Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Az-Zukhruf : 32
اَهُمْ یَقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّكَ١ؕ نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَهُمْ مَّعِیْشَتَهُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ رَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِیًّا١ؕ وَ رَحْمَتُ رَبِّكَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ
اَهُمْ يَقْسِمُوْنَ
: کیا وہ تقسیم کرتے پھرتے ہیں
رَحْمَتَ رَبِّكَ
: رحمت تیرے رب کی
نَحْنُ قَسَمْنَا
: ہم نے تقسیم کی
بَيْنَهُمْ
: ان کے درمیان
مَّعِيْشَتَهُمْ
: ان کی معیشت
فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا
: دنیا کی زندگی میں
وَرَفَعْنَا
: اور بلند کیا ہم نے
بَعْضَهُمْ
: ان میں سے بعض کو
فَوْقَ بَعْضٍ
: بعض پر
دَرَجٰتٍ
: درجوں میں
لِّيَتَّخِذَ
: تاکہ بنائیں
بَعْضُهُمْ
: ان میں سے بعض
بَعْضًا سُخْرِيًّا
: بعض کو خدمت گار۔ تابع دار
وَرَحْمَتُ رَبِّكَ
: اور رحمت تیرے رب کی
خَيْرٌ
: بہتر ہے
مِّمَّا
: ہراس چیز سے
يَجْمَعُوْنَ
: جو وہ جمع کررہے ہیں
کیا وہ بانٹتے ہیں تیرے رب کی رحمت کو ہم نے بانٹ دی ہے ان میں روزی ان کی دنیا کی زندگانی میں اور بلند کردیئے درجے بعض کے بعض پر کہ ٹھہراتا ہے ایک دوسرے کو خدمت گار اور تیرے رب کی رحمت بہتر ہے ان چیزوں سے جو سمیٹتے ہیں۔
تقسیم معیشت کا قدرتی نظام
(آیت) نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَّعِيْشَتَهُمْ (ہم نے تقسیم کیا ہے ان کے درمیان ان کی معیشت کو) مقصد یہ ہے کہ ہم نے اپنی حکمت بالغہ سے دنیا کا نظام ایسا بنایا ہے کہ یہاں ہر شخص اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے دوسرے کی امداد کا محتاج ہو اور تمام لوگ اسی باہمی احتیاج کے رشتے میں بندھے ہوئے پورے معاشرے کی ضروریات کی تکمیل کر رہے ہیں۔ اس آیت نے کھول کر یہ بات بتلا دی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تقسیم معیشت کا کام (اشتراکیت کی طرح) کسی با اختیار انسانی ادارے کے سپرد نہیں کیا جو منصوبہ بندی کے ذریعہ یہ طے کرے کہ معاشرے کی ضروریات کیا ہیں ؟ انہیں کس طرح پورا کیا جائے وسائل پیداوار کو کس تناسب کے ساتھ کن کاموں میں لگایا جائے اور ان کے درمیان آمدنی کی تقسیم کس بنیاد پر کی جائے ؟ اس کے بجائے یہ تمام کام اللہ نے اپنے ہاتھ میں رکھے ہیں اور اپنے ہاتھ میں رکھنے کا مطلب یہی ہے کہ ہر شخص کو دوسرے کا محتاج بنا کر دنیا کا نظام ہی ایسا بنادیا ہے جس میں اگر (اجارہ داریوں وغیرہ کے ذریعہ) غیر فطری رکاوٹیں پیدا کی جائیں تو وہ نظام خود بخود یہ تمام مسائل حل کردیتا ہے۔
باہمی احتیاج کے اس نظام کو موجودہ معاشی اصطلاح میں طلب و رسد کا نظام کہا جاتا ہے۔ طلب و رسد کا قدرتی قانون یہ ہے کہ جس چیز کی رسد کم ہو اور طلب زیادہ اس کی قیمت بڑھتی ہے لہٰذا وسائل پیداوار اس چیز کی تیاری میں زیادہ نفع دیکھ کر اسی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں اور جب رسد طلب کے مقابلے میں بڑھ جاتی ہے تو قیمت گھٹ جاتی ہے چناچہ اس چیز کی مزید تیاری نفع بخش نہیں رہتی اور وسائل پیداوار اس کے بجائے کسی اور ایسے کام میں مصروف ہوجاتے ہیں جس کی ضرورت زیادہ ہو۔ اسلام نے طلب و رسد کی انہی قدرتی قوتوں کے ذریعہ دولت کی پیدائش اور تقسیم کا کام لیا ہے اور عام حالات میں تقسیم معیشت کا کام کسی انسانی ادارے کے حوالہ نہیں کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ منصوبہ بندی کے خواہ کتنے ترقی یافتہ طریقے دریافت کر لئے جائیں لیکن ان کے ذریعہ معیشت کی ایک ایک جزوی ضرورت کا احاطہ ممکن نہیں اور اس قسم کے معاشرتی مسائل عموماً ایسے ہی قدرتی نظام کے تابع چلتے ہیں۔ زندگی کے بیشتر معاشرتی مسائل اسی طرح قدرتی طور پر خود بخود طے پاتے ہیں، اور انہیں حکومت کی منصوبہ بندی کے حوالہ کرنا زندگی میں ایک مصنوعی جکڑ بند پیدا کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ مثال کے طور پر یہ بات کہ دن کا وقت کام کے لئے ہے اور رات کا سونے کے لئے کسی معاہدہ عمرانی یا انسانی منصوبہ بندی کے تحت طے نہیں پائی، بلکہ قدرت کے خود کار نظام نے خود بخود یہ فیصلہ کردیا ہے، اسی طرح یہ مسئلہ کہ کون شخص کس سے شادی کرے طبعی مناسبتوں کے فطری نظام کے تحت خود بخود انجام پاتا ہے اور اسے منصوبہ بندی کے ذریعہ حل کرنے کا کسی کو خیال نہیں آیا۔ یا مثلاً یہ بات کہ کون شخص علم وفن کے کس شعبہ کو اپنا میدان بنائے، اسے طبعی ذوق اور مناسبت کے بجائے حکومت کی منصوبہ بندی کے حوالہ کردینا ایک خواہ مخواہ کی زبردستی ہے اور اس سے نظام فطرت درہم برہم ہوسکتا ہے۔ اسی طرح نظام معیشت کو بھی قدرت نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے اور ہر شخص کے دل میں وہی کام ڈال دیا ہے جو اس کے لئے زیادہ مناسب ہے اور جسے وہ بہت طریقے سے انجام دے سکتا ہے چناچہ ہر شخص خواہ وہ ایک خاکروب ہی کیوں نہ ہو اپنے کام پر خوش ہے اور اسی کو اپنے لئے سرمایہ فخر سمجھتا ہے۔ (آیت) کل حزب بما لدیہم فرحون، البتہ سرمایہ دارانہ نظام کی طرح اسلام نے افراد کو اتنی آزادی نہیں دی کہ وہ ہر جائز و ناجائز طریقے سے دولت سمیٹ کر دوسروں کے لئے رزق کے دروازے بند کر دے، بلکہ ذرائع آمدنی میں حلال و حرام کی تفریق کر کے سود، سٹہ، قمار اور ذخیرہ اندوزی کو ممنوع قرار دے دیا ہے پھر جائز آمدنی پر بھی زکوٰة و عشر وغیرہ کے واجبات عائد کر کے ان خرابیوں کا انسداد کردیا ہے جو موجودہ سرمایہ دارانہ نظام میں پائی جاتی ہیں اس کے باوجود بھی اگر کبھی اجارہ داریاں قائم ہوجائیں تو ان کو توڑنے کے لئے حکومت کی مداخلت کو جائز رکھا ہے۔ یہاں اس کی تفصیل کا موقع نہیں، اس موضوع پر احقر کے مستقل رسالہ ”مسئلہ سود“ اسلام کا نظام تقسیم دولت اور ”اسلامی نظام میں معاشی اصلاحات“ ملاحظہ فرمائے جائیں۔
معاشی مساوات کی حقیقت
(آیت) وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ (اور ہم نے ایک کو دوسرے پر رفعت دے رکھی ہے) اس سے معلوم ہوا کہ معاشی مساوات (اس معنی میں کہ دنیا کے تمام افراد کی آمدنی بالکل برابر ہو) نہ مطلوب ہے نہ ممکن العمل۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کے ہر رکن پر کچھ فرائض عائد کئے ہیں اور کچھ حقوق دیئے ہیں اور دونوں میں اپنی حکمت سے یہ تناسب رکھا ہے کہ جس کے ذمہ جتنے فرائض ہیں اس کے اتنے ہی حقوق ہیں۔ انسان کے علاوہ جتنی مخلوقات ہیں ان کے ذمہ چونکہ فرائض سب سے کم ہیں کہ وہ شرعاً حلال و حرام اور ناجائز و جائز کے مکلف نہیں ہیں اس لئے ان کے حقوق بھی سب سے کم ہیں چناچہ انسان کو ان کے معاملہ میں وسیع آزادی عطا کی گئی ہے کہ وہ ان سے چند معمولی سی پابندیوں کے ساتھ جس طرح چاہے نفع اٹھا سکتا ہے۔ چناچہ بعض حیوانات کو وہ کاٹ کر کھاتا ہے بعض پر سواری کرتا ہے، بعض مخلوقات کو پامال کرتا ہے مگر اسے ان مخلوقات کی حق تلفی نہیں سمجھا جاتا۔ اس لئے کہ ان مخلوقات پر چونکہ فرائض کم ہیں اس لئے ان کے حقوق بھی کم ہیں۔ پھر کائنات میں سب سے زیادہ فرائض انسان اور جنات پر عائد کئے گئے ہیں کہ وہ اپنے ہر قول و فعل اور ہر نقل و حرکت میں اللہ تعالیٰ کے سامنے جوابدہ ہیں اور اگر اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کریں تو آخرت کے عذاب کے مستحق ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے انسان اور جنات کو حقوق بھی دوسری مخلوقات کے مقابلہ میں کہیں زیادہ عطا کئے ہیں۔ پھر انسانوں میں یہ لحاظ ہے کہ جس کی ذمہ داری اور فرائض دوسروں سے زیادہ ہیں، اس کے حقوق بھی زائد ہیں۔ انسانوں میں سب سے زیادہ ذمہ داری انبیاء (علیہم السلام) پر ہوتی ہے، چناچہ ان کو بہت سے حقوق بھی دوسروں سے زائد عطا کئے گئے ہیں۔
نظام معیشت میں بھی اللہ تعالیٰ نے یہی رعایت رکھی ہے کہ ہر شخص کو اتنے معاشی حقوق دیئے جائیں جتنے فرائض کی ذمہ داری وہ اپنے سر لے، اور ظاہر ہے کہ فرائض میں یکسانیت کا پیدا ہونا بالکل ناممکن اور ان میں تفاوت ناگزیر ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا کہ ہر شخص کے معاشی وظائف و فرائض دوسروں سے بالکل مساوی ہوں اس لئے کہ معاشی وظائف و فرائض انسانوں کی فطری صلاحیتوں پر موقوف ہیں جن میں جسمانی طاقت، صحت، دماغی قویٰ اور عمر، ذہنی معیار، چستی اور پھرتی جیسی خبریں داخل ہیں اور یہ بات ہر شخص کھلی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے کہ ان اوصاف کے اعتبار سے انسانوں میں یکسانیت اور مساوات پیدا کرنا بڑی سے بڑی ترقی یافتہ اشتراکی حکومت کے بس میں بھی نہیں، جب انسانوں کی صلاحیتوں میں تفاوت ناگزیر ہے تو ان کے فرائض میں بھی لازماً تفاوت ہوگا اور معاشی حقوق چونکہ انہی فرائض پر موقوف ہیں اس لئے معاشی حقوق یعنی آمدنی میں بھی تفاوت ناگزیر ہے کیونکہ اگر سب کی آمدنی بالکل مساوی کردی جائے اور فرائض میں تفاوت رہے تو اس سے کبھی عدل و انصاف قائم نہیں ہو سکتا۔ اس لئے کہ اس صورت میں بعض لوگوں کی آمدنی ان کے فرائض سے زیادہ اور بعض کی ان کے فرائض سے کم ہوجائے گی جو صریح ناانصافی ہے۔
اس سے واضح ہوگیا کہ آمدنی میں مکمل مساوات کسی بھی دور میں قرین انصاف نہیں ہو سکتی لہٰذا اشتراکیت اپنی ترقی کے انتہائی دور (مکمل کمیونزم)
(اشتراکیت کا کہنا یہ ہے کہ فی الحال تو آمدنی کی مکمل مساوات ممکن نہیں، لیکن اگر اشتراکیت کے ابتدائی اصولوں پر عمل کیا جاتا ہے تو ایک وقت ایسا آجائے گا جب آمدنی میں مکمل مساوات یا املاک میں مکمل اشتراک پیدا ہوجائے گا اور یہ مکمل کمیونزم کا دور ہوگا)
