Mualim-ul-Irfan - Al-Fath : 8
اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ
اِنَّآ : بیشک اَرْسَلْنٰكَ : ہم نے آپ کو بھیجا شَاهِدًا : گواہی دینے والا وَّمُبَشِّرًا : اور خوشخبری دینے والا وَّنَذِيْرًا : اور ڈرانے والا
بیشک ہم نے بھیجا ہے آپ کو شاہد بنا کر اور خوش خبری دینے والا اور ڈر سنانے والا
ربط آیات معاہدہ حدیبیہ میں کمزور شرائط کو مان کر صلح کی گئی تھی اس لیے ایمان والوں کے دلوں میں خلجان تھا جس کو اللہ تعالیٰ نے رفع کیا اور ان پر خاص اطمینان نازل فرمایا ۔ ان کے ایمان میں اضافہ فرمایا ، اور بلند انعامات کی بشارت بھی دی ۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی معافی کا اعلان بھی فرمایا اور حاصل ہونے والے انعامات کو فوز عظیم قرار دیا ۔ اس کے بر خلامناق اور مشرک مردوں اور عورتوں کے متعلق فرمایا کہ وہ بدگمانی کرتے ہیں ۔ ان پر بری گردش پڑے گی ۔ خدا تعالیٰ کا غضب اور لعنت ہوگی اور ان کے لیے جہنم بھی تیار ہے۔ پھر فرمایا فتح و نصرت اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے۔ تمام آسمانی اور زمینی لشکر اللہ تعالیٰ کے ہیں ۔ وہ آسمانی لشکر اتار کر ایمان والوں کی تائید فرماتا ہے۔ اللہ کے نبی نے زمین پر صحابہ ؓ کی جماعت تیار کی ہے جو فرشتوں کی طرح تعمیل حکم کرتے ہیں ، پوری تنظیم کے ساتھ کام کرتے ہیں اور اللہ نے ان کو بعد میں آنے والوں کے لیے نمونہ بنایا ہے۔ جو اللہ اور اس کے نبی کے بیان کردہ پروگرام کو آگے چلاتے ہیں ۔ اب آج کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے پہلے اپنے پیغمبر کی حیثیت کو واضح کیا ہے اور پھر بیعت رضوان میں شامل ہونے والی صحابہ ؓ کی جماعت کا تذکر ہے۔ پیغمبر بطور شاہد پیغمبر (علیہ السلام) کی حیثیت کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے انا ارسلنک شاھداً اے اللہ کے رسول ! ہم نے آپ کو شاہد بنا کر بھیجا ہے۔ شاہد کا ایک معنی تو گواہ آتا ہے ، جیسے سورة بقرہ میں ہے وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰـکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا (آیت : 143) اور اس طرح ہم نے تمہیں افضل امت بنایا ہے تا کہ لوگوں پر گواہی دینے والے بن جائو ، اور اللہ کا رسول تم پر گواہ بن جائے۔ اسی طرح سورة النساء میں واضح کیا گیا ہے۔ فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍم بِشَھِیْدٍ وَّجِئْنَا بِکَ عَلٰی ھٰٓؤُلَآئِ شَھِیْدًا اس وقت کیا منظر ہو ہوگا جب ہم ہر امت سے گواہ لائیں گے اور پھر آپ کو آپ کی امت پر بطور گواہ پیش کریں گے۔ ساری امتوں کے انبیاء اپنی اپنی امت کی گواہی دیں گے اور پھر حضور ﷺ بھی اپنی امت کے بارے میں تبلیغ رسالت کی گواہی دیں گے کہ اللہ نے جو کام میرے سپرد کیا تھا۔ اور جو پیغام دے کر مجھے بھیجا تھا ، وہ میں نے اپنی امت تک پہنچا دیا ۔ شاہ عبد القادر (رح) شاہد کا معنی معلم کرتے ہیں ، اور وہ سورة حج کی آخری آیت سے استدلال کرتے ہیں ۔ جہاں اللہ نے فرمایا ، لازم پکڑ و ملت اپنے جد امجد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ۔ اس نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے ، اس سے پہلے بھی اس قرآن میں بھی لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ شَہِیْدًا عَلَیْکُمْ وَتَکُوْنُوْا شُہَدَآئَ عَلَی النَّاسِ تا کہ رسول معلوم ( بتلانے والا) ہو تمہارا ، اور تم معلم ہو لوگوں کے گویا حضور ﷺ کی ایک حیثیت معلم کی بھی ہے۔ معلم اپنے شاگردوں کو تعلیم دیتا ہے اور پھر ان کے ذمے کام بھی لگاتا ہے۔ اسی طرح آپ کی دوسری حیثیت امیر جماعت کی بھی ہے ، یعنی آپ خلیفۃ اللہ اور امیر جماعت المسلمین بھی ہیں ۔ بہر حال فرمایا کہ اے پیغمبر ! ہم نے آپ کو شاہد یعنی گواہ یا معلوم بنا کر بھیجا ہے۔ رضائے الٰہی بحیثیت معلوم حضور ﷺ کی اولین تعلیم اپنے صحابہ ؓ کے لیے یہ ہوتی تھی کہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان لائیں۔ اور دین اسلام کے تقاضوں کو پورا کریں ۔ بنیادی طور پر اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت قطرۃ ً ہر شخص کی روح میں ڈال دی ہے۔ اور اس محبت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان ایک طرف تو اللہ تعالیٰ کی مرغیات پر چلے اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی کمزور مخلوق کی خدمت کرے۔ قیامت والے دن لوگ اللہ کی محبت کے بڑے دعوے کریں گے۔ مگر اللہ تعالیٰ ان کو جھٹلا دیں گے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ، اے آدم کے بیٹے ! میں تیرے پاس بھوسکا ، پیاسا اور ننگا بن کر آیا تھا ، میں تیرے پاس بحیثیت مسافر آتا تھا۔ مگر تو نے میرے ساتھ کیا سلو ک کیا ؟ انسان حیران ہو کر عرض کریگا کہ پروردگار ! تو تو رب العالمین مختار مطلق اور ہر چیز پر قادر ہے ، تو کیسے مسافر بن سکتا ہے اور کیسے بھوکا ، پیاسا اور برہنہ ہو سکتا ہے ؟ اللہ فرمائے گا کہ میرا فلاں بندہ تیرے پاس محتاج بن کر آیا تھا ، اس کے پاس کھانے پینے اور پہننے کے لیے کچھ نہیں تھا ، اسی طرح فلاں بندہ تیرے پاس مہمان بن کر آیا تھا مگر تم نے ان کی کوئی خدمت نہ کی ۔ اگر تم بھوکے کو کھلاتے ، پیاسے کو پلاتے ، ننگے کو پہناتے اور مسافر کی خبر گیری کرتے تو آج میری رضا کو پاتے ، تم اس امتحان میں ناکام ہوئے لہٰذا تمہارا محبت کا دعویٰ جھوٹا ہے۔ پیغمبر بحیثیت مبشر اور نذیر اس کے بر خلاف جو لوگ دین کا کام صحیح طریقے پر کرتے ہیں ۔ ایک طرف اللہ کی مرضیات پر چلتے ہیں ، اس کے احکام کی تعمیل کرتے ہیں اور دوسری طرف مخلوق خدا کی خدمت بجا لاتے ہیں تو ایسے لوگوں کے لیے حضور ﷺ شاہد کے علاوہ و مبشرا ً یعنی خوش خبری دینے والے بھی ہیں ۔ یہ لوگ خدا تعالیٰ کے ہاں کامیاب ہوں گے۔ ان کو ترقی نصیب ہوگی اور ان کو خدا تعالیٰ کا قرب حاصل ہوگا ۔ اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو تسلیم نہیں کرتے ، قرآنی پروگرام کی مخالفت کرتے ہیں ، اپنی رجعت پسندانہ سرگرمیوں میں مصر ہیں ، ان کے لیے حضور ﷺ و نذیرا ً یعنی ڈر سنانے والے ہیں ۔ یعنی آپ ان کو ان کے برے انجام سے ڈرانے والے ہیں ۔ آگے اللہ نے عام لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے۔ لتومنوا باللہ ورسولہ تا کہ تم لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول حضور نبی کریم ﷺ پر ایمان لائو ، اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو تسلیم کرنا دین کی بنیاد ہے اور رسول اللہ تعالیٰ کا نمائندہ ہے۔ وہ اسی حیثیت میں اپنے آپ کو تمہارے سامنے پیش کرتا ہے ، اس میں الوہیت والی کوئی بات نہیں ہے۔ تم اس پر بھی ایمان لائو اور اس کی اطاعت کرو۔ یہ ضروری ہے کیونکہ اللہ کا فرمان ہے من یطع الرسول فقد اطاع اللہ ( النسائ : 80) جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے گویا اللہ تعالیٰ ہی کی اطاعت کی ۔ نیز فرمایا و تعزروہ اور اس کی مدد کرو ، یعنی اس کے دین کی مدد کرو ۔ دین کی تعلیمات پر خود بھی عمل کرو اور اسے دوسروں تک بھی پہنچائو ۔ اس کا فائدہ گزشتہ سورة محمد میں گزر چکا ہے ۔ ان تنصروا اللہ ینصرکم ویثبت اقدامکم ( آیت : 7) اگر تم اللہ یعنی اس کے دین کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کریگا اور تمہارے قدم مضبوط کردیگا۔ پھر اللہ نے عام لوگوں سے یہ بھی فرمایا توقروہ اور اس کی تعظیم بجا لائو ۔ اس کی عزت اور توقیر کرو ۔ ایسا کوئی کام نہ کرو جو اس کی عظمت کے خلاف ہو وتسجوہ بکرۃ واصیلاً اور صبح اور شام اس کی تسبیح بیان کرو ۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری ہر قسم کی تقصیریں معاف کر دیگا 1 ؎ بیعت رضوان کی خصوصیت بیعت رضوان کا ذکر تمہید کے طور پر پہلے اور دوسرے درس میں ہوچکا ہے۔ حدیبیہ کے مقام پر تقریباً پندرہ سو صحابہ ؓ کی جماعت سے حضور ﷺ کے دست مبارک پر بیعت کی تھی کہ حضر ت عثمان ؓ کی شہادت کا بدلہ لینے کے لیے ہم جانوں پر کھیل جائیں گے ، چناچہ اسی بیعت کے نتیجہ میں اہل اسلام اور مشرکین مکہ کے درمیان صلح کا معاہدہ طے پایا جو صلح حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس بیعت کا مزید ذکرآگے تیسرے رکوع میں بھی آ رہا ہے ، تا ہم یہاں پر اس بیعت کی فضلیت کا تذکرہ ہے۔ ارشاد ہوتا ہے ۔ ان الذین یبایعونک انما یبا یعون اللہ بیشک وہ لوگ جو آپ کے دست مبارک پر بیعت کرتے ہیں ، حقیقت میں وہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں ید اللہ فوق ایدھم ان کے ہاتھوں کے اوپر اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہے مطلب یہ کہ جب وہ بیعت رضوان کر رہے تھے تو ان 1 ؎۔ تعزروہ ، وتو فردہ ، کی ضمیر اللہ تعالیٰ کی طرف راجع ہو تو اس کی وضاحت جیسا کہ ترجہ میں کردی گئی ہے۔ تینوں ضمائر کا مرجمع اللہ تعالیٰ ہے اللہ تعالیٰ کی تائید و مدد سے دین کی مدد مراد ہے ۔ اور اسی طرح ما لکم لا ترجون للہ وقارا میں ہے کہ تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے وقار عظمت سے خوف نہیں کھاتے یا اسکی توقع اور امید نہیں رکھتے اگر پہلی دو ضمیریں حضور ﷺ کی طرف راجع ہوں تو بھی درست ہے آپکی تعظیم و توقیر اور مدد کرنا ہر ایک مسلمان کا فرض ہے ۔ بہر حال تسبحوہ کی ضمیر اللہ تعالیٰ کی طرف ہی راجع ہے۔ (سواتی) کے ہاتھوں کے اوپر اللہ تعالیٰ کی شفقت ، مہربانی اور تائید کا ہاتھ تھا۔ خدا کا نبی اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کے نازل کردہ پروگرام کی دنیا میں رائج کرنے کا عہد لے رہا تھا ، اور یہی چیز اللہ تعالیٰ کو پسند تھی جس کی وجہ سے اس نے اس بیعت کی تعریف فرمائی ہے اور اس بیعت کے کرنے والوں کو اپنی رضا کی خوشخبری دی ہے۔ اور پھر اس بیعت پر مستقیم رہنے کی تاکید بھی فرمائی ہے۔ فرمایا یاد رکھو ! فمن نکث فانما ینکث علی نفسہ پس جو کوئی اس بیعت کو توڑے گا ۔ یعنی اپنے اس عہد کی خلاف ورزی کریگا تو اس کا وبال خود اسی پر پڑے گا ۔ وہ اپنے نقصان اور خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا خود دار ہوگا ۔ ومن او فی بما عھد علیہ اللہ اور جو پورا کریگا ۔ اس چیز کو جو اس نے اللہ تعالیٰ سے اقرار کیا ہے۔ یعنی جو شخص اللہ کے راستے میں سردھڑ کی بازی لگانے پر قائم رہے گا ۔ جو اللہ کی رضا کی خاطر تن من دھن سب کچھ قربان کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہے گا ۔ فرمایا فسیوتیہ اجراً عظیما ً تو اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو اجر عظیم عطا فرمائے گا ۔ بیعت کی اقسام امام شاہ ولی اللہ (رح) نے اپنی کتاب القول الجمیل میں بیعت کی بہت سی قسمیں بیان کی ہیں ۔ شا ہ عبد اللہ العزیز (رح) نے بھی اپنی کتابوں میں بیعت کا ذکر ہے شاہ رفیع الدین (رح) نے بیعت سے متعلق ایک رسالہ قلمبند کیا ہے۔ تو بیعت کی بہت سی قسمیں ہیں جن میں ایک بیعت بیعت اسلام ہے۔ لوگ یہی بیعت کر کے اسلام میں داخل ہوتے تھے ۔ دوسری بیعت ہجرت کے لیے تھی ۔ لوگ اللہ کے نبی کے ہاتھ پر اللہ کے حکم کے مطابق ہجرت کر جانے کی بیعت یا عہد کرتے تھے تیسری بیعت جہاد تھی ۔ جب جنگ کا موقع آتا تھا تو لوگ اس بات کی بیعت کرتے تھے کہ ہم اللہ کے راستے میں جان و مال کی قربانی پیش کرنے کے لیے تیار ہیں بعض صحابہ ؓ نے ارکان اسلام پر پابندی کی بیعت کی ۔ حضرت جریر ؓ کی بیعت اسی سلسلہ میں تھی کہ میں ارکان اسلام نماز ، روزہ ، حج ، زکوٰۃ وغیرہ کی پابندی کروں گا اور ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کا سلوک کروں گا ۔ بعض لوگوں نے حضور ﷺ کے دست مبارک پر اس بات کی بیعت بھی کی کہ وہ سنت پر قائم رہیں گے اور بد عات سے بچتے رہیں گے ۔ پھر عورتوں نے بھی اس بات کی بیعت کی کہ وہ شریک نہیں کریں گی ، چوری نہیں کریں گی ، زنا نہیں کرینگی ، اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گی ، نہ اپنے ہاتھ پائوں میں کوئی بہتان باندھیں گی ( یعنی غیر کی اولاد کو خاوند کی طرف منسوب نہیں کریں گی) اور نہ نیک کاموں میں آپ کی نا فرمانیزکریں ۔ اس بیعت کا ذکر سورة الممتحنہ میں موجود ہے۔ بیعت کی ایک قسم بیعت تبرک بھی ہے ، حضرت زبیر ؓ اپنے آتھ سال کے بیٹے حضرت عبد اللہ ؓ کو حضور ﷺ کی خدمت میں لے گئے اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کرایا ، یہ یہی بیعت تھی ، وگرنہ بچے کے لیے بیعت کی ضرورت نہ تھی ۔ بعض اوقات بزرگان دین کے کسی سلسلہ میں داخل ہونے کے لیے بیعت کی جاتی ہے یعنی بیعت سلوک کی بھی ہوتی ہے۔ جیسا کہ عام طور پر بزرگان دین کے ہاتھ پر بیعت کی جاتی ہے اور جو مروج ہے۔ اس کا مطلب یہ اقرار کرنا ہوتا ہے۔ کہ ہم ارکان دین کی پابندی کریں گے۔ ، عبادت و ریاضت اور ذکر و اذکار باقاعدگی سے انجام دیں گے تا کہ درجات عالیہ نصیب ہوں اور اللہ کا تقرب حاصل ہو سکے۔ ایک بیعت خلافت ہوتی ہے جو خلیفہ کے انتخاب کے لیے ہوتی ہے۔ حضور ﷺ کے بعد لوگوں نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے ہاتھ پر خلافت کی بیعت کی اور اسی دیگر خلفائے راشدین ؓ کی بیعت بھی ہوئی ۔ بیعت کی یہ تمام قسمیں حضور ﷺ نے ثابت ہیں ۔ البتہ اس مقام پر جس بیعت کا ذکر ہو رہا ہے وہ بیعت جہاد تھی جو تقریباً ڈیڑھ ہزار صحابہ ؓ نے حضور ﷺ کے دست مبارک پر حدیبیہ کے مقام پر کی تھی اور جس میں جان کی بازی لگا دینے کا عہد کیا تھا۔ شاہ رفیع الدین (رح) فرماتے ہیں کہ بعض لوگ بزرگ کے ہاتھ پر محض دنیاوی فوائد حاصل کرنے کی بیعت کرتے ہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ بزرگ ہمارا کوئی معاملہ سلجھا دیں گے یا ہماری سفارش کردیں گے ۔ شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ یہ رسمی بیعت ہے جس کا کچھ فائدہ نہیں ۔ البتہ بیعت کی باقی جتنی اقسام بیان کی گئی ہیں ، وہ درست ہیں ۔ پیر کے اوصاف حضرت امام شاہ ولی اللہ دہلوی (رح) مزید فرماتے ہیں کہ کسی ایسے پیر یا بزرگ سے بیعت ہونا درست ہے ، جس میں حسب ذیل اوصاف پائے جائیں۔ (1) پیر کتاب و سنت کا علم کھتا ہو ، خود پڑھ کر علم حاصل کیا ہو یا کسی بزرگ کی صحبت حاصل کی ہو ، بہر حال اس کے پاس کتاب و سنت کا علم ہونا چاہئے۔ (2) کبائر سے مجتنب اور صغائر پر اصرار نہ کرے ، کبائر کا مرتکب بیعت کا اہل نہیں ہوتا کیونکہ وہ فساق میں شمار ہوتا ہے۔ (3) بیعت لینے والا دنیا سے بےرغبت اور آخرت کی طرف رغبت رکھتا ہے۔ (4) امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا عامل ہو ۔ اپنے متعلقین کو اچھی بات کا حکم دے اور اگر ان میں کوئی بری بات دیکھے تو فوراً روک دے۔ (4) امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا عامل ہو ۔ اپنے متعلقین کو اچھی بات کا حکم دے اور اگر ان میں سے کوئی بری بات دیکھے تو فوراً روک دے۔ (5) پیر خود رونہ ہو ، بلکہ یہ طریقہ اس نے بزرگوں سے سیکھا ہو یا ان کی صحبت اختیار کی ہو ۔ ایسا نہ ہو کہ باپ کی وفات کے بعد بیٹا جیسا کیسا بھی ہو گدی نشین ہوگیا نہ کسی سے سیکھا ، نہ کسی کی صحبت اختیار کی اور نہ علم حاصل کیا ۔ یہ سلسلہ تو تباہ کن ہے جو آج کل اکثر رائج ہے۔ اگر ان شرائط کو پورا کرنے والا کوئی بزرگ مل جائے تو اس کے ہاتھ پر بیعت کر لینی چاہیے ، تا کہ انسان شیطان کے پھندے سے محفوظ رہ سکے۔ ویسے یہ بیعت نہ ضرف ہے اور نہ واجب ، البتہ سنت ہے۔ بزرگان دین میں سے حضرت دقاق (رح) اور شیخ عبد القادر جیلانی (رح) سے بھی منقول ہے کہ اگر کوئی کامل آدمی مل جائے تو بیعت کر لینی چاہئے ، البتہ کسی غلط کار ، فاسق ، شرکیہ اور بد عتیہ اعمال کرانے والے پیر کے ہاتھ پر بیعت کرنا ہرگز جائز نہیں ، مولانا رومی (رح) فرماتے ہیں۔ اے بسا ابلیس آدمی روئے ہست پس بہر دستے نباید داد دست اس قسم کے لوگ انسانی شکل میں شیطان ہیں ، اس لیے ہر ہاتھ پر ہاتھ نہیں رکھ دنا چاہئے ورنہ وہ شرک اور بدعت میں مبتلا کردیں گے اور انسان کو گمراہ کر کے رکھ دینگے۔ شیخ عبد القدوس گنگوہی (رح) کا قول شیخ عبد القدوس گنگوہی (رح) دسویں صدی کے بزرگ ہوئے ہیں ۔ آپ کا تعلق چشتیہ خاندان سے تھا۔ آپ شاہ عبد الحق ردولوی (رح) کے فرزند کے مرید تھے۔ آپ کا زمانہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء (رح) کا قریبی زمانہ ہے۔ آپ نے اپنی فارسی زبان کے مکتوبات میں اپنے زمانے کی عام پیری مریدی کا رد ان الفاظ میں کیا ہے۔ فرماتے ہیں ۔ ” ہیہات ہیہات امروزاز بد روز ما است کہ جہان از پیری و مریدی “ پرشد و ہیچ خبر از مسلمانی نیست افسوس کہ آج کا زمانہ ہمارے لیے کتنا برا زمانہ ہے کہ سارا جہان پیری مریدی سے پر ہے لیکن مسلمانی کی خبر بالکل نہیں ۔ ایک دوسرے مکتوب میں فرماتے ہیں ” امروز از بدروز ما است ، پیری مریدی کجا ایں ہمہ جزبت پرستی و خود پرستی نیست “ ہمارا دور کتنا برا دور ہے کہ یہاں پیری مریدی نہیں بلکہ بت پرستی اور خود پرستی ہے۔ آج کل گدی نشین عام طور پر یہی کچھ کر رہے ہیں ۔ پھر فرماتے ہیں کہ ” امر وزدرویشی بلقمہ فروشی است “ یعنی آج کی درویشی درویشی نہیں بلکہ یہ تو لقمہ فروشی ہے۔ یہ تو دین فروشی ہے کہ دنیا کا حقیر مال حاصل کرنے کے لیے پیری مریدی کا سلسلہ جاری کر رکھا ہے۔ یہ گنبد ، پختہ قبریں ، چادری اور چڑھاوے اسی مقصد کے لیے ہیں ۔ حضرت گنگوہی (رح) یہ بھی فرماتے ہیں کہ ” ما مدبراں را۔۔۔ “ خدا تعالیٰ ہم ایسے بد نصیب لوگوں کو اس قسم کی درویشی اور دین فروشی سے توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ” اول بارے مسلمانی دوست کنم بعدہٗ درویشی “ ہم سب سے پہلے دین اور عقیدے کو درست کریں اور اس کے بعد درویشی اور پیری مریدی کی طرف توجہ دیں ۔ اگر عقیدہ اور اسلام ہی درست نہیں تو اس پیری مریدی کا کیا فائدہ ؟ آج کل کی پیری مریدی تو نرا دھوکہ اور فراڈ ہے۔ اس میں شرک اور بد عت کے سوا کچھ نہیں البتہ جیسا کہ امام شاہ ولی اللہ (رح) نے لکھا ہے اگر مذکورہ پانچ شرائط کا حامل کوئی بزرگ مل جائے تو اس کے ہاتھ پر بیعت کر لینی چاہئے تا کہ انسان شیطان کے پھندے سے بچ جائے۔
Top