Maarif-ul-Quran - An-Nahl : 68
وَ اَوْحٰى رَبُّكَ اِلَى النَّحْلِ اَنِ اتَّخِذِیْ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا وَّ مِنَ الشَّجَرِ وَ مِمَّا یَعْرِشُوْنَۙ
وَاَوْحٰى : اور الہام کیا رَبُّكَ : تمہارا رب اِلَى : طرف۔ کو النَّحْلِ : شہد کی مکھی اَنِ : کہ اتَّخِذِيْ : تو بنا لے مِنَ : سے۔ میں الْجِبَالِ : پہاڑ (جمع) بُيُوْتًا : گھر (جمع) وَّ : اور مِنَ : سے۔ میں الشَّجَرِ : پھل وَمِمَّا : اور اس سے جو يَعْرِشُوْنَ : چھتریاں بناتے ہیں
اور حکم دیا تیرے رب نے شہید کی مکھی کو کہ بنائے پہاڑوں میں گھر اور درختوں میں اور جہاں ٹٹیاں باندھتے ہیں
خلاصہ تفسیر
اور (یہ بات بھی غور کے قابل ہے کہ) آپ کے رب نے شہد کی مکھی کے جی میں یہ بات ڈالی کہ تو پہاڑوں میں گھر (یعنی چھتہ) بنا لے اور درختوں میں (بھی) اور لوگ جو عمارتیں بناتے ہیں ان میں (بھی چھتہ لگا لے چناچہ ان سب موقعوں پر وہ چھتہ لگاتی ہے) پھر ہر قسم کے (مختلف) پھلوں سے (جو تجھ کو مرغوب ہوں) چوستی پھر پھر (چوس کر چھتہ کی طرف واپس آنے کے لئے) اپنے رب کے راستوں میں چل جو (تیرے لئے باعتبار چلنے کے اور یاد رہنے کے) آسان ہیں (چنانچہ بڑی بڑی دور سے بےراستہ بھولے ہوئے اپنے چھتے کو لوٹ آتی ہے پھر جب چوس کر اپنے چھتہ کی طرف لوٹتی ہے تو) اس کے پیٹ میں سے پینے کی ایک چیز نکلتی ہے (یعنی شہد) جس کی رنگتیں مختلف ہوتی ہیں اس میں لوگوں (کی بہت سی بیماریوں) کے لئے شفاء ہے اس میں (بھی) ان لوگوں کے لئے (توحید کی اور منعم ہونے کی) بڑی دلیل ہے جو سوچتے ہیں)

معارف و مسائل
اَوْحٰى۔ وحی یہاں اپنے اصطلاحی مفہوم میں نہیں ہے بلکہ لغوی معنی میں ہے وہ یہ کہ متکلم مخاطب کو کوئی خاص بات مخفی طور پر اس طرح سمجھا دے کہ دوسرا شخص اس بات کو نہ سمجھ سکے۔
النَّحْلِ ، شہد کی مکھی اپنی عقل و فراست اور حسن تدبیر کے لحاظ سے تمام حیوانات میں ممتاز جانور ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اس کو خطاب بھی امتیازی شان کا کیا ہے باقی حیوانات کے بارے میں تو قانون کلی کے طریقہ پراَعْطٰي كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهٗ ثُمَّ هَدٰى فرمایا لیکن اس ننھی سی مخلوق کے بارے میں خاص کرکے اَوْحٰى رَبُّكَ فرمایا جس سے اشارہ اس بات کی طرف کردیا کہ یہ دوسرے حیوانات سے بہ نسبت عقل و شعور اور سوجھ بوجھ میں ایک ممتاز حیثیت رکھتی ہے۔
شہد کی مکھیوں کی فہم و فراست کا اندازہ ان کے نظام حکومت سے بخوبی ہوتا ہے اس ضعیف جانور کا نظام زندگی انسانی سیاست وحکمرانی کے اصول پر چلتا ہے تمام نظم ونسق ایک بڑی مکھی کے ہاتھ میں ہوتا ہے جو تمام مکھیوں کی حکمرانی ہوتی ہے اس کی تنظیم اور تقسیم کار کی وجہ سے پورا نظام صحیح سالم چلتا رہتا ہے اس کے عجیب و غریب نظام اور مستحکم قوانین و ضوابط کو دیکھ کر انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے خود یہ ملکہ تین ہفتوں کے عرصہ میں چھ ہزار سے بارہ ہزار تک انڈے دیتی ہے یہ اپنی قد وقامت اور