میں بھی جس مساوات کا دعویٰ کرتی ہے وہ کسی بھی حال میں نہ قابل عمل ہے اور نہ قرین عدل و انصاف۔ البتہ یہ طے کرنا کہ کس کے فرائض زیادہ اور کس کے کم ہیں، اور ان کی مناسبت سے اسے کتنے حقوق ملنے چاہئیں ایک انتہائی نازک اور مشکل کام ہے اور انسان کے پاس کوئی ایسا پیمانہ نہیں ہے جس سے وہ اس بات کا ٹھیک ٹھیک تعین کرسکے۔ بعض اوقات یہ محسوس ہوتا ہے کہ ایک ماہر اور تجربہ کار انجینئر نے ایک گھنٹہ میں اتنی آمدنی حاصل کرلی ہے جو ایک غیر ہنر مند مزدور نے دن بھر منوں مٹی ڈھو کر بھی حاصل نہیں کی، لیکن اگر انصاف سے دیکھا جائے تو قطع نظر اس سے کہ مزدور کی دن بھر کی آزاد محنت ذمہ داری کے اس بوجھ کے برابر نہیں ہو سکتی جو انجینئر نے اٹھا رکھا ہے۔ انجینئر کی یہ آمدنی صرف اس ایک گھنٹے کی محنت کا صلہ نہیں بلکہ اس میں سالہا سال کی اس دماغ سوزی، عرق ریزی اور جانفشانی کے صلے کا ایک حصہ بھی شامل ہے جو اس نے انجینئرنگ کی تعلیم و تربیت اور پھر اس میں تجربہ و مہارت حاصل کرنے میں برداشت کی ہے۔ اشتراکیت نے اپنے ابتدائی دور میں آمدنی کے اس تفاوت کو تسلیم تو کرلیا ہے چناچہ تمام اشتراکی ممالک میں آبادی کے مختلف طبقات کے درمیان تنخواہوں کا زبردست تفاوت پایا جاتا ہے لیکن ٹھوکر یہاں کھائی ہے کہ تمام وسائل پیداوار کو حکومت کی تحویل میں دے کر وسائل کے لئے فرائض کا تعین اور پھر ان کی مناسبت سے ان پر آمدنی کی تقسیم بھی تمام تر حکومت ہی کے حوالہ کردی ہے۔ حالانکہ جیسا اوپر عرض کیا گیا فرائض اور حقوق کے درمیان تناسب باقی رکھنے کے لئے انسان کے پاس کوئی پیمانہ نہیں ہے چناچہ اشتراکیت کے طریق کار کے تحت ملک بھر کے انسانوں کی روزی کا تعین حکومت کے چند کارندوں کے ہاتھ میں آ گیا ہے اور انہیں یہ اختیار مل گیا ہے کہ جس شخص کو جتنا چاہیں دیں، جتنا چاہیں روک لیں۔ اول تو اس میں بد دیانتیوں اور اقربا نوازیوں کو ایک بڑا میدان مل جاتا ہے جس کے سہارے افسر شاہی پھلتی پھولتی ہے، دوسرے اگر حکومت کے تمام کارندوں کو فرشتہ بھی تصور کرلیا جائے اور وہ فی الواقعہ یہی چاہیں کہ ملک میں آمدنی کی تقسیم حق و انصاف کی بنیاد پر ہو تو ان کے پاس آخر وہ کونسا پیمانہ ہے جس سے وہ یہ فیصلہ کرسکیں کہ ایک انجینئر اور ایک مزدور کے فرائض میں کتنا تفاوت ہے، اور اس کی نسبت سے ان کی آمدنیوں میں کتنا تفاوت قرین انصاف ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ اس بات کا ٹھیک ٹھیک فیصلہ انسانی عقل کے ادراک سے قطعی ماورا ہے اس لئے اسے قدرت نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔ آیت زیر بحث (آیت) وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ۔ میں اللہ تعالیٰ نے اسی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ اس تفاوت کا تعین ہم نے انسانوں کے حوالہ کرنے کے بجائے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے اور اپنے ہاتھ میں رکھنے کا مطلب یہاں بھی یہی ہے کہ دنیا میں ہر شخص کی ضروریات دوسرے کے ساتھ وابستہ کر کے نظام ایسا بنادیا ہے کہ ہر شخص اپنی حاجت پوری کرنے کے لئے دوسرے کو اتنا دینے پر مجبور ہے جتنے کا وہ مستحق ہے۔ یہاں بھی باہمی احتیاج پر مبنی طلب و رسد کا نظام ہر شخص کی آمدنی کا تعین کرتا ہے، یعنی ہر شخص اس بات کا فیصلہ خود کرتا ہے کہ جتنے فرائض میں نے اپنے ذمہ لئے ہیں ان کا کتنا معاوضہ میرے لئے کافی ہے اس سے کم ملے تو یہ کام کرنے پر راضی نہ ہو اور یہ زیادہ مانگنے لگے تو کام لینے والا اس سے کام نہ لے۔ (آیت) لِّيَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِيًّا کا یہی مطلب ہے کہ ہم نے آمدنی میں تفاوت اس لئے رکھا ہے تاکہ ایک شخص دوسرے سے کام لے سکے ورنہ سب کی آمدنی برابر ہوتی تو کوئی کسی کے کام نہ آتا۔
