Tafseer-e-Jalalain - Al-An'aam : 56
قُلْ اِنِّیْ نُهِیْتُ اَنْ اَعْبُدَ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ١ؕ قُلْ لَّاۤ اَتَّبِعُ اَهْوَآءَكُمْ١ۙ قَدْ ضَلَلْتُ اِذًا وَّ مَاۤ اَنَا مِنَ الْمُهْتَدِیْنَ
قُلْ : کہ دیں اِنِّىْ : بیشک میں نُهِيْتُ : مجھے روکا گیا ہے اَنْ اَعْبُدَ : کہ میں بندگی کروں الَّذِيْنَ : وہ جنہیں تَدْعُوْنَ : تم پکارتے ہو مِنْ : سے دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا قُلْ : کہ دیں لَّآ اَتَّبِعُ : میں پیروی نہیں کرتا اَهْوَآءَكُمْ : تمہاری خواہشات قَدْ ضَلَلْتُ : بیشک میں بہک جاؤں گا اِذًا : اس صورت میں وَّمَآ اَنَا : اور میں نہیں مِنَ : سے الْمُهْتَدِيْنَ : ہدایت پانے والے
(اے پیغمبر ﷺ کفار سے) کہہ دو کہ جن کو تم خدا کے سوا پکارتے ہو مجھے ان کی عبادت سے منع کیا گیا ہے۔ (یہ بھی) کہہ دو کہ میں تمہاری خواہشوں کی پیروی نہیں کروں گا ایسا کرو تو گمراہ ہوجاؤں اور ہدایت یافتہ لوگوں میں سے نہ رہوں۔
آیت نمبر 56 تا 60 ترجمہ : (اے محمد ﷺ ان سے) کہو کہ اللہ کے سوا جن کی تم بندگی کرتے ہو ان کی بندگی کرنے سے مجھے منع کیا گیا ہے، (اور ان سے یہ بھی) کہو کہ ان کی بندگی کرنے میں، میں تمہاری خواہشات کی پیروی نہیں کروں گا، اگر میں نے خواہشات کی پیروی کی تو میں گمراہ ہوگیا، اور میں ہدایت یافتہ لوگوں میں نہ رہا، کہو کہ میں اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل پر ہوں اور تم نے میرے رب کو چھوڑ دیا ہے اس لئے کہ تم نے شرک کیا، جس عذاب کی تم جلدی مچار ہے ہو وہ میرے اختیار میں نہیں ہے اس معاملہ میں اور دیگر معاملات میں صرف الہ وحدہ ہی کا حکم چلتا ہے وہی برحق فیصلہ کرتا ہے اور وہی بہتر فیصلہ کرنے والا ہے اور ایک قراءت میں (یقضِ کے بجائے) یقصُّ ہے بمعنی یقول، کہو اگر وہ چیز جس کی تم جلدی مچا رہے ہو میرے اختیار میں ہوتی تو میرے اور تمہارے درمیان فیصلہ ہوچکا ہوتا بایں طور کہ میں اس میں تمہارے لئے جلدی کرتا اور راحت حاصل کرتا لیکن وہ اللہ کے اختیار میں ہے اور اللہ ہی زیادہ جانتا ہے کہ ظالموں کو کب سزا دے اسی کے پاس غیب کے خزانوں کی کنجیاں ہیں یا غیب کے علم تک رسائی کے طریقے اسی کے پاس ہیں ان کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا اور وہ پانچ ہیں جن کا ذکر اللہ تعالیٰ کے قول ” اَنّ اللہ عندہ علم الساعۃ “ (الآیۃ) میں ہے، کما رواہ البخاری اور بحر و بر میں جو کچھ رونما ہوتا ہے وہ جانتا ہے، (یعنی) چٹیل میدانوں اور ان بستیوں میں جو نہروں کے کنارہ پر واقع ہیں درخت سے گرنے والا کوئی پتہ ایسا نہیں کہ جس کا اسے علم نہ ہو اور نہ کوئی دانہ جو زمین کی تاریکیوں میں ہو اور نہ خشک و تر جو کتاب مبین (یعنی) لوح محفوظ میں نہ ہو اس کا عطف وَرَقَۃٌ پر ہے، اور (دوسرا) استثناء اپنے ماقبل کے استثناء سے بدل لاشتمال ہے وہ وہی ذات ہے جو رات کو نیند میں تمہاری روحیں قبض کرتا ہے اور دن میں جو کچھ تم کرتے ہو اس سے وہ بخوبی واقف ہے تمہاری روحوں کو لوٹا کر (دوسرے) دن تم کو زندہ کردیتا ہے تاکہ تم زندگی کی مدت پوری کرو اور وہ مدت حیات ہے آخر کار بعث کے ذریعہ اسی طرف تمہاری واپس ہے پھر وہ تمہیں بتادے گا کہ تم کیا کرتے رہے اور اس کی تم کو جزا دے گا۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : قد کَذَّبْتُم۔ سوال : قد محذوف ماننے کی کیا ضرورت پیش آئی ؟ جواب : ماضی چونکہ بغیر قد کے حال واقع نہیں ہوسکتی اسلئے یہاں قد مقدر مانا۔ قولہ : القَضَاءَ الحَقَّ ۔ سوال : القضاءَ ، کے محذوف ماننے کی کیا ضرورت پیش آئی ؟ جواب : اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ الحقَّ مصدر محذوف کی سفت ہونے کی وجہ سے منصوب ہے لہٰذا اب یہ احتمال ختم ہوگیا کہ الحقِّ لفظ کی صفت ہونے کی وجہ سے مجرور ہے قولہ : وفی قراءۃ یَقُصُّ ، ای یقص الحقّ بمعنی یقول الحقّ ۔ قولہ : المَفَاتِحُ یہ، مفتح بکسر المیم کی جمع ہے بمعنی کنجی، اور کہا گیا ہے کہ مفتح بفتح المیم کی جمع ہے بمعنی خزانہ۔ قولہ : القَفْر خالی زمین چٹیل میدان، القفار والقفور، قَفر کی جمع ہیں۔ قولہ : الطُرُقُ المُوْسِلہ الی عِلْمِہ، یہ استعارہ بالکنایہ کے طور پر ہے۔ قولہ : بَدَلُ الِاشْتِمَال مِنَ الاِسْتِثْنَاءِ قبلہٗ ، یعنی اِلاَّ فی کتاب مبین یہ استثناء اول یعنی اِلاَّ یعلمھا، سے بدل الاشتمال ہے یہ صاحب کشاف پر رد ہے اس لئے کہ صاحب کشاف نے استثناء ثانی کو اول کی تاکید قرار دیا ہے۔ تفسیر و تشریح شان نزول : قُلْ اِنّی نُھِیْتُ اَنْ اَعْبُد الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہ (الآیۃ) جیسا کہ ” قل یا ایھا الکافرون “ کے شان نزول میں احادیث میں وارد ہوا ہے کہ مشرکین مکہ کی یہ فرمائش تھی کہ ایک سال آپ ﷺ اور مسلمان ہمارے بتوں کی بندگی کرلیا جریں اور ایک سال ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرلیا کریں گے تاکہ آپس کا نزوع ختم ہوجائے، اسی پر آنحضرت ﷺ سے کہا جا رہا ہے کہ اے محمد تم ان مشرکوں سے کہہ دو کہ اگر میں ایک اللہ کی عبادت کو چھوڑ کر تمہاری خواہش کے مطابق غیر اللہ کی بندگی شروع کردوں تو یقیناً میں بھی گمراہ ہوجاؤں گا، مجھے اللہ کی طرف سے بتوں کی بندگی کرنے سے ممانعت کردی گئی ہے اگر میں ایسا کروں گا تو ملت ابراہیمی سے تمہاری طرف بھٹک جاؤں گا، اور میں ایسا کر بھی کیسے سکتا ہوں میرے پاس تو اس بات کی قرآنی شہادت موجود ہے کہ ملت ابراہیمی میں بت پرستی کا کہیں پتہ نہیں ہے تم لوگوں نے بےسند ملت ابراہیمی کا بگاڑ دیا ہے قرآن کی آیتوں کی تکذیب کرتے ہو اور جب تم کو خدائی عذاب سے ڈرایا جاتا ہے تو ڈھیٹ بن کر اس عذاب کی جلدی مچاتے ہو، وہ عذاب کچھ میرے اختیار میں نہیں ہے جو تم مجھ سے اس کے جلدی لانیکا مطالبہ کرتے ہو وہ عذاب تو اللہ ہی کے اختیار میں ہے وقت آنے پر اس کا فیصلہ وہ خود فرمائیگا، دنیا میں اس عذاب کا ظہور بدر کی لڑائی کے وقت ہوچکا ہے، مشرکوں میں سے بڑے بڑے سرکش عذاب الہیٰ کی جلدی کرنے والے ستر آدمی بڑی ذلت سے مارے گئے اور ستر فیصد کر لئے گئے، عقبیٰ کا عذاب بھی اللہ کے وعدے کے مطابق وقت مقررہ پر آجائیگا۔
Top