہٗ بھی ہوسکتا ہے اور فعل ” یَرُدُّونَ “ کا بھی۔ پہلی صورت میں ترجمہ ہوگا ” دل سے چاہتے ہیں --- ازراہِ حسد “ یعنی ” بہت سے اہل کتاب دل میں حسد رکھ کر : اپنے دل کی جلن سے : اپنے دلی حسد کی وجہ سے : یہ چاہتے ہیں “ اس میں ” حَسَدًا “ کا اصل ترجمہ تو ” حسد رکھ کر : جلن سے : حسد کی وجہ سے “ ہے۔ باقی ” دل میں : دل کی : دلی “ کا تعلق در اصل اگلی عبارت ” مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِھِمْ “ سے ہے (چاہے ” حَسَدًا “ کو ” وَدَّ “ سے متعلق سمجھیں یا ” یَرُدُّونَ “ سے) اردو کے کم از کم تین مترجمین نے اسی طرح (یعنی ” حَسَدًا “ کو فعل ” وَدَّ “ کا مفعول لہٗ سمجھ کر) ترجمہ کیا ہے جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے۔ تاہم بیشتر مترجمین نے دوسری صورت یعنی ” حَسَدًا “ کو فعل ” یردُّون (کُمْ ) “ کا مفعول لہٗ سمجھ کر ترجمہ کیا ہے یعنی تم کو دوبارہ کافر بنانے کی ” کوشش “ یا ” عمل “ (جس کا مفہوم خود فعل ” رَدَّ “ میں موجود ہے) کا باعث حسد ہے۔ یہ تراجم حصہ اللّغۃ [ 2: 66: 1 (3 اور 4)] میں گزر چکے ہیں یعنی ”… کافر بنادیں : کر ڈالیں تم کو محض حسد کی وجہ سے : حسد کی راہ سے جو ان کے نفسوں : دلوں میں ہے : دلی حسد کی وجہ سے : دلوں کی جلن سے “ وغیرہ کی صورت میں … ان میں سے بعض تراجم میں ” جو “ کا استعمال ” حَسَدًا “ کے نکرۂ موصوفہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ اور ” ان کے نفسوں : دلوں : دلی : دلوں کی “ کے الفاظ کا تعلق اگلی عبارت ” من عند انفسِھم “ سے ہی ہے ‘ یعنی ” حسد “ کا سرچشمہ تو ان کے نفس (دل) ہی ہیں ‘ چاہے یہ حسد ” خواہش “ (ودّ ) کا باعث ہو یا ” کوشش : عمل “ (ردّ ) کا باعث ہو۔ [ مِنْ عِنْدِ…] جار (مِنْ ) اور مجرور (ظرفِ مضاف ” عِنْدَ “ ) ہیں جس کی وجہ سے ’‘’ عِنْدَ “ کی دال کی کسرہ (-ِ ) آئی ہے اور ” مِنْ “ یہاں ابتداء الغایۃ کے لیے ہے جسے مِنْ ابتدائیہ بھی کہتے ہیں۔ دیکھیے [ 2: 2: 1 (5)] … یعنی یہ بتاتی ہے کہ اس (حسد) کا منبع کہاں ہے ؟ … اور یہ [ … انفسھم ] ہے۔ یہ مرکب اضافی جس میں آخری ” ھُم “ تو ضمیر مجرور ہے اور کلمہ ” انفُس “ سابقہ طرف (عِندَ ) کا مضاف الیہ ہونے کے باعث مجرور بھی ہے مگر آگے (” ھم “ کی طرف) مضاف ہونے کے باعث اس کی تنوین الجر (-ٍ ) خفیف ہو کر صرف کسرہ (-ِ ) رہ گئی ہے… یوں اس پورے مرکب جاری (مِن عندِ انفُسِھم) کا تعلق ” حَسَدًا “ سے ہی ہے ‘ چاہے ” حَسَدًا “ کا تعلق جس بھی فعل سے ہو۔ [ مِنْ بَعْدِ مَا…] ” مِنْ بَعْدِ…“ ابھی اوپر جملہ نمبر 1 میں (مِن بَعدِ ایمانِکم میں) گزرا ہے اور مندرجہ بالا ” مِنْ عِنْدِ “ کی نحوی پوزیشن بھی وہی ہے ‘ یعنی حرف الجر (مِنْ ) کے بعد ظرف (بَعْد : عند) مجرور اور آگے مضاف ہیں۔ البتہ یہاں (زیر مطالعہ حصہ عبارت میں) اگلا مضاف الیہ کوئی ایک اسم یا مرکب اضافی (ایمانکم : انفسھم کی طرح کا) نہیں بلکہ یہ مضاف الیہ ” ما “ سے شروع ہونے والا ایک جملہ فعلیہ ہے جس کے ساتھ یہ ” ما “ مصدریہ ہو کر اس فعل کو مصدر موؤل بھی بنا سکتا ہے… بعینہٖ اسی ترکیب (مِن بعد مَا…) اور اس کے ” ما “ کی مصدریت کے لیے دیکھیے البقرہ : 75 [ 2: 47: 1 (5)] اور اسی چیز (ما مصدریہ) کا ذکر یہاں بھی (ابھی آگے) ہوگا۔ [ تَبَیَّنَ ] فعل ماضی ہے۔ [ لَھُمْ ] یہ مرکب جاری (لام الجر ” لِ “ + ضمیر مجرور ” ھُم “ ) اس فعل (تَبَیَّنَ ) سے متعلق ہے۔ اس (لِ ) کا اردو ترجمہ اس فعل (تبیَّن) کے ساتھ بصورت ” پَر “ کرنا پڑتا ہے… دیکھیے اوپر [ 2: 66: 1 (4)] میں۔ [ الحَقّ ] فعل ” تبیَّن “ کا فاعل (لہٰذا) مرفوع ہے۔ اصل میں اس کی سلیس عبارت ” مِن بعد ما تبیَّنَ الحقُّ لھم “ بنتی ہے۔ اردو ترکیب جملہ میں اس ” لھم “ کا ترجمہ آخر پر بھی کرسکتے ہیں اور ” مِن بَعدِ مَا “ کے فوراً بعد بھی اور ” مَا “ کو مصدریہ سمجھ لیں تو عبارت (مقدر یا مؤول) بنے گی۔ ” مِنْ بعدِ تَبیَّن الحَقُّ لَھُم “ (بعد واضح ہوجانے حق کے ان پر : حق کے ان پر واضح ہوجانے کے بعد) تاہم ہمارے اکثر مترجمین نے اس (مصدریت والے) ترجمہ کو نظر انداز کرتے ہوئے ” تبیَّن “ کا بطور فعل (ظاہر ہوچکا : ہوگیا وغیرہ) ہی ترجمہ کیا ہے۔ صرف ایک ترجمہ بصورت ” ظاہر : واضح ہوئے پیچھے “ آیا ہے ‘ اس میں ” واضح ہوئے “ بظاہر ” واضح ہونے “ کے (مصدری) مفہوم میں ہی آیا ہے اور یہ پورا مرکب (من بَعد ما تبیَّن لھُم الحق) بھی (حَسَدًا ” مِن عِندِ اَنْفُسِھِمْ “ کی طرح) یا تو فعل ” وَدَّ “ سے متعلق ہے ‘ یعنی حق واضح ہونے کے بعد بھی ازراہ حسد یہ خواہش رکھتے ہیں اور یا پھر فعل ” یَرُدُّونَ “ سے متعلق ہے یعنی حق واضح ہونے کے بعد بھی ازراہِ حسد اس کوشش میں ہیں کہ تم کو لوٹا دیں۔ اسی کوشش کے مفہوم کو بعض مترجمین نے ” کسی طرح لوٹا دیں : پھیر دیں “ سے طاہر کیا ہے۔” لَوْ “ کے ” کاش کہ “ میں بھی ” یہ کس طرح “ (کے عمل یا کوشش) کا مفہوم موجود ہے۔ اور چونکہ اس پوری عبارت یا دونوں عبارتوں (حَسَدًا مِنْ عِندِ انفُسِھم اور مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لھُم الحَقُّ ) کا ترجمہ جملہ نمبر 1 کے فعل ” وَدَّ “ یا ” یَرُدُّونَ ‘ سے بنتا ہے اس لیے اردو کے ایک آدھ مترجم نے عبارت کی اصل عربی ترتیب کی بجائے اجزائے جملہ کی اردو ترتیب کو مد نظر رکھتے ہوئے ترجمہ ” اکثر اہل کتاب (کَثِیْرٌ مِن اَھْلِ الْکِتَابِ ) باوجود یہ کہ حق ان پر ظاہر ہوچکا ہے (مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَھُم الحَقُّ ) اپنے دلی حسد کی وجہ سے (حَسَدًا من عند انفُسِھم) چاہتے ہیں (ودَّ ) کی صورت میں کیا ہے۔ مفہوم تو درست ہے مگر ترجمہ میں ” محاورے کا ہیضہ “ بھی واضح ہے۔ C فَاعْفُوْا وَاصْفَحُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖ [ فَاعفُوا ] ” اُعْفُوا “ (فعل امر حاضر) سے پہلے والی فاء (فَ ) یہاں ” فاء فصیحۃ “ کے طور پر آئی۔ یعنی وہ فاء رابطہ جو کسی مقدر (غیر مذکور) شرط کے جواب کے طور پر آتی ہے۔ دیکھیے البقرہ : 91 [ 2: 56: 2 (5)] میں۔ یہاں یہ مقدر شرط کچھ یوں بنتی ہے ” اذا کان امرھم کذلک فاعفوا…“ (جب ان کا معاملہ یوں ہی ہے تو…) یہاں ” کذلک “ ان کے اوپر بیان کردہ رویہ کے لیے ہے [ وَاصْفَحُوا ] میں ” و “ عاطفہ ہے اور ” اصفَحُوا “ فعل امر حاضر ہے۔ یہاں ان دونوں افعال (اعفوا اور اصفحوا) کے مفعول محذوف ہیں۔ یعنی یہ نہیں بیان ہوا کہ ” کن “ سے اور ان کے ” کون سے “ فعل سے درگزر کرو ‘ مگر سیاق عبارت سے ” اہل کتاب کی اکثریت کے عزائم اور منصوبے “ سمجھے جاسکتے ہیں۔ [ حَتّٰی ] یہاں بطور حرفِ نصب آیا ہے جس کے بعد ایک مقدر ” أن “ کے باعث مضارع منصوب ہوجاتا ہے اور اسی لیے [ یَأْتِیَ ] فعل مضارع منصوب ہے۔ علامت نصب آخری ” ی “ (لام کلمہ) کی فتحہ (-َ ) ہے۔ اور چونکہ ” اَن “ (یعنی ” حتی اَن “ والا مقدر) مصدریہ بھی ہوتا ہے اس لیے مصدر مؤول کے ساتھ ” حَتّٰی “ (حرف الجر ہو کر) ” حتّٰی یَاْتی اللّٰہُ بامرہ “ سے مقدر یا مؤول عبارت بصورت ” حتّٰی اِتیانِ امرِ اللّٰہ “ (یعنی اللہ کے حکم آنے تک) بنے گی۔ تاہم یہ خواہ مخواہ کی فنی پیچیدگی اور محض فعل کا مصدر بنانے کی مشق ہے ‘ اس لیے ہمارے کسی مترجم نے بھی اسے اختیار نہیں کیا ‘ بلکہ سب نے سیدھا سادہ فعل کے ساتھ ترجمہ کیا ہے۔ اس بناء پر اسم جلالت [ اللّٰہُ ] یہاں اس فعل (یاتی) کا فاعل (لہٰذا) مرفوع ہے۔ [ بامرہٖ ] کی ابتدائی باء (بِ ) وہ صلہ ہے جو فعل ” أَتَی - آنا “ پر لگ کر اسے ”… کو لانا ‘ لے آنا “ کے معنی دیتا ہے۔ باقی حصہ ” امرہ “ مرکب اضافی ہے جس میں ” امر “ مضاف ہے جو باء (بِ ) کی وجہ سے مجرور اور آگے مضاف ہونے کی وجہ سے خفیف بھی ہے ‘ یعنی اس کی تنوین ایک کسرہ (-ِ ) میں بدل گئی ہے اور آخر پر ضمیر مجرور (ہ) ہے ۔ یوں یہ پورا مرکب جاری (بامرِہ) متعلق فعل ” یاتی “ ہے اور آپ اسے اس کا مفعول (لہٰذا محلاً منصوب) بھی کہہ سکتے ہیں۔ D اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ… بعینہٖ یہی جملہ سب سے پہلے البقرہ : 20 میں آیا تھا اس کے اعراب کے لیے دیکھیے [ 2: 15: 2] کے آخر پر۔
Top