Maarif-ul-Quran - Al-An'aam : 126
وَ هٰذَا صِرَاطُ رَبِّكَ مُسْتَقِیْمًا١ؕ قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّذَّكَّرُوْنَ
وَھٰذَا : اور یہ صِرَاطُ : راستہ رَبِّكَ : تمہارا رب مُسْتَقِيْمًا : سیدھا قَدْ فَصَّلْنَا : ہم نے کھول کر بیان کردی ہیں الْاٰيٰتِ : آیات لِقَوْمٍ : ان لوگوں کے لیے يَّذَّكَّرُوْنَ : جو نصیحت پکڑتے ہیں
اور یہ ہے رستہ تیرے رب کا سیدھا ہم نے واضح کردیا نشانیوں کو غور کرنے والوں کے واسطے
خلاصہ تفسیر
اور (اوپر جو اسلام کا ذکر ہے تو) یہی (اسلام) تیرے رب کا (بتلایا ہوا) سیدھا راستہ ہے (جس پر چلنے سے نجات ہوتی ہے، جس کا ذکر (آیت) فَمَنْ يُّرِدِ اللّٰهُ اَنْ يَّهدِيَهٗ ، میں ہے، اور اسی صراط مستقیم کی توضیح کے لئے) ہم نے نصیحت حاصل کرنے والوں کے واسطے ان آیتوں کو صاف صاف بیان کردیا ہے، (جس سے وہ اس کے اعجاز سے اس کی تصدیق کریں اور پھر اس کے مضامین پر عمل کرکے نجات حاصل کریں، یہی تصدیق و عمل صراط مستقیم کامل ہے، بخلاف ان کے جن کو نصیحت حاصل کرنے کی فکر ہی نہیں ان کے واسطے نہ یہ کافی نہ دوسرے دلائل کافی، آگے ان ماننے والوں کی جزاء کا ذکر ہے، جیسا نہ ماننے والوں کی سزا اوپر کئی جملوں میں مذکور ہے پس ارشاد ہے کہ) ان لوگوں کے واسطے ان کے رب کے پاس (پہنچ کر) سلامتی (یعنی امن وبقاء) کا گھر (یعنی جنت) ہے اور اللہ ان سے محبت رکھتا ہے، ان کے اعمال (حسنہ) کی وجہ سے اور (وہ دن یاد کرنے کے قابل ہے) جس روز اللہ تعالیٰ تمام خلائق کو جمع کریں گے (اور ان میں سے بالخصوص کفار کو حاضر کرکے ان میں جو شیاطین الجن ہیں ان سے تو بیخاً کہا جاوے گا کہ) اے جماعت جنات کی تم نے انسانوں (کے گمراہ کرنے) میں بڑا حصہ لیا (اور ان کو خوب بہکایا یا اسی طرح انسانوں سے پوچھا جاوے گا (آیت) الم اعھد الیکم یبنی ادم ان لا تعبدوا الشیطن الخ۔ غرض شیاطین الجن بھی اقرار کریں گے) اور جو انسان ان (شیاطین جن) کے ساتھ تعلق رکھنے والے تھے وہ (بھی اقراراً کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار آپ صحیح فرماتے ہیں واقعی) ہم میں ایک نے دوسرے سے (اس ضلال واضلال کے باب میں نفسانی) فائدہ حاصل کیا تھا (چنانچہ گمراہ انسانوں کو اپنے عقائد کفریہ و شرکیہ میں لذت آتی ہے اور گمراہ کنندہ شیاطین کو اس سے حظ ہوتا ہے کہ ہمارا کہنا چل گیا) اور (فی الحقیقت ہم ان کے بہکانے سے قیامت کے منکر تھے، لیکن وہ انکار غلط ثابت ہوا، چنانچہ) ہم اپنی اس معیّن میعاد تک آپہنچے جو آپ نے ہمارے لئے معیّن فرمائی، (یعنی قیامت آگئی) اللہ تعالیٰ (سب کفار جن وانس سے) فرماویں گے کہ تم سب کا ٹھکانا دوزخ ہے جس میں ہمیشہ ہمیشہ کو رہو گے، (کوئی نکلنے کی سبیل و تدبیر نہیں) ہاں، اگر خدا ہی کو (نکالنا) منظور ہو تو دوسری بات ہے (لیکن یہ یقینی ہے کہ خدا بھی نہیں چاہے گا اس لئے ہمیشہ رہا کرو) بیشک آپ ﷺ کا رب بڑی حکمت والا اور بڑا علم والا ہے (علم سے سب کے جرائم معلوم کرتا ہے اور حکمت سے مناسب سزا دیتا ہے)۔

