Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-Kahf : 82
وَ اَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلٰمَیْنِ یَتِیْمَیْنِ فِی الْمَدِیْنَةِ وَ كَانَ تَحْتَهٗ كَنْزٌ لَّهُمَا وَ كَانَ اَبُوْهُمَا صَالِحًا١ۚ فَاَرَادَ رَبُّكَ اَنْ یَّبْلُغَاۤ اَشُدَّهُمَا وَ یَسْتَخْرِجَا كَنْزَهُمَا١ۖۗ رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ١ۚ وَ مَا فَعَلْتُهٗ عَنْ اَمْرِیْ١ؕ ذٰلِكَ تَاْوِیْلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَّلَیْهِ صَبْرًا٢ؕ۠ ۧ
وَاَمَّا
: اور رہی
الْجِدَارُ
: دیوار
فَكَانَ
: سو وہ تھی
لِغُلٰمَيْنِ
: دو بچوں کی
يَتِيْمَيْنِ
: دو یتیم
فِي الْمَدِيْنَةِ
: شہر میں۔ کے
وَكَانَ
: اور تھا
تَحْتَهٗ
: اس کے نیچے
كَنْزٌ
: خزانہ
لَّهُمَا
: ان دونوں کے لیے
وَكَانَ
: اور تھا
اَبُوْهُمَا
: ان کا باپ
صَالِحًا
: نیک
فَاَرَادَ
: سو چاہا
رَبُّكَ
: تمہارا رب
اَنْ يَّبْلُغَآ
: کہ وہ پہنچیں
اَشُدَّهُمَا
: اپنی جوانی
وَيَسْتَخْرِجَا
: اور وہ دونوں نکالیں
كَنْزَهُمَا
: اپنا خزانہ
رَحْمَةً
: مہربانی
مِّنْ رَّبِّكَ
: سے تمہارا رب
وَمَا فَعَلْتُهٗ
: اور یہ میں نے نہیں کیا
عَنْ
: سے
اَمْرِيْ
: اپنا حکم (مرضی)
ذٰلِكَ
: یہ
تَاْوِيْلُ
: تعبیر (حقیقت)
مَا
: جو
لَمْ تَسْطِعْ
: تم نہ کرسکے
عَّلَيْهِ
: اس پر
صَبْرًا
: صبر
اور وہ جو دیوار تھی سو دو یتیم لڑکوں کی تھی اس شہر میں اور اس کے نیچے مال گڑا تھا ان کا اور ان کا باپ تھا نیک پھر چاہا تیرے رب نے کہ وہ پہنچ جائیں اپنی جوانی کو اور نکالیں اپنا مال گڑا ہوا مہربانی سے تیرے رب کی اور میں نے یہ نہیں کیا اپنے حکم سے یہ ہے پھیر ان چیزوں کا جن پر تو صبر نہ کرسکا۔
(آیت) تَحْتَهٗ كَنْزٌ لَّهُمَا یہ خزانہ جو یتیم بچوں کے لئے زیر دیوار دفن تھا اس کے متعلق حضرت ابو الدرداء ؓ نے رسول کریم ﷺ سے یہ روایت کیا ہے کہ وہ سونے اور چاندی کا ذخیرہ تھا (رواہ الترمذی والحاکم وصححہ از مظہری)
ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ وہ سونے کی ایک تختی تھی جس پر نصیحت کے مندرجہ ذیل کلمات لکھے ہوئے تھے یہ روایت حضرت عثمان بن عفان ؓ نے مرفوعاً رسول کریم ﷺ سے بھی نقل فرمائی (قرطبی)
1 بسم اللہ الرحمن الرحیم۔
2 تعجب ہے اس شخص پر جو تقدیر پر ایمان رکھتا ہے پھر غمگین کیونکر ہوتا ہے۔
3 تعجب ہے اس شخص پر جو اس پر ایمان رکھتا ہے کہ رزق کا ذمہ دار اللہ ہے پھر ضرورت سے زیادہ مشقت اور فضول قسم کی کوشش میں کیوں لگتا ہے۔
4 تعجب ہے اس شخص پر جو موت پر ایمان رکھتا ہے پھر خوش و خرم کیسے رہتا ہے۔
5 تعجب ہے اس شخص پر جو حساب آخرت پر ایمان رکھتا ہے پھر غفلت کیسے برتتا ہے۔
6 تعجب ہے اس شخص پر جو دنیا کو اور اس کے انقلابات کو جانتا ہے پھر کیسے اس پر مطمئن ہو کر بیٹھتا ہے۔
