Maarif-ul-Quran - An-Naml : 32
قَالَتْ یٰۤاَیُّهَا الْمَلَؤُا اَفْتُوْنِیْ فِیْۤ اَمْرِیْ١ۚ مَا كُنْتُ قَاطِعَةً اَمْرًا حَتّٰى تَشْهَدُوْنِ
قَالَتْ : وہ بولی يٰٓاَيُّهَا الْمَلَؤُا : اے سردارو ! اَفْتُوْنِيْ : مجھے رائے دو فِيْٓ اَمْرِيْ : میرے معاملے میں مَا كُنْتُ : میں نہیں ہوں قَاطِعَةً : فیصلہ کرنے والی اَمْرًا : کسی معاملہ میں حَتّٰى : جب تک تَشْهَدُوْنِ : تم موجود ہو
کہنے لگی اے دربار والوں مشورہ دو مجھ کو میرے کام میں میں طے نہیں کرتی کوئی کام تمہارے حاضر ہونے تک
اہم امور میں مشورہ کرنا سنت ہے اس میں دوسروں کی رائے سے فائدہ بھی حاصل ہوتا ہے اور لوگوں کی دلجوئی بھی ہوتی ہے
قَالَتْ يٰٓاَيُّهَا الْمَلَؤ ُ ا اَفْتُوْنِيْ فِيْٓ اَمْرِيْ ۚ مَا كُنْتُ قَاطِعَةً اَمْرًا حَتّٰى تَشْهَدُوْنِ ، افتونی، فتوی سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں کسی خاص مسئلہ کا جواب دینا۔ یہاں مشورہ دینا اور اپنی رائے کا اظہار کرنا مراد ہے۔ ملکہ بلقیس کو جب حضرت سلیمان ؑ کا خط پہنچا تو اس نے اپنے ارکان حکومت کو جمع کر کے اس واقعہ کا اظہار کیا اور ان سے مشورہ طلب کیا کہ مجھے کیا کرنا چاہئے۔ اس نے ان کی رائے دریافت کرنے سے پہلے ان کی دلجوئی اور ہمت افزائی کے لئے یہ بھی کہا کہ میں کسی معاملہ کا فیصلہ تمہارے بغیر نہیں کرتی۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ فوج اور وزراء نے اس کے جواب میں اپنی مستعدی کے ساتھ تعمیل حکم کے لئے ہر قسم کی قربانی پیش کردی (نَحْنُ اُولُوْا قُوَّةٍ وَّاُولُوْا بَاْسٍ شَدِيْدٍ وَّالْاَمْرُ اِلَيْكِ) حضرت قتادہ نے فرمایا کہ ہم سے یہ بیان کیا گیا ہے کہ بلقیس کی مجلس شوریٰ کے ارکان تین سو تیرہ تھے اور ان میں سے ہر ایک آدمی دس ہزار آدمیوں کا امیر اور نمائندہ تھا۔ (قرطبی)
اس سے معلوم ہوا کہ اہم امور میں مشورہ لینے کا دستور پرانا ہے۔ اسلام نے مشورہ کو خاص اہمیت دی اور عمال حکومت کو مشورہ کا پابند کیا۔ یہاں تک کہ خود رسول اللہ ﷺ جو وحی الٰہی کے مورد تھے۔ اور آسمانی ہدایات آپ کو ملتی تھیں اس کی وجہ سے آپ کو کسی رائے مشورہ کی درحقیقت ضرورت نہ تھی۔ مگر امت کے لئے سنت قائم کرنے کے واسطے آپ کو بھی حکم دیا گیا (وَشَاوِرْھُمْ فِي الْاَمْرِ) یعنی آپ اہم امور میں صحابہ کرام سے مشورہ لیا کریں۔ اس میں صحابہ کرام کی دلجوئی اور عزت افزائی بھی ہے اور آئندہ آنے والے عمال حکومت کو اس کی تاکید بھی کہ مشورہ سے کام کیا کریں۔
مکتوب سلیمانی کے جواب میں ملکہ بلقیس کا ردعمل
ارباب حکومت کو مشورہ میں شریک کرکے ان کا تعاون حاصل کرلینے کے بعد ملکہ بلقیس نے خود ہی ایک رائے قائم کی جس کا حاصل یہ تھا کہ وہ حضرت سلیمان کا امحتان لے اور تحقیق کرے کہ وہ واقعی اللہ کے رسول اور نبی ہیں اور جو کچھ حکم دے رہے ہیں وہ اللہ کے احکام کی تعمیل ہے یا وہ ایک ملک گیری کے خواہشمند بادشاہ ہیں، اس امتحان سے اس کا مقصد یہ تھا کہ اگر واقعی وہ نبی و رسول ہیں تو ان کے حکم کا اتباع کیا جائے اور مخالفت کی کوئی صورت اختیار نہ کی جائے اور اگر بادشاہ ہیں اور ملک گیری کی ہوس میں ہمیں اپنا غلام بنانا چاہتے ہیں تو پھر غور کیا جائے گا کہ ان کا مقابلہ کس طرح کیا جائے۔ اس امتحان کا طریقہ اس نے یہ تجویز کیا کہ سلیمان ؑ کے پاس کچھ ہدیے تحفے بھیجے اگر وہ ہدیے تحفے لے کر راضی ہوگئے تو علامت اس کی ہوگی کہ وہ ایک بادشاہ ہی ہیں اور اگر وہ واقع میں نبی و رسول ہیں تو وہ اسلام و ایمان کے بغیر کسی چیز پر راضی نہ ہوں گے، یہ مضمون ابن جریر نے متعدد اسانید کے ساتھ حضرت ابن عباس، مجاہد، ابن جریج، ابن وہب سے نقل کیا ہے اسی کا بیان اس آیت میں ہے۔
Top