وضع وقطع کے لحاظ سے دوسری مکھیوں سے ممتاز ہوتی ہے یہ بلکہ تقسیم کار کے اصول پر اپنی رعایا کو مختلف امور پر مامور کرتی ہے ان میں سے بعض دربانی کے فرائض انجام دیتی ہیں اور کسی نامعلوم اور خارجی فرد کو اندر داخل نہیں ہونے دیتیں بعض انڈوں کی حفاظت کرتی ہیں بعض نابالغ بچوں کی تربیت کرتی ہیں بعض معماری اور انجنیرنگ کے فرائض ادا کرتی ہیں ان کے تیار کردہ اکثر چھتوں کے خانے بیس ہزار سے تیس ہزار تک ہوتے ہیں بعض موم جمع کرکے معماروں کے پاس پہنچاتی رہتی ہیں جن سے وہ اپنے مکانات تعمیر کرتے ہیں یہ موم نباتات پر جمے ہوئے سفید قسم کے سفوف سے حاصل کرتی ہیں گنے پر یہ مادہ بکثرت نظر آتا ہے ان میں سے بعض مختلف قسم کے پھولوں اور پھلوں پر بیٹھ کر اس کو چوستی ہیں جو ان کے پیٹ میں شہد میں تبدیل ہوجاتا ہے یہ شہد ان کی اور ان کے بچوں کی غذا ہے اور یہی ہم سب کے لئے بھی لذت وغذا کا جوہر اور دوا و شفاء کا نسخہ ہے یہ مختلف پارٹیاں نہایت سرگرمی سے اپنے اپنے فرائض سر انجام دیتی ہیں اور اپنی ملکہ کے حکم کو دل وجان سے قبول کرتی ہیں ان میں سے اگر کوئی گندگی پر بیٹھ جائے تو چھتے کے دربان اسے باہر روک لیتے ہیں اور ملکہ اس کو قتل کردیتی ہے ان کے اس حیرت انگیز نظام اور حسن کارکردگی کو دیکھ کر انسان حیرت میں پڑجاتا ہے (از الجواہر)
بُيُوْتًا سے جو ہدایت دی گئی ہے ان میں سے یہ پہلی ہدایت ہے جس میں گھر بنانے کا ذکر ہے یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ ہر جانور اپنے رہنے سہنے کے لئے گھر تو بناتا ہی ہے پھر اس اہتمام سے گھروں کی تعمیر کا حکم مکھیوں کو دینے میں کیا خصوصیت ہے پھر یہاں لفظ بھی بیوت کا استعمال فرمایا جو عموما انسانی رہائش گاہوں کے لئے بولا جاتا ہے اس سے اشارہ ایک تو اس طرف کردیا کہ مکھیوں کو چونکہ شہد تیار کرنا ہے اس کے لئے پہلے سے ایک محفوظ گھر بنالیں دوسرا اس طرف اشارہ کردیا کہ جو گھر یہ بنائیں گی وہ عام جانوروں کے گھروں کی طرح نہیں ہوں گے بلکہ ان کی ساخت و بناوٹ غیر معمولی قسم کی ہوگی چناچہ ان کے گھر عام جانوروں کے گھروں سے ممتاز ہوتے ہیں جن کو دیکھ کر انسانی عقل بھی ششدر رہ جاتی ہے ان کے گھر مسدس شکل کے ہوتے ہیں پرکار اور مسطر سے بھی اگر ان کی پیمائش کی جائے تو بال برابر بھی فرق نہیں رہتا مسدس شکل کے علاوہ وہ دوسری کسی شکل مثلا مربع اور مخمس وغیرہ کو اس لئے اختیار نہیں کرتیں کہ ان کے بعض کونے بیکار رہ جاتے ہیں ،
اللہ تعالیٰ نے مکھیوں کو محض گھر بنانے کا حکم نہیں دیا بلکہ اس کا محل وقوع بھی بتلا دیا کہ وہ کسی بلندی پر ہونا چاہئے کیونکہ ایسے مقامات پر شہد کو تازہ اور صاف چھنی ہوئی ہوا پہنچتی رہتی ہے وہ گندی ہوا سے بچا رہتا ہے اور توڑ پھوڑ سے بھی محفوظ رہتا ہے چناچہ فرمایا۔
مِنَ الْجِبَالِ بُيُوْتًا وَّمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُوْنَ یعنی ان گھروں کی تعمیر پہاڑوں درختوں اور بلند عمارتوں پر ہونی چاہئے تاکہ شہد بالکل محفوظ طریقہ سے تیار ہو سکے۔
Top