Ruh-ul-Quran - An-Naml : 125
اَهُمْ یَقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّكَ١ؕ نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَهُمْ مَّعِیْشَتَهُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ رَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِیًّا١ؕ وَ رَحْمَتُ رَبِّكَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ
اَهُمْ يَقْسِمُوْنَ : کیا وہ تقسیم کرتے پھرتے ہیں رَحْمَتَ رَبِّكَ : رحمت تیرے رب کی نَحْنُ قَسَمْنَا : ہم نے تقسیم کی بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان مَّعِيْشَتَهُمْ : ان کی معیشت فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی میں وَرَفَعْنَا : اور بلند کیا ہم نے بَعْضَهُمْ : ان میں سے بعض کو فَوْقَ بَعْضٍ : بعض پر دَرَجٰتٍ : درجوں میں لِّيَتَّخِذَ : تاکہ بنائیں بَعْضُهُمْ : ان میں سے بعض بَعْضًا سُخْرِيًّا : بعض کو خدمت گار۔ تابع دار وَرَحْمَتُ رَبِّكَ : اور رحمت تیرے رب کی خَيْرٌ : بہتر ہے مِّمَّا : ہراس چیز سے يَجْمَعُوْنَ : جو وہ جمع کررہے ہیں
کیا آپ کے رب کی رحمت کو یہ لوگ تقسیم کرتے ہیں دنیا کی زندگی میں، ان کی معیشت کا سامان تو ہم نے تقسیم کیا ہے اور ان میں سے کچھ لوگوں کو کچھ دوسرے لوگوں پر ہم نے فوقیت دے رکھی ہے تاکہ وہ باہم دگر ایک دوسرے سے کام لے سکیں، اور آپ کے رب کی رحمت اس سے بہتر ہے جو یہ جمع کررہے ہیں
اَھُمْ یَقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّکط نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَھُمْ مَّعِیْشَتَہُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَرَفَعْنَا بَعْضَھُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَتَّخِذَ بَعْضُھُمْ بَعْضًا سُخْرِیًّا ط وَرَحْمَتُ رَبِّـکَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ ۔ (الزخرف : 32) (کیا آپ کے رب کی رحمت کو یہ لوگ تقسیم کرتے ہیں دنیا کی زندگی میں، ان کی معیشت کا سامان تو ہم نے تقسیم کیا ہے اور ان میں سے کچھ لوگوں کو کچھ دوسرے لوگوں پر ہم نے فوقیت دے رکھی ہے تاکہ وہ باہم دگر ایک دوسرے سے کام لے سکیں، اور آپ کے رب کی رحمت اس سے بہتر ہے جو یہ جمع کررہے ہیں۔ ) معترضین کو جواب اس آیت کی تفسیر میں صاحب تدبر قرآن نے جو کچھ لکھا ہے وہ حقیقتِ حال کی وضاحت کے لیے کافی ہے، ہم اسے یہاں نقل کررہے ہیں۔ اَھُمْ یَقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّکَ ط نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَھُمْ مَّعِیْشَتَہُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَایہ ان فراعنہ کی رعونت کا جواب ہے کہ ان کی یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تمام نعمتوں کا اجارہ دار وہ اپنے آپ کو سمجھتے ہیں انہی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ جس نعمت سے جس کو چاہیں نوازیں اور جس کو چاہیں محروم رکھیں۔ حالانکہ اس دنیا میں بھی ان کو جو وسائلِ معیشت حاصل ہوئے ہیں، خدا ہی کی تقسیم سے حاصل ہوئے ہیں۔ انھوں نے خود نہیں حاصل کیے ہیں۔ اگر یہ خود حاصل کرنے والے ہوتے تو ان اغنیاء کے درمیان درجات و مراتب کا تفاوت کیوں ہوتا اپنے اختیار میں معاملہ ہوتے ہوئے کوئی خود اس بات پر کیوں راضی ہو تاکہ وہ کسی پہلو سے دوسرے سے فروتر ہو کر رہے۔ اپنی خواہش کیخلاف یہ فرقِ مراتب اس بات کی نہایت واضح دلیل ہے کہ تقسیم کا معاملہ ان کے ہاتھ میں نہیں بلکہ کسی اور ہی کے ہاتھ میں ہے جو اپنی صواب دید اور حکمت کے مطابق جس کو چاہتا ہے زیادہ دیتا ہے جس کو چاہتا ہے کم دیتا ہے۔ لِّیَتَّخِذَ بَعْضُھُمْ بَعْضًا سُخْرِیًّا ط اِتَّخَذَ فُلاَنٌ فَلاَ نًا سُخْرِیًّا کے معنی ہیں فلاں نے فلاں کو اپنے کام یا اپنی خدمت میں لگایا۔ تفاوت و درجات کی حکمتیں یہ حکمت بیان فرمائی ہے اس بات کی کہ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے ذہنی اور مادی دونوں ہی اعتبار سے درجات و مراتب کا تفاوت کیوں رکھا ہے ؟ فرمایا کہ ایسا اس نے اس وجہ سے کیا ہے کہ لوگ باہم دگر تعاون کی زندگی بسر کریں اور ایک دوسرے کو اپنے کام میں لگا سکیں۔ یہ امر یہاں واضح رہے کہ یہ دنیا اللہ تعالیٰ نے آزمائش کے لیے بنائی ہے اس وجہ سے اس کا نظام اس نے اس طرح کا رکھا ہے کہ اس میں ہر شخص دوسرے کا محتاج بھی ہے اور محتاج الیہ بھی۔ بڑے سے بڑا بادشاہ بھی دوسروں کا محتاج ہے اور چھوٹے سے چھوٹا آدمی بھی اس میں محتاج الیہ ہے۔ یہاں کوئی شخص بھی دوسروں سے مستغنی نہیں اور کوئی شخص بھی ایسا نہیں کہ معاملات میں کسی نہ کسی پہلو سے اس کی افادیت نہ ہو۔ غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ خالق کائنات نے ہر شخص کو ایک ہی درجے کی صلاحیت، ایک ہی طرح کے ذوق، ایک ہی مرتبہ کی ذہانت اور ایک ہی حیثیت کے وسائل و ذرائع کے ساتھ نہیں پیدا کیا بلکہ ان اعتبارات سے لوگوں کے درمیان بڑا تفاوت رکھا ہے۔ یہ تفاوت معاشرہ کی تشکیل اس طرح کرتا ہے کہ اس میں ایک طرف متجرعالم، نامور مصنف، یکتائے روزگار محقق، شہرہ آفاق مدبر اور طاقتور حکمران بھی پیدا ہوتے ہیں، دوسری طرف کھیتوں اور کارخانوں میں کام کرنے والے مزدور، گٹھڑیاں ڈھونے والے قلی، حاضر خدمت رہنے والے خادم، گلیاں اور نالیاں صاف کرنے والے مہتر بھی اس میں پیدا ہوتے ہیں۔ یہ سارے طبقات معاشرہ کی تشکیل کے لیے ضروری بلکہ ناگزیر ہیں۔ ان سب کی خدمت کی نوعیت الگ الگ ہے مگر ان میں سے کوئی عنصر بھی نہ حقیر ہے اور نہ ان میں سے کسی کو نظرانداز کیا جاسکتا ہے بلکہ معاشرہ کی مشین جاری رکھنے کے لیے اس مشین کے چھوٹے سے چھوٹے پرزے کی دیکھ بھال بھی، اس کی افادیت کی نسبت سے ضروری ہے۔ دنیا کو درجات و مراتب کے اس فرق کے ساتھ پیدا کرکے اللہ تعالیٰ امتحان کررہا ہے کہ جو لوگ اعلیٰ صلاحیتوں اور بہتر وسائل کے امین بنائے گئے ہیں وہ اپنے وسائل اور اپنی صلاحیتیں کس طرح استعمال کررہے ہیں ؟ ان کو پا کر وہ غرور، خودسری، تغلب اور خالق کائنات کی نافرمانی میں مبتلا ہوگئے ہیں یا اس کے شکرگزار و فرمانبردار اور اس کی خلق کے غمگسار ہیں ؟ اسی طرح وہ ان لوگوں کو بھی دیکھ رہا ہے جو فروتر اور کمتر وسائل کے ساتھ پیدا ہوئے ہیں کہ وہ اپنے اپنے دائرہ کار میں اپنے فرائض کو پہچاننے والے اور اپنے خالق سے ڈرنے والے، اپنی خودی اور خوداری کی حفاظت کرنے والے ہیں یا اپنے فرائض چھوڑ کر اس خبط میں مبتلا ہوگئے ہیں کہ انھیں ان لوگوں کو نیچا دکھانا چاہیے جو ان کے حاکم اور افسر بنے ہوئے ہیں۔ اگر ان میں سے پہلی صورت وجود میں آتی ہے تو اعلیٰ اور ادنیٰ کے صالح تعاون سے صالح معاشرہ اور صالح تمدن وجود میں آتا ہے اور اس کے تمام اجزاء بلا امتیاز اعلیٰ و ادنیٰ اس دنیا میں بھی عزت پاتے ہیں اور آخرت میں بھی ہر ایک اپنی اپنی خدمات اور اپنے حسن نیت کے مطابق صلہ پائے گا۔ اگر دوسری شکل ہوتی ہے تو معاشرہ کا نظام بالتدریج مائل بہ فساد ہونا شروع ہوتا ہے اور بالآخر فنا ہوجاتا ہے اور آخرت میں بھی اس کے تمام بڑے اور چھوٹے عناصر اپنی اپنی شرارت یاغفلت کے مطابق خدا کے عذاب کے مستحق ٹھہریں گے۔ اس زمانہ میں جو لوگ اس خبط میں مبتلا ہیں کہ وہ دنیا سے طبقات کے وجود کو مٹا کے رہیں گے وہ اس ارادے میں اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتے جب تک وہ لوگوں کو ذہنی، مزاجی، طبعی اور عملی صلاحیتوں کے اعتبار سے مساوی درجہ کا بنانے میں کامیاب نہ ہوجائیں اور یہ چیز محال ہے۔ جن قوموں نے اس خبط میں مبتلا ہو کر خون کے دریا بہا دیئے ان کا حال بھی یہ ہے کہ وہاں بڑے سے بڑے فراعنہ بھی موجود ہیں اور ان فراعنہ کے بوٹوں پر پالش کرنے والے اور گلیوں میں جھاڑو دینے والے بھی موجود ہیں۔ اور اگر وہ اس محال کو ممکن بنانے میں کامیاب ہوگئے یعنی انھوں نے پوری قوم کو صلاحیتوں اور ذہنی ومادی قوتوں کے اعتبار سے ایک درجہ پر کردیا تو اسی دن باہمی تعاون کی بنیاد ختم ہوجائے گی اور قوم میں انارکی پھیل جائے گی۔ جب ہر شخص لینن اور سٹالن بننے کی صلاحیت اپنے اندر پیدا کرلے گا تو آخر وہ لینن یا مائو کی کار چلانے والا ڈرائیور یا ان کے جوتوں پر پالش کرنے والا خدمت گار بننے پر کیوں قانع ہوگا ؟ پھر تو ہر شخص خدا و مذہی بننے کی کوشش کرے گا اور اتنے خدائوں کی کشمکش میں اس دنیا کا جو حشر ہوگا اس کا اندازہ کون کرسکتا ہے ! !
Top