Tadabbur-e-Quran - Al-Fath : 8
اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ
اِنَّآ : بیشک اَرْسَلْنٰكَ : ہم نے آپ کو بھیجا شَاهِدًا : گواہی دینے والا وَّمُبَشِّرًا : اور خوشخبری دینے والا وَّنَذِيْرًا : اور ڈرانے والا
بیشک ہم نے تم کو گواہی دینے والا، خوشخبری پہنچانے والا اور آگاہ کردینے والا بنا کر بھیجا ہے
5۔ آگے آیات 21-8 کا مضمون آگے کی آیات میں پہلے نبی ﷺ کا مرتبہ و مقام واضح فرمایا ہے پھر اس مرتبہ و مقام کے تقاضے سے اہل ایمان پر آپ کے جو حقوق قائم ہوئے اور آپ کے ہاتھ پر بیعت سے جو ذمہ داریاں ان پر عائد ہوئیں ان کی تصریح فرمائی ہے۔ پھر ان منافقین کے رویہ پر تفصیل سے تبصرہ کیا ہے جو اس موقع پر جھوٹے بہانے پیدا کر کے اپنے گھروں میں بیٹھ رہے۔ عمرہ کے لئے اس ڈر سے نہیں نکلے کہ مسلمانوں کو اس سفر سے پلٹنا نصیب نہیں ہوگا۔ پھر ان جاں باز مسلمانوں کا ذکر فرمایا ہے جنہوں نے نہایت بےسرو سامانی کے حال میں رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ پر بیعت جہاد کی اور اپنے اخاصو صدق نیت کے صلہ میں اللہ تعالیٰ کی ابدی خوشنودی کے حق دار اور دنیا میں اس کی تائید و نصرت کے سزا وار قرار پائے … آیات کی تلاوت فرمایئے۔ -6 الفاظ کی تحقیق اور آیات کی وضاحت انا ارسلنک شاھداً ومبشراً فنذیراً لتومنوا باللہ و رسولہ و تعزروہ وتوقرہ وتسبحوہ بکرۃ و اصیلاً (9-8) نبی صلعم کے مرتبہ و مقام کا بیان نبی ﷺ کو خطاب کر کے فرمایا کہ ہم نے تم کو لوگوں کی طرف اپنے دین کی گواہی دینے والا اور مبشر و نذیر بنا کر بھیجا ہے۔ گواہی دینے والا یعنی اپنے دین کی گواہی دینے والا کہ ہم اپنے بندوں کو کس چیز کا حکم دیتے اور کس بات سے روکتے ہیں۔ ساتھ ہی اس لئے بھی بھیجا ہے کہ ان لوگوں کو جنت کی بشارت دو جو تمہاری گواہی قبول کر کے اپنی زندگیاں سنوار لیں اور ان لوگوں کو دوزخ کے عذاب سے ڈرائو جو تمہاری گواہی کو رد کردیں یا اس کو وہ اہمیت نہ دیں جس کی یہ سزا وار ہے۔ یہ بات اگرچہ ایک عام کلیہ کی حیثیت سے ارشاد ہوئی ہے لیکن کلام کے تدریجی ارتقاء سے یہ حقیقت آپ سے آپ واضح ہوجائے گی کہ روئے سخن منافقین کی طرف ہے۔ جنہوں نے نبی ﷺ کی رسالت کا زبان سے اقرار تو کرلیا تھا لیکن اس اقرار کے تضمنات سے وہ گریز اختیار کرنے کی راہیں ڈھونڈھتے رہتے تھے۔ شاہد کا مفہوم شاھد کے معنی ہیں گواہی دینے والا، یعنی لوگوں کے سامنے اللہ کے دین کی گواہی دینے والا عام طور پر لوگوں نے اس سے وہ گواہی مراد لی ہے جو آپ آخرت میں دیں گے لیکن ہمارے نزدیک یہ بات صحیح نہیں ہے۔ آخرت میں حضرات انبیاء (علیہم السلام) جو گواہی دیں گے وہ اسی بناء پر تو دیں گے کہ انہوں نے اس دنیا میں لوگوں پر اللہ کے دین کی گواہی دی ہے۔ اس گواہی پر الاحزاب کی آیات 47-45 کے تحت ہم بحث کر آئے ہیں۔ تفصیل مطلوب ہو تو اس پر ایک نظر ڈال لیجیے۔ حضرات انبیاء جو گواہی آخرت میں دیں گے المآئدۃ کی تفسیر میں اسپر مفصل بحث ہوچکی ہے۔ رسول اللہ صلعم کی بعثت کا مقصد اور امت پر آپ کا حق لتومنوا باللہ ورسولہ و تعزروہ وتوقرہ ط وتسبحوہ بکرۃ و اصیلاً ، یہ مسلمانوں کو خطاب کر کے فرمایا کہ ہم نے اپنے رسول کو شاہد اور مبشر اور نذیر بنا کر اس مقصد سے بھیجا ہے کہ تم لوگ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائو، رسول کی مدد اور اس کی توقیر کرو اور اللہ کی صبح و شام تسبیح کرو۔ ایمان سے مراد ظاہر ہے کہ سچا اور پکا ایمان ہے اللہ پر بھی اور اس کے رسول پر بھی۔ اس کے بعد سعودی ترتیب سے یعنی نیچے سے اوپر کو چڑھتے ہوئے اس ایمان کے وہ تقاضے بیان ہوئے جو بالکل بدیہی ہیں۔ رسول پر ایمان کا یہ تقاضا بیان فرمایا کہ اللہ کے دین کی اقامت کے لئے جدوجہد وہ کر رہے ہیں اس میں ان کے دست و باز و بنوا اور ان کی توقیر و تعظیم اللہ کے رسول کی حیثیت سے کرو۔ پھر اللہ پر ایمان کا تقاضا یہ بیان فرمایا کہ صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہو۔ مفسرین کی ایک غلط فہمی کا ازالہ عام طور پر لوگوں نے تعزروہ و توقروہ کا تعلق بھی اللہ تعالیٰ ہی سے مانا ہے۔ ان کے خیال میں اگر ضمیر مفعول کا مرجع رسول مانا جائے تو اس سے بعد پیدا ہوجاتا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ خیال غلط فہمی پر مبنی ہے۔ یہاں تر تیب، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، سعودی ہے، اس وجہ سے بعد نہیں پیدا ہوتا۔ اللہ و رسول پر ایمان کے مطالبہ کے بعد پہلے رسول کا حق اس نے بیان فرمایا کہ رسول کا ذکر ترتیب میں مئوخر تھا اس وجہ سے اس کے ذکر سے متصل ہی اس کا حق بیان فرما دیا پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ کا حق بیان فرمایا۔ یہ ترتیب بیان قرآن میں جگہ جگہ اختیار فرمائی گئی ہے۔ اس کی مثالیں پیچھے گزر چکی ہیں۔ اگر تعزروہ وتوقرہ کا تعلق رسول اللہ ﷺ سے نہ مانا جائے تو اس سے کلام میں بعض خرابیاں پیدا ہوجائیں گی جن سے کلام کو پاک ہونا چاہئے۔ مثلاً ایک یہ کہ یہ آیت نبی ﷺ کے حقوق کے بیان کے سیاق وسباق میں ہے اس میں غایت بیان ہوئی ہے اس بات کی کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو کس مقصد سے شاہد اور مبشر و نذیر بنا کر بھیجا لیکن یہ تاویل اختیار کرلی جائے تو آیت آپ کے حقوق کے ذکر سے خالی رہ جاتی اور سیاق و سبقا سے کٹ جاتی ہے۔ دوسری یہ کہ یہاں روئے سخن اصلاً منافقین کی طرف ہے جن کی اصلی کمزوری یہ تھی کہ وہ، ایمان کے مدعی ہونے کے باوجود نبی ﷺ کی اطاعت، جہاد میں آپ کی نصرت اور آپ کی صحیح تعظیم و توقیر (جس کی وضاحت اگلی سورة میں آئے گی) سے عاری تھے۔ یہ صورتحال مقتضی تھی کسان کو رسول پر ایمان کے یہ بدیہی تقاضے بتائے جائیں۔ اگر تعزروہ و توقروہ کا تعلق رسول اللہ ﷺ سے نہ مانا جائے تو آیت اپنے موقع و محل سے بےتعلق ہوجائے گی۔ تیسری یہ کہ تعزیر اور توقیر کے الفاظ اللہ تعالیٰ کے لئے موزوں نہیں ہیں، یہ اپنے مواقع استعمال کے لحاظ سے رسول ہی کے لئے موزوں ہیں۔ توقروہ کا لفظ تو اللہ تعالیٰ کے لئے بالکل ہی ناموزوں ہے۔ تعزروہ بھی کہیں قرآن میں اللہ تعالیٰ کے لئے نہیں استعمال ہوا ہے جہاں بھی استعمال ہوا ہے رسولوں ہی کے لئے ہوا ہے۔ ملاحظہ ہوا المآئدۃ :12 اور الاعراف 157 الفاظ کی موزونیت پر ہم نے سورة محمد کی آیت 25 کے تحت جو کچھ لکھا ہے اس پر ایک نظر ڈال لیجیے۔ قرآن میں بہت سی آیتیں ایسی ہیں جن میں مختلف افعال استعمال ہئے ہیں اور صرف فعل سے یہ متعین ہوتا ہے کہ ان میں سے کسی فعل کا فاعل یا مفعول کون ہے۔ اس چیز کا تعلق زبان کے ذوق سے ہے۔ اگر اس کا پورا لحاظ نہ رکھا جائے تو اس سے آیات کی تاویل میں بڑی غلط فہمیاں پیدا ہونے کا احتمال ہے۔
Top