Maarif-ul-Quran - Al-Fath : 8
اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ
اِنَّآ : بیشک اَرْسَلْنٰكَ : ہم نے آپ کو بھیجا شَاهِدًا : گواہی دینے والا وَّمُبَشِّرًا : اور خوشخبری دینے والا وَّنَذِيْرًا : اور ڈرانے والا
ہم نے تجھ کو بھیجا احوال بتانے والا اور خوشی اور ڈرسنانے والا
خلاصہ تفسیر
(اے محمد ﷺ ہم نے آپ کو (اعمال امت پر قیامت کے دن) گواہی دینے والا (عموماً) اور (دنیا میں خصوصاً مسلمانوں کے لئے) بشارت دینے والا اور (کافروں کے لئے) ڈرانے والا کر کے بھیجا ہے (اور اے مسلمانو ! ہم نے ان کو اس لئے رسول بنا کر بھیجا ہے) تاکہ تم لوگ اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس (کے دین) کی مدد کرو اور اس کی تعظیم کرو (عقیدة بھی کہ اللہ تعالیٰ کو تمام کمالات کے ساتھ موصوف اور تمام نقائص اور عیوب سے پاک سمجھو اور عملاً بھی کہ اس کی اطاعت کرو) اور صبح و شام اس کی تسبیح (و تقدیس) میں لگے رہو (اگر اس تسبیح کی تفسیر نماز سے کے جائے تو صبح شام کی فرض نمازیں مراد ہوں گی ورنہ مطلق ذکر اگرچہ مستحب ہی ہوا مراد ہوگا آگے بعض حقوق خاصہ کے متعلق ارشاد ہے کہ) جو لوگ آپ سے (حدیبیہ کے روز اس بات پر) بیعت کر رہے ہیں (یعنی بیعت کرچکے ہیں کہ جہاد سے بھاگیں گے نہیں) تو وہ (واقع میں) اللہ تعالیٰ سے بیعت کر رہے ہیں (کیونکہ مقصود آپ سے اس پر بیعت کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام بجا لاویں گے اور جب یہ بات ہے تو گویا) خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے پھر (بیعت کے بعد) جو شخص عہد توڑے گا (یعنی بجائے اطاعت کے مخالفت کرے گا) تو اس کے عہد توڑنے کا وبال اسی پر پڑے گا اور جو شخص اس بات کو پورا کرے گا جس پر (بیعت میں) خدا سے عہد کیا ہے تو عنقریب خدا اس کو بڑا اجر دے گا۔
معارف و مسائل
سابقہ آیات میں اللہ تعالیٰ کے ان انعامات کا ذکر تھا جو نبی کریم ﷺ اور آپ کی امت پر خصوصاً بیعت رضوان کے شرکاء پر مبذول ہوئے اور چونکہ ان انعامات کا عطا کرنے والا اللہ اور واسطہ عطا نبی کریم ﷺ ہیں اس کی مناسبت سے آیات مذکورہ میں ان کے حقوق اور تعظیم و تکریم کا ذکر ہے اول رسول اللہ ﷺ کو خطاب کر کے آپ کی تین صفات بیان فرمائیں۔ شاہد، بشیر، نذیر، شاہد کے معنی گواہ کے ہیں مراد اس کی وہی ہے جو سورة نسا کی (آیت) فکیف اذا جئنا من کل امة بشھید وجئنابک علیٰ ھولا شھیدا۔ کی تفسیر میں معارف القرآن جلد دوم صفحہ 419 میں گزر چکی ہے کہ ہر نبی اپنی امت کی بابت اس بات کی گواہی دے گا کہ اس نے اللہ کا پیغام امت کو پہنچا دیا پھر کسی نے اطاعت کی کسی نے نافرمانی۔ اسی طرح نبی کریم ﷺ اپنی امت کے متعلق گواہی دیں گے۔ سورة نساء کی آیت کی تفسیر میں قرطبی نے لکھا ہے کہ انبیاء کی یہ گواہی اپنے زمانے کے موجودہ لوگوں کے متعلق ہوگی کہ ان کی دعوت حق کو کس نے قبول کیا اور کس نے نافرمانی کی، اسی طرح رسول کریم ﷺ کی یہ گواہی اپنے زمانے کے لوگوں کے متعلق ہوگی اور بعض حضرات نے فرمایا کہ یہ گواہی تمام امت کے اعمال اطاعات و سیئات پر ہوگی کیونکہ بعض روایات کے مطابق امت کے اعمال صبح شام رسول اللہ کے سامنے فرشتے پیش کرتے ہیں اس لئے آپ تمام امت کے اعمال سے باخبر ہوں گے (ذکرہ القرطبی عن سعید بن المسیب) اور بشیر کے معنی بشارت دینے والا، نذیر کے معنی ڈرانے والا، مراد یہ ہے کہ آپ امت کے مومنین اور اطاعت کرنے والوں کو جنت کی بشارت دینے والے ہیں اور کفار فجار کو عذاب سے ڈرانے والے ہیں آگے رسول کو بھیجنے کا مقصد یہ بتلایا گیا کہ تم لوگ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور ایمان کے ساتھ مزید تین اوصاف کا ذکر فرمایا ہے جو مومنین میں ہونے چاہئیں تعزروہ۔ تو قروہ اور تسبحوہ، تعزروہ، تعزیر سے مشتق ہے جس کے معنی مدد کرنے کے ہیں اور سزا کو جو تعزیر کہا جاتا ہے وہ بھی اس لئے کہ مجرم کی مدد حقیقی اس میں ہے کہ اس پر سزا جاری کی جائے (مفردات القرآن راغب) اور تو قروہ، توقیر سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں تعظیم، اور تسبحوہ، تسبیح سے مشتق ہے جس کے معنی پاکی بیان کرنے کے ہیں ان میں آخری لفظ تو متعین ہے کہ اللہ ہی کے لئے ہوسکتا ہے اس لئے تسجوہ کی ضمیر میں بجز اس کے کوئی احتمام نہیں کہ حق تعالیٰ کی طرف راجع ہو اسی لئے اکثر حضرات نے پہلے دونوں جملوں کی ضمیریں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف راجع کر کے معنی یہ قرار دیئے ہیں کہ ایمان لاؤ اور اللہ کی یعنی اس کے دین اور رسول کی مدد کرو اور اس کی تعظیم کرو اور اس تسبیح کرو اور بعض حضرات نے پہلے دو جملوں کی ضمیر رسول کی طرف راجع کر کے مطلب یہ قرار دیا کہ رسول کی مدد کرو اور تعظیم کرو اور اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرو مگر بعض مفسرین نے فرمایا کہ اس میں انتشار ضمائر لازم آتا ہے جو بلاغت کے خلاف ہے واللہ اعلم۔ اس کے بعد اس بیعت کا ذکر ہے جس کا واقعہ قصہ حدیبیہ کے جزو دہم میں گزر چکا ہے۔ اس بیعت کے متعلق حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ جن لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ پر یہ بیعت کی چونکہ مقصود اس سے اللہ کے حکم کی تعمیل اور رضا جوئی ہے اس لئے گویا خود اللہ تعالیٰ سے بیعت کی اور جب انہوں نے رسول کے ہاتھ میں ہاتھ دیا تو گویا اللہ کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔ اللہ کا ہاتھ متشابہات میں سے ہے جس کی کیفیت اور حقیقت نہ کسی کو معلوم ہے نہ معلوم کرنے کی فکر میں رہنا درست ہے، اس بیعت کی فضیلت آگے بھی آ رہی ہے۔
لفظ بیعت دراصل کسی خاص کام پر عہد لینے کا نام ہے اس کا قدیم اور مسنون طریقہ باہم عہد کرنے والوں کا ہاتھ پر ہاتھ رکھنا ہے اگرچہ ہاتھ پر ہاتھ رکھنا شرط اور ضروری نہیں۔ بہرحال جس کام کا کسی سے عہد کیا جائے اس کی پابندی شرعاً واجب و ضروری ہے اور خلاف ورزی حرام ہے اسی لئے آگے فرمایا کہ جو شخص اس عہد بیعت کو توڑے گا تو کچھ اپنا ہی نقصان کرے گا اللہ اور اس کے رسول کو اس سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا اور جو اس عہد کو پورا کرے گا تو اس کو اللہ تعالیٰ بڑا اجر دینے والے ہیں۔
Top