7 لا الہ اللہ محمد رسول اللہ۔
والدین کی نیکی کا فائدہ اولاد در اولاد کو بھی پہنچتا ہے
وَكَانَ اَبُوْهُمَا صَالِحًا اس میں اشارہ ہے کہ یتیم بچوں کے لئے مدفون خزانے کی حفاظت کا سامان بذریعہ خضر ؑ اس لئے کرایا گیا تھا کہ ان یتیم بچوں کا باپ کوئی مرد صالح اللہ کے نزدیک مقبول تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کی مراد پوری کرنے اور اس کی اولاد کو فائدہ پہنچانے کا یہ انتظام فرمایا محمد بن منکدر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایک بندے کی نیکی اور صلاحیت کی وجہ سے اس کی اولاد اور اولاد اور اس کے خاندان کی اور اس کے آس پاس کے مکانات کی حفاظت فرماتے ہیں (مظہری)
قرطبی میں ہے کہ حضرت شبلی فرمایا کرتے تھے کہ میں اس شہر اور پورے علاقہ کے لئے امان ہوں جب ان کی وفات ہوگئی تو ان کے دفن ہوتے ہی کفار دیلم نے دریائے دجلہ کو عبور کرکے بغداد پر قبضہ کرلیا اس وقت لوگوں کی زبان پر یہ تھا کہ ہم پر دوہری مصیبت ہے یعنی شبلی کی وفات اور دیلم کا قبضہ (قرطبی ص 29 ج 11)
تفسیر مظہری میں ہے کہ اس آیت میں اس کی طرف بھی اشارہ ہے کہ لوگوں کو بھی علماء وصلحاء کی اولاد کی رعایت اور ان پر شفقت کرنی چاہئے جب تک کہ وہ بالکل ہی کفر و فسق و فجور میں مبتلا نہ ہوجائیں۔
(آیت) اَنْ يَّبْلُغَآ اَشُدَّهُمَا لفظ اشد شدۃ کی جمع ہے مراد قوت ہے اور وہ عمر جس میں انسان اپنی پوری قوت اور بھلے برے کی پہچان پر قادر ہوجاتا ہے ابوحنیفہ کے نزدیک یہ پچیس سال کی عمر ہے اور بعض حضرات نے فرمایا کہ چالیس سال عمر ہے کیونکہ قرآن کریم میں ہے کہ (آیت) حَتّىٰٓ اِذَا بَلَغَ اَشُدَّهٗ وَبَلَـغَ اَرْبَعِيْنَ سَـنَةً (مظہری)
پیغمبرانہ بلاغت اور رعایت ادب کی ایک مثال
اس مثال کو سمجھنے کے لئے پہلے یہ بات سمجھ لینی ضروری ہے کہ دنیا میں کوئی اچھا یا برا کام اللہ تعالیٰ کی مشیت و ارادے کے بغیر نہیں ہوسکتا خیر و شر سب اس کی مخلوق اور اس کے ارادے اور مشیت کے تابع ہیں جن امور کو شر یا برا سمجھا اور کہا جاتا ہے وہ خاص افراد اور خاص حالات کے اعتبار سے ضرور شر اور برا کہلانے کے مستحق ہوتے ہیں مگر مجموعہ عالم اور عالم دنیا کے مزاج کے لئے سب ضروری اور تخلیق الہی کے اعتبار سے سب خیر ہی ہوتے ہیں اور سب حکمت پر مبنی ہوتے ہیں۔
کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں۔
خلاصہ یہ ہے کہ جو آفت یا حادثہ دنیا میں پیش آتا ہے خدا تعالیٰ کی مشیت و ارادے کے بغیر نہیں ہوسکتا اس لحاظ سے ہر خیر و شر کی نسبت بھی حق تعالیٰ کی طرف ہوسکتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ حق تعالیٰ کی تخلیق کے اعتبار سے کوئی شر شر نہیں ہوتا اس لئے ادب کا تقاضا یہ ہے کہ شر کی نسبت حق تعالیٰ کی طرف نہ کی جائے حضرت ابراہیم ؑ کے کلمات جو قرآن کریم میں مذکور ہیں (آیت) وَالَّذِيْ هُوَ يُطْعِمُنِيْ وَيَسْقِيْنِ وَاِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِيْنِ اسی تعلیم کا سبق دیتے ہیں کہ کھلانے پلانے کی نسبت حق تعالیٰ کی طرف فرمائی پھر بیماری کے وقت شفاء دینے کی نسبت بھی اسی کی طرف کی۔ درمیان میں بیمار ہونے کو اپنی طرف منسوب کرکے کہا (آیت) وَاِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِيْنِ یعنی جب میں بیمار ہوجاتا ہوں تو اللہ تعالیٰ مجھے شفاء عطا فرما دیتے ہیں یوں نہیں کہا کہ جب وہ مجھے بیمار کرتے ہیں تو شفاء بھی دیتے ہیں۔
اب حضرت خضر ؑ کے کلام پر غور کیجئے انہوں نے جب کشتی توڑنے کا ارادہ کیا تو وہ کیونکہ ظاہر میں ایک عیب اور برائی ہے اس کے ارادہ کی نسبت اپنی طرف کرکے فرمایا اَرَدْتَّ پھر لڑکے کو قتل کرنے اور اس کے بدلے میں اس سے بہتر اولاد دینے کا ذکر کیا تو اس میں قتل تو برائی تھی اور بدلہ میں بہتر اولاد دینا ایک بھلائی تھی امر مشترک ہونے کی وجہ سے یہاں بصیغہ جمع متکلم فرمایا فَاَرَدْنَآ یعنی ہم نے ارادہ کیا تاکہ اس میں جتنا ظاہری شر ہے وہ اپنی طرف اور جو خیر ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہو تیسرے واقعہ میں دیوار کھڑی کرکے یتیموں کا مال محفوظ کردینا سراسر خیر ہی خیر ہے اس کی نسبت پوری حق تعالیٰ کی طرف کرکے فرمایا فَاَرَادَ رَبُّكَ یعنی آپ کے رب نے ارادہ کیا۔
خضر ؑ زندہ ہیں یا ان کی وفات ہوچکی
قرآن کریم میں جو واقعہ حضرت خضر ؑ کا مذکور ہے اس کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ خضر ؑ اس واقعے کے بعد وفات پاگئے یا زندہ رہ گئے اسی لئے قرآن و سنت میں اس کے متعلق کوئی صریح بات مذکور نہیں بعض روایات و آثار سے ان کا اب تک زندہ ہونا معلوم ہوتا ہے بعض روایات سے اس کے خلاف مستفاد ہوتا ہے اس لئے اس معاملے میں ہمیشہ سے علماء کی راہیں مختلف رہی ہے جو حضرات ان کی حیات کے قائل ہیں ان کا استدلال ایک تو اس روایت سے ہے جس کو حاکم نے مستدرک میں حضرت انس ؓ سے نقل کیا ہے کہ جب رسول کریم ﷺ کی وفات ہوئی تو ایک شخص سیاہ سفید داڑھی والے داخل ہوئے اور لوگوں کے مجمع کو چیرتے پھاڑتے اندر پہنچے اور رونے لگے پھر صحابہ کرام ؓ اجمعین کی طرف متوجہ ہو کر یہ کلمات کہے۔
ان فی اللہ عزآء من کل مصیبۃ وعوضا من کل فآئت وخلفا من کل ھالک فالی اللہ فانیبوا والیہ فارغبوا ونظرہ الیکم فی البلاء فانظروا فانما المصاب من لم یجیر۔
اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں صبر ہے ہر مصیبت سے اور بدلہ ہے ہر فوت ہونے والی چیز کا اور وہی قائم مقام ہے ہر ہلاک ہونے والے کا اس لئے اسی کی طرف رجوع کرو اسی کو طرف رغبت کرو اور اس بات کو دیکھو کہ وہ تمہیں مصیبت میں مبتلا کر کے تم کو آزماتا ہے اصل مصیبت زدہ وہ ہے جس کی مصیبت کی تلافی نہ ہو۔