معارف و مسائل
مذکورہ آیات میں سے پہلی آیت میں رسول کریم ﷺ کو خطاب کرکے ارشاد فرمایا (آیت) وَھٰذَا صِرَاطُ رَبِّكَ مُسْتَقِـيْمًا، ”یعنی یہ راستہ تیرے رب کا ہے سیدھا“۔ اس میں لفظ ھذٰا سے بقول ابن مسعود ؓ قرآن کی طرف اور بقول ابن عباس ؓ اسلام کی طرف اشارہ ہے (روح) معنی یہ ہیں کہ یہ قرآن یا شریعت اسلام جو آپ ﷺ کو دی گئی ہے، یہ راستہ آپ ﷺ کے رب کا ہے، یعنی ایسا راستہ ہے جس کو آپ ﷺ کے پروردگار نے اپنی حکمت بالغہ سے تجویز فرمایا اور اس کو پسند کیا ہے، اس میں راستہ کی اضافت و نسبت پروردگار کی طرف کرکے اس طرف اشارہ فرمایا کہ قرآن اور اسلام کا جو دستور العمل آپ ﷺ کو دیا گیا ہے اس پر عمل کرنا کچھ اللہ تعالیٰ کے فائدہ کے لئے نہیں بلکہ عمل کرنے والوں کے فائدہ کے لئے شان پروردگاری کے تقاضہ کی بنا پر ہے اس کے ذریعہ انسان کی ایسی تربیت کرنا مقصود ہے جو اس کی دائمی فلاح و بہبود کی ضامن ہو۔
پھر اس میں لفظ رب کی نسبت رسول کریم ﷺ کی طرف کرکے آپ ﷺ پر ایک خاص لفط و عنایت کا اظہار فرمایا گیا ہے کہ آپ ﷺ کے پروردگار نے یہ راستہ تجویز فرمایا ہے، اس نسبت کا لفط اہل ذوق ہی محسوس کرسکتے ہیں کہ ایک بندہ کو اپنے رب اور معبود کی طرف کوئی ادنیٰ نسبت حاصل ہوجانا بھی اس کے لئے انتہائی فخر کی چیز ہے، اور اگر رب الارباب اور معبود کائنات اپنے آپ کو اس کی طرف منسوب کرے کہ میں تیرا ہوں تو اس کی قسمت کا کیا کہنا، حضرت حسن نظامی رحمة اللہ علیہ اسی مقام سے فرماتے ہیں
بندہ حسن بصد زبان گفت کہ بندہ توام، تو بزبان خود بگو کہ بندہ نواز کیستی
اس کے بعد اس قرآنی راستہ کا یہ حال لفظ مُسْتَقِـيْمًا سے بیان کیا گیا کہ یہ راستہ سیدھا راستہ ہے، اس میں بھی مستقیم کو صراط کی صفت کے طور پر لانے کے بجائے حال کے طریقہ سے ذکر کرکے اس طرف اشارہ کردیا کہ جو راستہ پروردگار عالم کا تجویز کیا ہوا ہے، اس میں بجز مستقیم اور سیدھا ہونے کے اور کوئی احتمال ہو ہی نہیں سکتا (روح و بحر)
اس کے بعد فرمایا (آیت) قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّذَّكَّرُوْنَ ، یعنی ہم نے نصیحت قبول کرنے والوں کے واسطے ان آیتوں کو صاف صاف بیان کردیا ہے۔
فصلنا، تفصیل سے بنا ہے، تفِصیل کے اصلی معنی یہ ہیں یہ تجزیہ کر کے ایک ایک فصل کو الگ الگ بیان کیا جائے، اس طریقہ پر پورا مضمون ذہن نشین ہوجاتا ہے، اس لئے تفِصیل کا تفصیل کے ساتھ بیان کردیا ہے، جس میں کوئی اجمال یا ابہام باقی نہیں چھوڑا، اس میں لِقَوْمٍ يَّذَّكَّرُوْنَ ، فرما کر یہ بتلا دیا کہ اگرچہ قرآنی ارشاد بالکل واضح اور صاف ہیں، لیکن ان سے فائدہ انہی لوگوں نے اٹھایا جو نصیحت حاصل کرنے کے قصد سے قرآن میں غور کرتے ہیں، ضد اور عناد یا آبائی رسوم کی تقلید جامد کے پردے ان کے درمیان حائل نہیں ہوتے۔
Top