Maarif-ul-Quran - Al-Ankaboot : 43
وَ تِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ١ۚ وَ مَا یَعْقِلُهَاۤ اِلَّا الْعٰلِمُوْنَ
وَتِلْكَ : اور یہ الْاَمْثَالُ : مثالیں نَضْرِبُهَا : ہم وہ بیان کرتے ہیں لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَمَا يَعْقِلُهَآ : اور نہیں سمجھتے نہیں اِلَّا : سوا الْعٰلِمُوْنَ : جاننے والے
اور یہ مثالیں بٹھلاتے ہیں ہم لوگوں کے واسطے اور ان کو سمجھتے وہی ہیں جن کو سمجھ ہے ،
تِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا للنَّاسِ ۚ وَمَا يَعْقِلُهَآ اِلَّا الْعٰلِمُوْنَ ، مشرکین کے خداؤں کی کمزوری کی مثال مکڑی کے جالے سے دینے کے بعد یہ ارشاد فرمایا کہ ہم ایسی ایسی واضح مثالوں سے توحید کی حقیت کا بیان کرتے ہیں، مگر ان مثالوں سے بھی سمجھ بوجھ صرف علماء دین ہی حاصل کرتے ہیں، دوسرے لوگ تدبر اور غور و فکر ہی نہیں کرتے کہ حق ان پر واضح ہوجائے۔
اللہ کے نزدیک عالم کون ہے ؟
امام بغوی نے اپنی سند کے ساتھ حضرت جابر سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اس آیت کی تلاوت فرما کر فرمایا کہ عالم وہی شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کے کلام میں غور و فکر کرے اور اس کی اطاعت پر عمل کرے اور اس کو ناراض کرنے والے کاموں سے بچے۔
اس سے معلوم ہوا کہ قرآن و حدیث کے محض الفاظ سمجھ لینے سے اللہ کے نزدیک کوئی شخص عالم نہیں ہوتا، جب تک قرآن میں تدبر اور غور و فکر کی عادت نہ ڈالے اور جب تک کہ اپنے عمل کو قرآن کے مطابق نہ بنائے۔
مسند احمد میں حضرت عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے ایک ہزار امثال سیکھی ہیں، ابن کثیر اس کو نقل کر کے لکھتے ہیں کہ یہ حضرت عمر و بن عاص کی بہت بڑی فضیلت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت مذکورہ میں عالم انہی کو فرمایا ہے جو اللہ و رسول کی بیان کردہ امثال کو سمجھیں۔
اور حضرت عمرو بن مرہ نے فرمایا کہ جب میں قرآن کی کسی آیت پر پہنچتا ہوں جو میری سمجھ میں نہ آئے تو مجھ بڑا غم ہوتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وَتِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا للنَّاسِ ۚ وَمَا يَعْقِلُهَآ اِلَّا الْعٰلِمُوْنَ (ابن کثیر)
Top