یہ آنے والے کلمات مذکورہ کہہ کر رخصت ہوگئے تو حضرت ابوبکر صدیق اور علی المرتضی ؓ نے فرمایا کہ یہ خضر ؑ تھے اس روایت کو جزری ؒ نے حصن حصین میں بھی نقل کیا ہے۔ جن کی شرط یہ ہے کہ صرف صحیح السند روایات اس میں درج کرتے ہیں۔
اور صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ دجال مدینہ طیبہ کے قریب ایک جگہ تک پہنچے گا تو مدینہ سے ایک شخص اس کے مقابلہ کے لئے نکلے گا جو اس زمانے کے سب انسانوں میں بہتر ہوگا یا بہتر لوگوں میں سے ہوگا ابو الحق نے فرمایا کہ یہ شخص حضرت خضر ؑ ہوں گے (قرطی)
اور ابن ابی الدنیا نے کتاب الہواتف میں سند کے ساتھ نقل کیا ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے حضرت خضر ؑ سے ملاقات کی تو خضر ؑ نے ان کو ایک دعا بتلائی جو کہ اس کو ہر نماز کے بعد پڑھا کرے اس کے لئے ثواب عظیم اور مغفرت و رحمت ہے وہ دعا یہ ہے۔
یامن لا یشغلہ سمع عن سمع ویامن لا تغلطہ المسآئل ویامن لایبرم من الحاح الملحین اذقنی برد عفوک وحلاوۃ مغفرتک۔ (قرطبی)
اے وہ ذات جس کو ایک کلام کا سننا دوسرے کلام کے سننے سے مانع نہیں ہوتا اور اے وہ ذات جس کو بیک وقت ہونے والے (لاکھوں کروڑوں) سوالات میں کوئی مغالطہ نہیں لگتا اور وہ ذات جو دعا میں الحاح و اسرار کرنے اور بار بار کہنے سے ملول نہیں ہوتا مجھے اپنے عفو و کرم کا ذائقہ چکھا دیجئے اور اپنی مغفرت کی حلاوت نصیب فرمائیے
اور پھر اسی کتاب میں بعینہ یہی واقعہ اور یہی دعا اور خضر ؑ سے ملاقات کا واقعہ حضرت فاروق اعظم ؓ سے بھی نقل کیا ہے (قرطبی)
اس طرح اولیاء امت میں حضرت خضر ؑ کے بیشمار واقعات منقول ہیں اور جو حضرات خضر ؑ کی حیات کو تسلیم نہیں کرتے ان کا بڑا استدلال اس حدیث سے ہے جو صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے منقول ہے وہ فرماتے ہیں کہ ایک رات رسول کریم ﷺ نے ہمیں عشاء کی نماز میں اپنی آخر حیات میں پڑھائی سلام پھیرنے کے بعد آپ ﷺ کھڑے ہوگئے اور یہ کلمات ارشاد فرمائے۔
ارءیتکم لیلتکم ہذہ فان علی راس مائۃ سنۃ منھا لایبقی ممن ھو علی ظہر الارض احد۔
کیا تم اپنی آج کی رات کو دیکھ رہے ہو اس رات سے سو سال گذرنے پر کوئی شخص ان میں سے زندہ نہ رہے گا جو آج زمین کے اوپر ہے۔
حضرت ابن عمر ؓ نے یہ روایت نقل کرکے فرمایا کہ اس روایت کے بارے میں لوگ مختلف باتیں کرتے ہیں مگر رسول کریم ﷺ کی مراد یہ تھی کہ سو سال پر یہ قرآن ختم ہوجائے گا یہ روایت مسلم میں حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے بھی تقریبا انہی الفاظ کے ساتھ منقول ہے لیکن علامہ قرطبی نے یہ روایت نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ اس میں ان لوگوں کے لئے کوئی حجت نہیں جو حیات خضر ؑ کو باطل کہتے ہیں کیونکہ اس روایت میں اگرچہ تمام بنی آدم کے لئے عموم کے الفاظ ہیں اور عموم بھی مؤ کد کرکے لایا گیا ہے مگر پھر بھی اس میں نص