Tafheem-ul-Quran - Az-Zukhruf : 32
اَهُمْ یَقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّكَ١ؕ نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَهُمْ مَّعِیْشَتَهُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ رَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِیًّا١ؕ وَ رَحْمَتُ رَبِّكَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ
اَهُمْ يَقْسِمُوْنَ : کیا وہ تقسیم کرتے پھرتے ہیں رَحْمَتَ رَبِّكَ : رحمت تیرے رب کی نَحْنُ قَسَمْنَا : ہم نے تقسیم کی بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان مَّعِيْشَتَهُمْ : ان کی معیشت فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی میں وَرَفَعْنَا : اور بلند کیا ہم نے بَعْضَهُمْ : ان میں سے بعض کو فَوْقَ بَعْضٍ : بعض پر دَرَجٰتٍ : درجوں میں لِّيَتَّخِذَ : تاکہ بنائیں بَعْضُهُمْ : ان میں سے بعض بَعْضًا سُخْرِيًّا : بعض کو خدمت گار۔ تابع دار وَرَحْمَتُ رَبِّكَ : اور رحمت تیرے رب کی خَيْرٌ : بہتر ہے مِّمَّا : ہراس چیز سے يَجْمَعُوْنَ : جو وہ جمع کررہے ہیں
کیا تیرے ربّ کی رحمت یہ لوگ تقسیم کرتے ہیں؟ دنیا کی زندگی میں اِن کی گزر بسر کے ذرائع تو ہم نے اِن کے درمیان تقسیم کیے ہیں ، اور اِن میں سے کچھ لوگوں کو کچھ دُوسرے لوگوں پر ہم نے درجہا فوقیت دی ہے تاکہ یہ ایک دُوسرے سے خدمت لیں۔31 اور تیرے ربّ کی رحمت اُس دولت سے زیادہ قیمتی ہے جو (اِن کے رئیس)سمیٹ رہے ہیں۔32
سورة الزُّخْرُف 31 یہ ان کے اعتراض کا جواب ہے جس کے اندر چند مختصر الفاظ میں بہت سی اہم باتیں ارشاد ہوئی ہیں پلی بات یہ کہ تیرے رب کی رحمت تقسیم کرنا ان کے سپرد کب سے ہوگیا ؟ کیا یہ طے کرنا ان کا کام ہے کہ اللہ اپنی رحمت سے کس کو نوازے اور کس کو نہ نوازے ؟ (یہاں رب کی رحمت سے مراد اس کی رحمت عام ہے جس میں سے ہر ایک کو کچھ نہ کچھ ملتا رہتا ہے)۔ دوسری بات یہ کہ نبوت تو خیر بہت بڑی چیز ہے، دنیا میں زندگی بسر کرنے کے جو عام ذرائع ہیں، ان کی تقسیم بھی ہم نے اپنے ہی ہاتھ میں رکھی کسی اور کے حوالے نہیں کردی۔ ہم کسی کو حسین اور کسی کو بدصورت، کسی کو خوش آواز اور کسی کو بد آواز، کسی کو قوی ہیکل اور کسی کو کمزور کسی کو ذہین اور کسی کو کند ذہن، کسی کو قوی الحافظہ اور کسی کو نسیان میں مبتلا، کسی کو سلیم الاعضاء اور کسی کو اپاہج یا اندھا یا گونگا بہرا، کسی کو امیر زادہ اور کسی کو فقیر زادہ، کسی کو ترقی یافتہ قوم کا فرد اور کسی کو غلام یا پس ماندہ قوم کا فرد پیدا کرتے ہیں۔ اس پیدائشی قسمت میں کوئی ذرہ برابر بھی دخل نہیں دے سکتا۔ جس کو جو کچھ ہم نے بنادیا ہے وہی کچھ بننے پر وہ مجبور ہے۔ اور ان مختلف پیدائشی حالتوں کا جو اثر بھی کسی کی تقدیر پر پڑتا ہے اسے بدل دینا کسی کے بس میں نہیں ہے۔ پھر انسانوں کے درمیان رزق، طاقت، عزت، شہرت، دولت، حکومت وغیرہ کی تقسیم بھی ہم ہی کر رہے ہیں۔ جس کو ہماری طرف سے اقبال نصیب ہوتا ہے اسے کوئی گرا نہیں سکتا، اور جس پر ہماری طرف سے ادبار آجاتا ہے اسے گرنے سے کوئی بچا نہیں سکتا۔ ہمارے فیصلوں کے مقابلے میں انسانوں کی ساری تدبیریں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ اس عالمگیر خدائی انتظام میں یہ لوگ کہاں فیصلہ کرنے چلے ہیں کہ کائنات کا مالک کسے اپنا نبی بنائے اور کسے نہ بنائے۔ تیسری بات یہ کہ اس خدائی انتظام میں یہ مستقل قاعدہ ملحوظ رکھا گیا ہے کہ سب کچھ ایک ہی کو، یا سب کچھ سب کو نہ دے دیا جائے۔ آنکھیں کھول کر دیکھو۔ ہر طرف تمہیں بندوں کے درمیان ہر پہلو میں تفاوت ہی تفاوت نظر آئے گا۔ کسی کو ہم نے کوئی چیز دی ہے تو دوسرے کسی چیز سے اس کو محروم کردیا ہے، اور وہ کسی اور کو عطا کردی ہے، یہ اس حکمت کی بنا پر کیا گیا ہے کہ کوئی انسان دوسروں سے بےنیاز نہ ہو، بلکہ ہر ایک کسی نہ کسی معاملہ میں دوسرے کا محتاج رہے۔ اب یہ کیسا احمقانہ خیال تمہارے دماغ میں سمایا ہے کہ جسے ہم نے ریاست اور وجاہت دی ہے اسی کو نبوت بھی دے دی جائے ؟ کیا اسی طرح تم یہ بھی کہو گے کہ عقل، علم، دولت، حسن، طاقت، اقتدار، اور دوسرے تمام کمالات ایک ہی میں جمع کردیے جائیں، اور جس کو ایک چیز نہیں ملی ہے اسے دوسری بھی کوئی چیز نہ دی جائے ؟ سورة الزُّخْرُف 32 یہاں رب کی رحمت سے مراد اس کی رحمت خاص، یعنی نبوت ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تم اپنے جن رئیسوں کو ان کی دولت و وجاہت اور مشیخت کی وجہ سے بڑی چیز سمجھ رہے ہو، وہ اس دولت کے قابل نہیں ہیں جو محمد بن عبداللہ ﷺ کو دی گئی ہے۔ یہ دولت اس دولت سے بدرجہا زیادہ اعلیٰ درجے کی ہے اور اس کے لیے موزونیت کا معیار کچھ اور ہے۔ تم نے اگر یہ سمجھ رکھا ہے کہ تمہارا ہر چودھری اور سیٹھ نبی بننے کا اہل ہے تو یہ تمہارے اپنے ہی ذہن کی پستی ہے۔ اللہ سے اس نادانی کی توقع کیوں رکھتے ہو ؟
Top