ہاں البتہ بعض غیر معمولی حالات میں بڑے بڑے سرمایہ دار طلب و رسد کے اس قدرتی نظام سے ناجائز فائدہ اٹھا کر غریبوں کو اس بات پر مجبور کرسکتے ہیں کہ وہ اپنے حقیقی استحقاق سے کم اجرت پر کام کریں۔ اسلام نے اول تو حلال و حرام اور جائز و ناجائز کے وسیع احکام کے ذریعہ نیز اخلاقی ہدایات اور تصور آخرت کے ذریعہ ایسی صورتحال کو پیدا ہونے سے روکا ہے، اور اگر کبھی کسی مقام پر یہ صورت پیدا ہوجائے تو اسلامی حکومت کو یہ اختیار دے دیا ہے کہ ان غیر معمولی حالات کی حد تک وہ اجرتوں کا تعین کرسکتی ہے لیکن ظاہر ہے کہ یہ صرف غیر معمولی حالات کے لئے ہے اس لئے اس مقصد کے لئے تمام وسائل پیداوار کو حکومت کے حوالہ کردینے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ اس کے نقصانات فوائد سے کہیں زیادہ ہیں۔
اسلامی مساوات کا مطلب
مذکورہ بالا ارشادات سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ آمدنی میں مکمل مساوات نہ عدل و انصاف کا تقاضا ہے۔ نہ عملاً کہیں قائم ہوئی ہے نہ ہو سکتی ہے، اور نہ یہ اسلام کو مطلوب ہے۔ البتہ اسلام نے جس مساوات کو قائم کیا ہے وہ قانون، معاشرت اور ادائے حقوق کی مساوات ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مذکورہ بالا قدرتی طریق کار کے تحت جس شخص کے جتنے حقوق متعین ہوجائیں انہیں حاصل کرنے کے قانونی، تمدنی اور معاشری حق میں سب برابر ہیں اس بات کے کوئی معنی نہیں ہیں کہ ایک امیر یا صاحب جاہ و منصب انسان اپنا حق عزت کے ساتھ با آسانی حاصل کرلے اور غریب کو اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے دربدر کی ٹھوکریں کھانی پڑیں اور ذلیل و حقیر ہونا پڑے۔ قانون امیر کے حقوق کی حفاظت کرے اور غریب کو بےیارو مددگار چھوڑ دے، اسی کو حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اپنے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا تھا
واللہ ما عندی اقویٰ من اضعیف حتی اخذ الحق لہ ولا عندی اضعف من القوی حتیٰ اخذ الحق منہ ”خدا کی قسم میرے نزدیک ایک کمزور آدمی سے زیادہ قوی کوئی نہیں تا وقت کہ میں اس کا حق اسے نہ دلوا دوں اور میرے نزدیک ایک قوی آدمی سے زیادہ کمزور کوئی نہیں جب تک کہ میں اس سے (کمزور) کا حق وصول نہ کرلوں“۔
اس طرح ٹھیٹھ معاشی نقطہ نظر سے اسلامی مساوات کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کی نظر میں ہر شخص کو کمائی کے یکساں مواقع حاصل ہیں اور اسلام اس بات کو گوارہ نہیں کرتا کہ چند بڑے بڑے دولت مند مال و دولت کے دہانوں پر قابض ہو کر اپنی اجارہ داریاں قائم کرلیں اور چھوٹے تاجروں کے لئے بازار میں بیٹھنا دوبھر بنادیں۔ چناچہ سود، سٹہ، قمار، ذخیرہ اندوزی اور اجارہ دارانہ تجارتی معاہدوں کو ممنوع قرار دے کر نیز زکوٰة، عشر، خراج، نفقات، صدقات اور دوسرے واجبات عائد کر کے ایسا ماحول پیدا کردیا گیا ہے جس میں ہر انسان اپنی ذاتی صلاحیت، محنت اور سرمایہ کے تناسب سے کمائی کے مناسب مواقع حاصل کرسکتا ہے اور اس سے ایک خوشحال معاشرے کی تعمیر ہو سکتی ہے۔ اس کے باوجود آمدنی کا جو تفاوت باقی رہے وہ درحقیقت ناگزیر ہے اور جس طرح انسانوں کے درمیان حسن و جمال، قوت و صحت، عقل و ذہانت اور آل و اولاد کے تفاوت کو مٹانا ممکن نہیں، اسی طرح اس تفاوت کو بھی مٹایا نہیں جاسکتا۔
Top