نہیں کہ یہ عموم تمام اولاد آدم ؑ کو شامل ہی ہو کیونکہ اولاد آدم میں تو حضرت عیسیٰ ؑ بھی ہیں جن کی نہ وفات ہوئی اور نہ قتل کئے گئے اس لئے ظاہر یہ ہے کہ حدیث کے الفاظ عَلَی الاَرض میں الف لام عہد کا ہے اور مراد ارض سے ارض عرب ہے پوری زمین جس میں ارض یاجوج و ماجوج اور بلاد شرق اور جزائر جن کا نام بھی عربوں نے نہیں سنا اس میں شامل نہیں یہ علامہ قرطبی کی تحقیق ہے۔
اسی طرح بعض حضرات نے مسئلہ ختم نبوت کو حیات خضر کے منافی سمجھا ہے اس کا جواب بھی ظاہر ہے کہ جس طرح حضرت عیسیٰ ؑ کی حیات ختم نبوت کے منافی نہیں حضرت خضر ؑ کی حیات بھی ایسی ہی ہوسکتی ہے۔
بعض حضرات نے حیات خضر پر یہ شبہ کیا ہے کہ اگر وہ آنحضرت ﷺ کے عہد مبارک میں موجود ہوتے تو ان پر لازم تھا کہ حضور کی خدمت میں حاضر ہوتے اور آپ کے تابع ہو کر اسلامی خدمات میں مشغول ہوتے کیونکہ حدیث میں ارشاد ہے لَو كَانَ مُوسٰی حَیًّا لَّما وَسِعَہ اِلَّااتِّبَاعِی یعنی اگر موسیٰ ؑ آج زندہ ہوتے تو ان کو بھی میرا ہی اتباع کرنا پڑتا (کیونکہ میرے آنے سے دین موسوی منسوخ ہوچکا ہے) لیکن یہ کچھ بعید نہیں کہ حضرت خضر ؑ کی زندگی اور ان کی نبوت عام انبیاء (علیہم السلام) شریعت سے مختلف ہو ان کو چونکہ تکوینی خدمات منجانب اللہ سپرد ہیں وہ ان کے لئے مخلوق سے الگ تھلگ اپنے کام پر مامور ہیں رہا اتباع شریعت محمدیہ تو اس میں کوئی بعد نہیں کہ حضور ﷺ کی نبوت کے بعد سے انہوں نے اپنا عمل شریعت محمدیہ پر شروع کردیا ہو واللہ اعلم
ابوحیان نے تفسیر بحر محیط میں متعدد بزرگوں کے واقعات حضرت خضر ؑ سے ملاقات کے بھی نقل کئے ہیں مگر ساتھ ہی یہ بھی فرمایا ہے کہ۔
والجمہور علی انہ مات (بحر ص 147 ج 2)
جمہور علماء اس پر ہیں کہ خضر ؑ کی وفات ہوگئی۔
تفسیر مظہری میں حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے فرمایا کہ تمام اشکالات کا حل اس میں ہے جو حضرت سید احمد سرہندی مجدد الف ثانی نے اپنے مکاشفہ سے فرمایا وہ یہ کہ میں نے خود حضرت خضر ؑ سے اس معاملہ کو عالم کشف میں دریافت کیا انہوں نے فرمایا کہ میں اور الیاس ؑ ہم دونوں زندہ نہیں ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ قدرت بخشی ہے کہ ہم زندہ آدمیوں کی شکل میں متشکل ہو کر لوگوں کی امداد مختلف صورتوں میں کرتے ہیں واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔
یہ بات میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ حضرت خضر ؑ کی موت وحیات سے ہمارا کوئی اعتقادی یا عملی مسئلہ متعلق نہیں اسی لئے قرآن و سنت میں اس کے متعلق کوئی صراحت و وضاحت نہیں کی گئی اس لئے اس میں زیادہ بحث و تمحیص کی بھی ضرورت نہیں نہ کسی ایک جانب کا یقین رکھنا ہمارے لئے ضروری نہیں ہے لیکن چونکہ مسئلہ عوام میں چلا ہوا ہے اس لئے مذکورہ صدر تفصیلات نقل کردی گئی ہیں۔
Top