Maarif-ul-Quran - Al-An'aam : 56
قُلْ اِنِّیْ نُهِیْتُ اَنْ اَعْبُدَ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ١ؕ قُلْ لَّاۤ اَتَّبِعُ اَهْوَآءَكُمْ١ۙ قَدْ ضَلَلْتُ اِذًا وَّ مَاۤ اَنَا مِنَ الْمُهْتَدِیْنَ
قُلْ : کہ دیں اِنِّىْ : بیشک میں نُهِيْتُ : مجھے روکا گیا ہے اَنْ اَعْبُدَ : کہ میں بندگی کروں الَّذِيْنَ : وہ جنہیں تَدْعُوْنَ : تم پکارتے ہو مِنْ : سے دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا قُلْ : کہ دیں لَّآ اَتَّبِعُ : میں پیروی نہیں کرتا اَهْوَآءَكُمْ : تمہاری خواہشات قَدْ ضَلَلْتُ : بیشک میں بہک جاؤں گا اِذًا : اس صورت میں وَّمَآ اَنَا : اور میں نہیں مِنَ : سے الْمُهْتَدِيْنَ : ہدایت پانے والے
تو کہہ دے مجھ کو روکا گیا ہے اس سے کہ بندگی کروں ان کی جن کو تم پکارتے ہو اللہ کے سوا تو کہہ میں نہیں چلتا تمہاری خوشی پر بیشک اب تو میں بہک جاؤں گا اور نہ رہوں گا ہدایت پانے والوں میں
خلاصہ تفسیر
آپ (ان معاندین سے) کہہ دیجئے کہ مجھ کو (حق تعالیٰ کی طرف سے) اس سے ممانعت کی گئی ہے کہ ان (معبودوں) کی عبادت کروں جن کی تم لوگ اللہ (کی توحید) کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہو (اور ان کے طریقہ کی گمراہی ظاہر کرنے کے لئے) آپ ﷺ کہہ دیجئے کہ میں تمہارے (باطل) خیالات کا اتباع نہ کروں گا، کیونکہ (اگر نعوذ باللہ میں ایسا کروں تو) اس حالت میں بےراہ ہوجاؤں گا اور راہ (راست) پر چلنے والوں میں نہ رہوں گا، آپ (ان سے یہ بھی) کہہ دیجئے کہ میرے پاس تو (اس دین اسلام کے حق ہونے پر) ایک دلیل (کافی موجود) ہے جو میرے رب کی طرف سے (مجھ کو ملی ہے، یعنی قرآن مجید جو کہ میرا معجزہ ہے، جس سے میری تصدیق ہوتی ہے) اور تم (بلاوجہ) اس کی تکذیب کرتے ہو (اور تم جو یہ کہتے ہو کہ اگر دین اسلام حق ہے تو ہمارے انکار پر آسمان سے پتھر برسیں یا کوئی اور عذاب سخت آئے، جیسا کہ دوسری جگہ ان الفاظ سے مذکور ہے، (آیت) ان کان ھذا ھو الحق من عندک۔ الخ۔ ، تو اس کا جواب یہ ہے) جس چیز کا تم تقاضا کر رہے ہو (یعنی عذاب الیم) وہ میرے پاس (یعنی میری قدرت میں نہیں) حکم کسی کا نہیں (چلتا) بجز اللہ کے (اور اللہ کا حکم نزول عذاب کا ہوا نہیں تو میں کیسے عذاب دکھلا دوں) اللہ تعالیٰ حق بات کو (دلیل سے) بتلا دیتا ہے اور سب سے اچھا فیصلہ کرنے والا وہی ہے (چنانچہ اس نے میری رسالت کی واضح اور قوی دلیل قرآن کریم بھیج دیا، اور دوسرے واضح معجزات ظاہر فرما دئیے، اور دلیل صحیح ایک بھی کافی ہوتی ہے تو تمہاری فرمائشی دلیلیں ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں، اس لئے اس وقت نزول عذاب کے ذریعہ فیصلہ نہیں فرمایا) آپ ﷺ کہہ دیجئے کہ اگر میرے پاس (یعنی میری قدرت میں) وہ چیز ہوتی جس کا تم تقاضا کر رہے ہو (یعنی عذاب) تو (اب تک) میرا اور تمہارا باہمی قضیہ (کبھی کا) فیصل ہوچکا ہوتا اور ظالموں کا اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے (کہ کس کے ساتھ کیا معاملہ کس وقت کیا جائے)
ربط آیات
آیات مذکورہ میں کفار کی طرف سے نزول عذاب کی عاجلانہ فرمائش اور اس کا جواب خیر الفاصلین میں اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ تامہ کا ذکر اعلم بالظالمین میں مذکور تھا۔ آگے تمام معلومات و مقدرات پر اللہ تعالیٰ کے علم وقدرت کا احاطہ بیان کیا جاتا ہے۔
Top