Maarif-ul-Quran - Al-Fath : 8
اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ
اِنَّآ : بیشک اَرْسَلْنٰكَ : ہم نے آپ کو بھیجا شَاهِدًا : گواہی دینے والا وَّمُبَشِّرًا : اور خوشخبری دینے والا وَّنَذِيْرًا : اور ڈرانے والا
اور ہم نے (اے محمد) ﷺ تم کو حق ظاہر کرنے والا اور خوشخبری سنانے والا اور خوف دلانے والا (بنا کر) بھیجا ہے
انعام بعثت رسول اکرم ﷺ وحق تعظیم و توقیر وعہد اطاعت وفرمانبرداری : قال اللہ تعالیٰ : (آیت ) ” انا ارسلنک شاھدا ومبشرا ونذیرا ...... الی ...... فسیؤتیہ اجرا عظیما “۔ (ربط) گذشتہ آیات میں فتح مبین کی بشارت کے ساتھ ان چار انعامات کا زکر فرمایا گیا تھا جو رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس کے ساتھ مخصوص تھے اب ان آیات میں اس انعام عظیم کا ذکر فرمایا گیا جو تمام امت پر بلکہ تمام انسانوں اور کل کائنات پر آنحضرت ﷺ کی بعثت و رسالت کے ذریعہ فرمادیا گیا اور یہ کہ آپ ﷺ پر ایمان اور بیعت کس قدر بلند پایہ فضیلت ہے کہ جو لوگ آپ ﷺ سے بیعت کرتے ہیں وہ درحقیقت اللہ سے بیعت کررہے ہیں اور جس وقت وہ بیعت کرتے ہوئے اپنا ہاتھ رسول خدا کے ہاتھ پر رکھتے ہیں تو اللہ کا ہاتھ اس کی شان بےچگون کے مطابق ایمان لانے مسلمانوں کے ہاتھ پر ہوتا ہے۔ ارشاد فرمایا بیشک ہم نے آپ کو بھیجا ہے اے ہمارے پیغمبر گواہی دینے والا تمام انبیاء (علیہم السلام) کے حق رسالت ادا کرنے اور انکی قوموں کی نافرمانی کرنے پر اور بشارت سنانے والا اہل ایمان وطاعت کے لئے اور ڈرانے والا نافرمانوں کو تاکہ اے لوگو ! تم ایمان لے آؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اسکے رسول کی مدد کرو اور اس کی تعظیم و توقیر کرو۔ 1 حاشیہ (حضرت عبداللہ بن عباس ؓ اور دیگر اکثر حضرات صحابہ ؓ مروی ہے کہ (آیت ) ” وتعزروہ۔ وتوقروہ “۔ کی ضمیریں رسول ﷺ کی طرف راجع ہیں اور (آیت ) ” وتسبحوہ “۔ کی ضمیر اللہ کی طرف راجع ہے کیونکہ مدد اور تعظیم حقوق رسالت سے ہے اور ظاہر ہے کہ اعانت ومدد پیغمبر ہی کی ہوسکتی ہے اس کے احکام ودین کی اشاعت اور مقاصد دین کی تکمیل کے لیے اس بناء پر یہ ممکن نہیں کہ (آیت ) ” وتعزروہ “۔ کی ضمیر کا مرجع اللہ ہو اور تسبیح و پاکی ذات کبریاء کے لئے ہے اس وجہ سے (آیت ) ” تسبحوہ “۔ کی ضمیر اللہ کی طرف راجع ہے یہی وجہ ہے کہ جمہور کے نزدیک (آیت ) ” وتوقروہ “۔ پر وقف لازم ہے اور آگے لفظ (آیت ) ” وتسبحوہ “۔ جملہ مستانفہ کے طور پر کلام مستقل ہے۔ ) اور پاکی بیان کرو اس اللہ کی جس نے ایسا رسول عظیم مبعوث فرمایا صبح اور شام نمازوں میں اور دیگر اوقات میں یقیناً جو لوگ بیعت کرتے ہیں آپ سے وہ اللہ ہی سے بیعت کررہے ہیں اللہ کا ہاتھ انکے ہاتھوں کے اوپر ہے سو جو شخص بھی اس عہد و پیمان کو توڑے گا تو بس اس کا توڑنا خود اسی پر وبال ومصیبت ہوگا اور جو شخص پورا کرے گا وہ عہد جو اس نے اپنے اللہ کے ساتھ کیا ہے تو ضرور عنقریب اللہ اسکو اجر عظیم دے گا اس لئے لیے کہ عہد پیمان کو پورا کرنا بہترین خصلت اور موجب انعام ہے اور اسکے برعکس عہد توڑنا غداری ہے اور مجرمانہ کردار کا عملی ثبوت ہے جسکی سزا سے انسان ہرگز نہیں بچ سکتا عہد شکنی اور غداری کی سزا دنیا میں بھی ملے گی اور آخرت میں بھی اور اہل استقامت جس طرح آخرت میں انعام واکرام کے مستحق ہونگے دنیا میں بھی حق تعالیٰ کے انعامات سے نوازے جائیں گے۔ رسول اللہ ﷺ کی شہادت : آنحضرت ﷺ کا تمام امتوں اور انبیاء (علیہم السلام) کے حق میں گواہ ہونا سورة نساء کی آیت ”۔ فیکف اذا جئنا من کل امۃ بشھید “۔ کی تفسیر میں وضاحت سے بیان کیا جاچکا ہے جیسا کہ احادیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے میدان حشر کا ذکر فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ہر پیغمبر اور اس پیغمبر کے ساتھ اسکی امت ہوگی امت سے جب یہ سوال ہوگا کیا، ہمارا پیغام تم تک پہنچا تو وہ انکار کریں گے انبیاء (علیہم السلام) حق تعالیٰ شانہ کے پیغام پہنچا دینے کا اقرار کریں گے تو انکو گواہ پیش کرنے کے لئے کہا جائے گا اس پر حضور اکرم ﷺ گواہی دیں گے کہ اے اللہ آپ کے پیغمبر آپ کا پیغام اور ہر حکم اپنی اپنی امتوں کو پہنچا چکے۔ تفصیل کے لئے سورة نساء کی تفسیر کی مراجعت فرمائی جائے ، رسول اللہ خدا ﷺ سے بیعت اللہ سے بیعت ہے : بیعت کی صورت یہ ہوتی تھی کہ لوگ حضور ﷺ کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر بیعت کرتے تھے اس کو فرمایا جارہا ہے صورۃ تو یہ رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ میں ڈال کر بیعت کرنا ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ یہ بیعت اللہ کے ساتھ ہے اس لئے کہ نبی کریم ﷺ تو یہ بیعت خدا ہی کی طرف سے اور اسی کی نیابت میں لے رہے ہیں اللہ کا پیغمبر ﷺ تو اللہ کے احکام ہی کی اطاعت کے لیے بیعت لے رہا ہے لہذا یہ بیعت حقیقت میں اللہ ہی سے ہے یہ وہی حقیقت ہے جس کو قرآن کریم کی اس آیت میں ارشاد فرمایا گیا ، (آیت ) ” ومن یطع الرسول فقد اطاع اللہ “۔ (نسآء) اسی طرح سورة انفال میں ارشاد فرمایا گیا۔ (آیت ) ” وما رمیت اذ رمیت ولکن اللہ رمی “۔ (انفال ) یہ بیعت حدیبیہ میں اہل ایمان اور حضرات صحابہ ؓ سے تھی جو پہلے سے اصل اسلام پر بیعت کرچکے تھے لیکن آنحضرت ﷺ ایمان واسلام پر بیعت کے علاوہ جہاد پر اور کبھی کسی اور امر خیر پر بھی بیعت لیتے تھے جیسے صحیح مسلم میں حضرت جریر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے۔ بایعت رسول اللہ ﷺ علی النصح لکل مسلم ، (میں نے رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی اس بات پر کہ ہر مسلمان کے ساتھ اخلاص وہمدردی کروں گا ) حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے فرماتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان حضرات صحابہ سے جو حدیبیہ میں ہمراہ تھے موت پر بیعت نہیں لی (کیونکہ مرنا تو مقصود نہیں) بلکہ اس بات پر بیعت لی تھی کہ ہم میدان جہاد سے بھاگیں گے نہیں۔ امام احمد بن حنبل (رح) نے (آیت ) ” فسیؤتیہ اجرا عظیما “۔ کی تفسیر میں حضرت جابر ؓ سے یہ حدیث روایت کی ہے۔ عن جابر ؓ رسول اللہ ﷺ انہ قال لایدخل النار احد ممن بایع تحت الشجرۃ۔ (ابن کثیر ) کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا یقیناً کوئی بھی جہنم میں نہیں جائے گا ان لوگوں میں سے جنہوں نے درخت کے نیچے بیعت کی (یعنی بیعت الرضوان میں شامل ہونے والا کوئی بھی شخص جہنم میں نہیں جائیگا ) حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ حدیبیہ کے ہمسفر لوگوں میں سے نہ کسی نے بیعت کو توڑا اور نہ کوئی بیعت سے پیچھے رہا بجز ایک شخص جدبن قیس منافق کے یہ شخص منافق تھا جیسے کہ صحیح مسلم کی روایت میں وضاحت ہے جب بیعت لی جارہی تھی اور حضرت عمر فاروق ؓ نبی کریم ﷺ کا دست مبارک تھامے ہوئے تھے یہ شخص جد بن قیس اپنے بیٹھے ہوئے اونٹ کے پیٹ کے نیچے چھپ کر بیٹھا رہا بیعت الرضوان کی تفصیل انشاء اللہ العزیز آیت ”۔ لقد ؓ عن ال مومنین “۔ کے تحت آئے گی، بتوفیق اللہ تعالیٰ وعونہ۔
Top