Kashf-ur-Rahman - Al-Maaida : 16
یَّهْدِیْ بِهِ اللّٰهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهٗ سُبُلَ السَّلٰمِ وَ یُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ بِاِذْنِهٖ وَ یَهْدِیْهِمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ
يَّهْدِيْ : ہدایت دیتا ہے بِهِ : اس سے اللّٰهُ : اللہ مَنِ اتَّبَعَ : جو تابع ہوا رِضْوَانَهٗ : اس کی رضا سُبُلَ : راہیں السَّلٰمِ : سلامتی وَيُخْرِجُهُمْ : اور وہ انہیں نکالتا ہے مِّنَ : سے الظُّلُمٰتِ : اندھیرے اِلَى النُّوْرِ : نور کی طرف بِاِذْنِهٖ : اپنے حکم سے وَيَهْدِيْهِمْ : اور انہیں ہدایت دیتا ہے اِلٰي : طرف صِرَاطٍ : راستہ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھا
جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو اس کی رضا کے طالب ہیں سلامتی کی راہی بتاتا ہے اور اپنے حکم سے ان کو اندھیروں سے نکال کر اجالے میں لاتا ہے اور ان کو سیدھے رستے چلاتا ہے ۔1
1 اے اہل کتاب تمہارے پاس ہمارا یہ رسول یعنی محمد رسول اللہ ﷺ لائے ہیں جن کی شان یہ ہے کہ کتاب یعنی توریت و انجیل کے ان مضامین میں سے جن کو تم چھپایا کرتے ہو اکثر مضامین ضروریہ اور علمیہ کو یہ تمہارے روبرو صاف صاف بیان فرما دیتے ہیں اور بہت سے غیر ضروری امور کو باوجود علم و اطلاع کے درگذر بھی فرما دیتے ہیں یقین جانو ! اللہ تعالیٰ کی جانب سے تمہارے پاس ایک روشنی اور ایک واضح کتاب آچکی ہے اس کتاب اور روشنی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو رضائے حق کے طالب اور تابع ہیں سلامتی کی راہیں بتاتا اور دکھاتا ہے اور ان طالبا نرضائے حق کو اپنے ارادے اور اپنی توفیق اور اپنے فضل سے کفر و شرک کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان اور اطاعت کی روشنی میں لے آتا ہے اور ان کو ہمیشہ سیدھی راہ چلاتا اور سیدھی راہ پر ثابت رکھتا ہے۔ (تیسیر) اہل کتاب سے مراد یہود و نصاریٰ یں یہ اہل کتاب اس امر کے عادی تھے کہ اپنی کتابوں کے مضامین چھپالیا کرتے تھے جیسے رحم اور سنگساری کے احاکم اور نبی کریم ﷺ کی صفت وثناء اور نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کی بشارت جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے بیان کی تھی غرض ایسے مضامین مراد ہیں جو اہل کتاب چھپاتے تھے اور اس کا اظہار کرنا اور ان کا اعلان کرنا ضروری تھا ان مضامین کو نبی کریم ﷺ صاف صاف بیان کردیتے ہیں جیسا کہ بعض مواقع پر آپ ﷺ نے توریت لا کر پڑھنے کا مطالبہ فرمایا اور جیسا کہ ابن صوریا نے احکام رجم کو چھپایا اور آپ ﷺ نے اس کو قسم دے کر دریافت کیا اور نبی کریم ﷺ کا باوجود امی ہونے اور توریت و انجیل کی تعلیم حاصل نہ کرنے کے ان کتابوں کے مضامین کا اظہار آپ کا معزاج تھا اور آپ کے نبی برحق ہونے کی دلیل تھی۔ علمی اعتبار سے تو آپ کی یہ شان تھی کہ جن کتب سماویہ کو کبھی پڑھانہ تھا ان کے مضامین بیان فرما دیتے تھے اور اخلاق کی یہ حالت کہ جن مضامین کا ظاہر کرنا غیر ضروری ہوتا تھا یعنی ایسے مضامین جن کا کسی شرعی مسئلہ سے تعلق نہ ہوتا تھا اور ان کے بیان کرنے سے اہل کتاب کی محض فضیحت و رسوائی ہوتی تھی ان کو درگزر فرما دیا کرتے تھے اور یہ آپ کی وسعت اخلاق بھی آپ کی نبوت کی دلیل کے لئے موید تھی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ویعفوا عن کثیر سے یہود و نصاریٰ کی کو تا ہیں اور ان کے گناہ مراد ہوں کہ ان کے ذاتی معاملات کی تشہیر کر کے ان کی رسوائی اور ان کو فضیحت نہیں فرماتے بلکہ جن مضامین کا تعلق شرعی احکام سے ہوتا ہے صرف اس کو صاف طور پر بیان فرماتے ہیں۔ یہ آپ کے علم اور آپ کے اخلاق کی انتہائی بلندی کا اظہار ہے نیز اس امر پر تنبیہہ بھی ہے کہ ایک ایسے رسول کی موجودگی میں اب مضامین حصہ اور مسائل شرعیہ کا چھپانا بےسود ہے اس کی تشریف آوری سے قبل جو گمراہی پھیلا چکے وہ پھیلا چکے اور اب چونکہ تمہاری تمام وہ مضحکہ خیز مکاریاں جو تم کرتے رہے ہو ظاہر ہوجائیں گی اس لئے اب تم کتاب الٰہی کی ان تحریفات سے باز آ جائو اور اس رسول پر ایمان لے آئو۔ نور سے مراد نبی کریم ﷺ اور کتاب سے مراد قرآن کریم ہے اور ہوسکتا ہے کہ نور سے مراد اسلام ہو اور کتاب سے مراد قرآن کریم ہو اور ہوسکتا ہے عطف تفسیری ہو اور یہ مطلب ہو کہ تمہارے پاس ایک روش چیز یعنی کتاب مبین آچکی ہے۔ بہ کی ضمیر کا مرجع نور اور کتاب دونوں کی طرف ہے چونکہ یہ دونوں اپنے مقصد کے اعتبار سے ایک ہی ہیں اس لئے مفرد کی ضمیر بیان فرمائی سلامتی کی راہوں سے مراد عذاب سے محفوظ رہنے کی راہیں ہیں یا جنت میں جانے کے راستے ہیں اور ہوسکتا ہے سلام سے مراد خود حضرت حق تعالیٰ کی ذات ہو اور مطلب یہ ہو کہ اس پیغمبر اور اس کتاب کی برکت سے ہم اپنے تک پہونچنے کی راہیں اس شخص پر نمایاں کردیتے ہیں جو ہماری رضا کا طالب ہو ، اور رضائے حق کا پیروی وہی شخص ہوسکتا ہے جو اس کا طالب ہو۔ اس لئے ہم نے بعض محققین کی تفسیر سے من اتبع رضوانہ کا ترجمہ رضائے حق کا طالب کیا ہے باذنہ سے مراد حضرت حق کی توفیق اور اس کا فضل ہے یھدیھم کا مطلب یہ ہے کہ ان کو ان راستوں پر چلاتا ہے اور ان کو ثابت رکھتا ہے ہم نے ترجمہ اور تسہیل میں سب اقوال کی رعایت رکھی ہے سبیل السلام کے کچھ ہی معنی کئے جائیں مگر مراد ان طریقوں سے عقائد و اعمال ہیں۔ غرض ! آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے یہود و نصاریٰ تم کو معلوم ہونا چاہئے کہ تمہارے پاس ہمارا وہ آخری رسول ﷺ جس کی بشارتیں اور جس کا تذکرہ تمہاری کتابوں میں موجود ہے آگیا ہے اور وہ ہمارا رسول مبعوث ہوچکا ہے اس کے علم کی شان یہ ہے کہ ا ن مضامین شرعیہ میں سے جن کو تم چھپاتے چلے آتے ہو وہ تمہارے سامنے بےتکلف صاف صاف بیان کردیتا ہے اور اس کے خلق عظیم کی یہ شان ہے کہ اکثر باتیں جن کا ظاہر کرنا محض تمہاری رسوائی اور فضیحت کا ہو جب ہو اور ان سے کوئی شرعی امر متعلق نہ ہو ان کو نظر انداز کر دیات ہے اور ان کی تشہیر نہیں کرتا۔ یہ اس کے علم اور اس کے عمل کی انتہائی بلندی ہے اور دیکھو تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی جانب سے پیغمبر اور قرآن کریم آچکا ہے اللہ تعالیٰ ان دونوں چیزوں کے ذریعہ ہر اس شخص ک نجات اور سلامتی کے طریقے بتاتا اور دکھاتا ہے جو اس کی رضا کے طالب ہوں اور رضائے حق کے جویاں ہوں اور ان کو کفر و معصیت کی گوناگوں تاریکیوں سے نکال کر ایک ایسے اجالے اور ایک ایسی روشنی میں لے آتا ہے جو صحیح عقائدو اعمال کی روشنی ہے اور یہ تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی جانب لے آنا اس کی توفیق اور اس کی مشیت وا رادے کے ماتحت ہوتا ہے اور نہ صرف یہ کہ صحیح راہ دکھا کر اپنی سرپرستی ہٹا لیتا ہے بلکہ ایسے لوگوں کی پوری سرپرستی فرماتا ہے اور ان کو صحیح راہ پر ثابت قدم رکھتا ہے۔ یہ بات رکھنی چاہئے کہ اگرچہ نبی کریم ﷺ اور قرآن کریم کے ذریعہ سے ہدایات کا حاصل ہونا تمام بنی نوع انسان کے لئے ہے مگر چونکہ طالبان حق اس سے حقیقی طور پر مستفید ہوتے ہیں اس لئے ان کا تذکرہ فرما دیا سل سلام کی ہدایت اور طریق مستقیم کی ہدایت میں تغایر و صفی کی رعایت سے ہم نے تفسیر کی ہے ۔ اگرچہ یہ تغایر و صفی تغایر ذاتی کے مرتبہ کردیا گیا ہے بہرحال جب کوئی بندہ حضرت حق تعالیٰ کی رضا کا طالب ہوتا ہے اور راہ حق کا جو یاں ہوتا ہی تو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کے ساتھ اس کی سرپرستی فرماتی ہیں اور اس کی ایسی رہنمائی کرتے ہیں کہ اس کو گرنے اور بھٹکنے نہیں دیتے جب کبھی گرتا ہے تو اس کو سنبھال لیتے ہیں ہرچند کہ راستہ سلامتی کا ایک ہی ہے مگر چوں کہ اس کے فنون اور اس کی شاخیں بہت سی ہیں اس لئے سبل فرمایا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب اب آگے نصاریٰ کے بعض عقائد فاسدہ کا ذکر اور ان کا رد فرماتے ہیں چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)
Top