Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 56
قُلْ اِنِّیْ نُهِیْتُ اَنْ اَعْبُدَ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ١ؕ قُلْ لَّاۤ اَتَّبِعُ اَهْوَآءَكُمْ١ۙ قَدْ ضَلَلْتُ اِذًا وَّ مَاۤ اَنَا مِنَ الْمُهْتَدِیْنَ
قُلْ : کہ دیں اِنِّىْ : بیشک میں نُهِيْتُ : مجھے روکا گیا ہے اَنْ اَعْبُدَ : کہ میں بندگی کروں الَّذِيْنَ : وہ جنہیں تَدْعُوْنَ : تم پکارتے ہو مِنْ : سے دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا قُلْ : کہ دیں لَّآ اَتَّبِعُ : میں پیروی نہیں کرتا اَهْوَآءَكُمْ : تمہاری خواہشات قَدْ ضَلَلْتُ : بیشک میں بہک جاؤں گا اِذًا : اس صورت میں وَّمَآ اَنَا : اور میں نہیں مِنَ : سے الْمُهْتَدِيْنَ : ہدایت پانے والے
تم کہو مجھے اس بات سے روکا گیا ہے کہ میں ان کی بندگی کروں جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو نیز کہو کہ میں کبھی تمہاری نفسانی خواہشوں پر چلنے والا نہیں اگر میں ایسا کروں تو میں گمراہ ہوچکا اور ان میں نہ رہا جو راہ پانے والے ہیں
مشرک ہمیشہ خواہش نفس ہی سے مشرک ہوتا ہے اور خواہش نفس ساری گمراہیوں کی سردار ہے : 86: انسان کیا ہے ؟ مختلف خواہشات کا ایک مجموعہ اور انہی خواہشات میں وہ خواہشات بھی ہیں جو خواہشات نفس کہلاتی ہیں۔ انسان کی یہ فطری خواہش ہے کہ وہ ” جنتی ہو “ اور ” جنت کیا ہے “ اچھے اعمال کا نتیجہ۔ جب اس کو معلوم ہے کہ میرا کوئی عمل اچھا نہیں اور نفسانی خواہشات میں اس قدر دب چکا ہے کہ اب اچھے اعمال کی طرف رغبت کرنے کی بجائے وہ ایسے لوگوں کی طرف رغبت کرتا ہے جن کے متعلق اس کو گمان ہے کہ وہ اسے عذاب الٰہی سے نجات دلا کر جنت بھجوادیں گے۔ یہ گمان کیا ہے اس کی ” خواہش “ اور اسی خواہش نے اس کو مشرک بنا دیا۔ بس ایک ایک نفسانی خواہش کا تجزیہ کرتے جاؤ تو اس کا ایک ایک سرا شرک کے ساتھ ملتا جائے گا اور اس کے متعلق ارشاد الٰہی اس طرح ہے کہ ” کبھی تم نے اس شخص کے حال پر غور کیا ہے جس نے اپنی خواہش نفس کر اپنا خدا بنا لیا ہے ؟ “ غور کرو کہ خواہش نفس کو خدا بنا لینے سے مراد کیا ہے ؟ یہی کہ خواہش نفس کا بندہ بن کر رہ جانا اور حقیقت کے اعتبار سے یہ ویسا ہی شرک ہے جیسا کسی بت کو پوجنا یا کسی بھی مخلوق کو معبود بنا لیا۔ حضرت ابوامامہ ؓ کی روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ” ماتحت ظل السمآء من الہ یعبد من دون اللہ اعظم عند اللہ عزوجل من ھوی یتبع “ ” اس آسمان کے نیچے اللہ تعالیٰ کے سوا جتنے معبود بھی پوچے جا رہے ہیں ان میں اللہ کے نزدیک بدترین معبود وہ ہے جو خواہش نفس ہے کہ اس کی پیروی کی جا رہی ہو۔ “ (طبرانی) ظاہر ہے کہ جو شخص اپنی خواہش کو عقل کے تابع رکھتا ہو اور عقل سے کام لے کر فیصلہ کرتا ہو کہ اس کے لئے صحیح راہ کونسی ہے اور غلط راہ کونسی ؟ وہ اگر کسی قسم کے شرک یا کفر میں مبتلا بھی ہو تو اس کو سمجھا کر سیدھی راہ پر لایا جاسکتا ہے اور یہ اعتماد بھی کیا جاسکتا ہے کہ جب وہ راہ راست اختیار کرنے کا فیصلہ کرلے گا تو اس پر ثابت قدم رہے گا لیکن نفس کا بندہ اور خواہشات کا غلام ایک شتر بےمہار کی طرح ہے۔ اسے تو اس کی خواہشات نفس جدھر لے جائیں گی وہ ان کے ساتھ بھٹکتا پھرے گا۔ اس کو سرے سے یہ فکر ہی نہیں ہے کہ صحیح و غلط اور حق و باطل میں تمیز کرے اور ایک کو چھوڑ کر دوسرے کو اختیار کرے۔ اسلئے شرک کو جس طرف سے بھی دیکھو گے تو اس کا کوئی نہ کوئی سرا ضرور خواہش نفس سے ملتا ہوگا یہی وجہ ہے کہ شرک کی دلدل سے نکلنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ زیر نظر آیت میں ارشاد فرمایا گیا کہ ” اے پیغمبر اسلام ! تم کہو مجھے اس بات سے روکا گیا ہے کہ میں ان کی بندگی کروں جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو۔ “ یعنی اپنی مشکلات میں ان کو مشکل کشا سمجھ کر ، اپنی حاجت براریوں میں ان کو حاجت روا سمجھ کر خواہ ملائکہ ہوں ، جن ہوں ، انبیاء واولیاء ہوں ، زندہ یا مردہ انسانوں کی ارواح ہوں ، سورج ، ستارے ، چاند ، جانور ، درخت ، دریا ، انسانوں اور حیوانوں کے بت اور خیالی دیویاں اور دیوتا ہوں۔ ان میں سے کسی کے نام کو اللہ نام کے ساتھ شریک کر کے یا صرف اس سے کچھ طلب کرنا سب شرک ہے۔ کسی کے نام کا وظیفہ شرک ہے ، کسی سے دعا کرنا کھلا شرک ہے ہاں ! کسی زندہ انسان سے دعا کرانا شرک نہیں۔ اللہ وہ ذات ہے جس کو کوئی انسان اس دینوی زندگی میں اس ظاہری آنکھ سے دیکھ نہیں سکتا اور جو اس طرح دیکھا جاسکے وہ اللہ نہیں ہو سکتا۔ وہ وہ ذات ہے جس کو کوئی شخص اپنے حواس سے محسوس نہیں کرسکتا لیکن اس کے باوجود وہ تم سے دور نہیں۔ وہ اپنے بندے کے قریب ہے خواہ وہ بندہ نیک ہے یا بندگ نیک ہے یا بد ، مسلم ہے یا غیر مسلم۔ جب چاہو تم اس کو بلاؤ ، پکارو ، اپنی عرض و معروض اس کے حضور پیش کرو حتیٰ کہ دل ہی دل میں اس سے عرض کرو یقیناً وہ اس کو سنتا ہے اور پھر صرف سنتا ہی نہیں بلکہ اس کے متعلق فیصلہ بھی صادر کرتا ہے۔ جن بےحقیقت اور بےاختیار ہستیوں کو تم نے اپنی نادانی سے ” الہٰ “ اور ” رب “ قرار دے رکھا ہے ان کے پاس تو تم کو دوڑ دوڑ کر جانا پڑتا ہے اور پھر بھی نہ وہ تمہاری شنوائی کرسکتے ہیں اور نہ ان میں یہ طاقت ہے کہ تمہاری درخواستوں پر کوئی فیصلہ صادر کرسکیں مگر وہ احکم الحاکمین ، رب کائنات ، فرمانروائے مطلق تمام اختیارات اور تمام طاقتوں کا مالک ہے۔ آسمان اور زمین میں اور ان فضاؤں اور آسمانوں و زمین کے خلاؤں میں جو کچھ ہے سب اس کا ہے وہ تم سے اتنا قریب ہے کہ اتنا قریب تم خود بھی اپنے آپ کے نہیں۔ وہ تمہاری ہر فرض وغایت اور ہر ضرورت کو جانتا و پہچانتا ہے تم بغیر کسی وسیلہ اور بغیر کسی واسطہ کے اور بغیر کسی کی سفارش کے براہ راست ہر وقت اور ہر جگہ اس سے اپنی ساری ضروریات دینوی اور اخروی طلب کرسکتے ہو اس لئے اس سے طلب کرو اسی چیز کا نام بندگی ہے۔ غیر اللہ کو پکارنا خواہ وہ کوئی ہو تمہاری نفسانی خواہشات کے سوا کچھ بھی نہیں اور اے پیغمبر اسلام ! آپ ﷺ ان سے برملا کہہ دیجئے کہ ” میں تمہاری نفسانی خواہشوں پر چلنے والا نہیں اگر میں ایسا کروں تو میں بھی گمراہ ہوچکا اور ان میں نہ رہا جو راہ پانے والے ہیں۔ “ نبی اعظم و آخر ﷺ کو مخاطب فرما کر دنیا کے سارے انسانوں تک یہ بات پہنچا دی اور اس طرح شرک کی مکمل تشریح فرما کر سارے انسانوں کے ساتھ احسان عظیم فرمایا۔ اب جو چاہے احسان مند ہو اور جو چاہے احسان فراموش ہو کر ناقدروں اور ناشکروں میں داخل ہوجائے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ناقدروں اور ناشکروں میں ہم کو شمار نہ کرے اور احسان مندوں کی فہرست میں لکھ دے۔ آمین
Top