Maarif-ul-Quran - Al-An'aam : 59
وَ عِنْدَهٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُهَاۤ اِلَّا هُوَ١ؕ وَ یَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ١ؕ وَ مَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَةٍ اِلَّا یَعْلَمُهَا وَ لَا حَبَّةٍ فِیْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَ لَا رَطْبٍ وَّ لَا یَابِسٍ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ
وَعِنْدَهٗ : اور اس کے پاس مَفَاتِحُ : کنجیاں الْغَيْبِ : غیب لَا : نہیں يَعْلَمُهَآ : ان کو جانتا اِلَّا : سوا هُوَ : وہ وَيَعْلَمُ : اور جانتا ہے مَا : جو فِي الْبَرِّ : خشکی میں وَالْبَحْرِ : اور تری وَمَا : اور نہیں تَسْقُطُ : گرتا مِنْ : کوئی وَّرَقَةٍ : کوئی پتا اِلَّا : مگر يَعْلَمُهَا : وہ اس کو جانتا ہے وَلَا حَبَّةٍ : اور نہ کوئی دانہ فِيْ : میں ظُلُمٰتِ : اندھیرے الْاَرْضِ : زمین وَلَا رَطْبٍ : اور نہ کوئی تر وَّلَا : اور نہ يَابِسٍ : خشک اِلَّا : مگر فِيْ : میں كِتٰبٍ : کتاب مُّبِيْنٍ : روشن
اور اسی کے پاس کنجیاں ہیں غیب کی کہ ان کو کوئی نہیں جانتا اس کے سوا اور وہ جانتا ہے جو کچھ جنگل اور دریا میں ہے اور نہیں جھڑتا کوئی پتا مگر وہ جانتا ہے اس کو اور نہیں گرتا کوئی دانہ زمین کے اندھیروں میں اور نہ کوئی ہری چیز اور نہ کوئی سوکھی چیز مگر وہ سب کتاب مبین میں ہے
خلاصہ تفسیر
اور اللہ تعالیٰ کے پاس (یعنی اسی کی قدرت میں) ہیں خزانے تمام مخفی اشیاء (ممکنہ) کے (ان میں سے جس چیز کو جس وقت اور جس قدر چاہیں ظہور میں لاتے ہیں، ان اشیاء میں عذاب کی قسمیں بھی آگئیں، مطلب یہ کہ اور کسی کو ان چیزوں پر قدرت نہیں اور جس طرح قدرت کاملہ ان کی ساتھ خاص ہے، اسی طرح ان کا علم تام اور کامل بھی چنانچہ) ان خزائنِ مخفیہ کو کوئی نہیں جانتا بجز اللہ تعالیٰ کے، اور وہ ان تمام چیزوں کو بھی جانتا ہے جو خشکی میں ہیں اور جو دریا میں ہیں اور کوئی پتہ (تک درخت سے) نہیں گرتا مگر وہ اس کو بھی جانتا ہے اور کوئی دانہ (تک) زمین کے تاریک حصوں میں نہیں پڑتا اور نہ کوئی تر اور خشک چیز (مثل پھل وغیرہ کے) گرتی ہے، مگر یہ سب کتاب مبین (یعنی لوح محفوظ) میں (مرقوم) ہیں، اور وہ (اللہ تعالیٰ) ایسا ہے کہ (اکثر) رات میں (سونے کے وقت) تمہاری روح (نفسانی) کو (جس سے احساس و ادراک متعلق ہے) ایک گونہ قبض کرلیتا ہے (یعنی معطل کردیتا ہے) اور جو کچھ تم دن میں کرتے ہو اس کو (دواماً) جانتا ہے پھر تم کو دن میں جگا اٹھاتا ہے تاکہ (اسی سونے جاگنے کے دوران سے) میعاد معین (دینوی زندگی کی) تمام کردی جاوے پھر اسی (اللہ) کی طرف (مڑکر) تم کو جانا ہے۔ پھر تم کو بتلا دے گا جو کچھ تم (دنیا میں) کیا کرتے تھے، (اور اس کے مناسب جزاء و سزاء جاری کرے گا) اور وہی (اللہ تعالیٰ قدرت سے) اپنے بندوں کے اوپر غالب ہیں برتر ہیں اور (اے بندو) تم پر (تمہارے اعمال اور جان کی) نگرانی کرنے والے (فرشتے) بھیجے ہیں (جو زندگی بھر تمہارے اعمال کو بھی دیکھتے ہیں اور تمہاری جان کی بھی حفاظت کرتے ہیں) یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کو موت آپہنچتی ہے تو (اس وقت) اس کی روح ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) قبض کرلیتے ہیں اور ذرا کوتاہی نہیں کرتے (بلکہ جس وقت حفاظت کا حکم تھا حفاظت کرتے رہے، جب موت کا حکم ہوگیا تو یہی محافظ روح قبض کرنے والے فرشتوں کے ساتھ مل جاتے ہیں) پھر سب اپنے مالک حقیقی کے پاس لائے جاویں گے، خوب سن لو (اس وقت) فیصلہ اللہ ہی کا ہوگا (اور کوئی دخل نہ دے سکے گا) اور وہ بہت جلد حساب لے لے گا۔

معارف و مسائل
گناہوں سے بچنے کا نسخہ اکسیر
تمام دنیا کے مذاہب میں اسلام کا طغرائے امتیاز اور اس کا رکن اعظم عقیدہ توحید ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو ایک اور اکیلا جاننے کا نام توحید نہیں، بلکہ اس کو تمام صفات کمال میں یکتا و بےمثل ماننے اور اس کے سوا کسی مخلوق کو ان صفات کمال میں اس کا سہیم و شریک نہ سمجھنے کو توحید کہتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی صفات کمال ؛ حیات، علم، قدرت، سمع، بصر، ارادہ، مشیت، خلق، رزق وغیرہ وہ ان سب صفات میں ایسا کامل ہے کہ اس کے سوا کوئی مخلوق کسی صفات میں اس کے برابر نہیں ہوسکتی۔ پھر ان صفات میں بھی دو صفتیں سب سے زیادہ ممتاز ہیں۔ ایک علم، دوسرے قدرت، اس کا علم بھی تمام موجود وغیر موجود، ظاہر اور مخفی، بڑے اور چھوٹے ہر ذرہ ذرہ پر حاوی اور محیط ہے، اور اس کی قدرت بھی ان سب پر پوری پوری محیط ہے، مذکورہ دو آیتوں میں انہی دو صفتوں پر مکمل یقین اور اس کے استحضار کی کیفیت پیدا کرے تو اس سے کوئی جرم و گناہ سرزد ہو ہی نہیں سکتا۔ ظاہر ہے کہ اگر ایک انسان کو اپنے پر قول و عمل اور نشست و برخاست میں ہر قدم پر یہ مستحضر رہے کہ ایک علیم وخبیر قادر مطلق مجھے ہر وقت دیکھ رہا ہے، اور میرے ظاہر و باطن اور دل کے ارادہ اور خیال تک سے واقف ہے تو یہ استحضار کبھی اس کا قدم اس قادر مطلق کی نافرمانی کی طرف نہ اٹھنے دے گا، اس لئے یہ دونوں آیتیں انسان کو انسان کامل بنانے اور اس کے اعمال و اخلاق کو درست کرنے اور درست رکھنے میں نسخہ اکسیر ہیں۔
پہلی آیت میں ارشاد فرمایاوَعِنْدَهٗ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَآ اِلَّا هُوَ لفظ مفاتح جمع ہے، اس کا مفرد مفتح بفتح میم بھی ہوسکتا ہے، جو خزانہ کے لئے بولا جاتا ہے، اور مفتح بکسر میم بھی ہوسکتا ہے۔ جس کے معنی ہیں کنجی، لفظ مفاتح میں دونوں معنی کی گنجائش ہے، اس لئے بعض مفسرین اور مترجمین نے اس کا ترجمہ خزانوں سے کیا ہے، اور بعض نے کنجیوں سے اور حاصل دونوں کا ایک ہی ہے، کیونکہ کنجیوں کا مالک ہونے سے بھی خزانوں کا مالک ہونا مراد ہوتا ہے۔
قرآنی اصطلاح میں علم غیب اور قدرت عامہ مطلقہ صرف اللہ تعالیٰ کی صفت خاص ہے کوئی مخلوق اس میں شریک نہیں
اور لفظ غیب سے مراد وہ چیزیں ہیں جو ابھی وجود میں نہیں آئیں، یا وجود میں تو آچکی ہیں، مگر اللہ تعالیٰ نے ان پر کسی کو مطلع نہیں ہونے دیا (مظہری)۔ پہلی قسم کی مثال وہ تمام حالات و واقعات ہیں جو قیامت سے متعلق ہیں یا کائنات میں آئندہ پیش آنے والے واقعات سے تعلق رکھتے ہیں، مثلاً یہ کہ کون، کب، اور کہاں پیدا ہوگا، کیا کیا کام کرے گا۔ کتنی عمر ہوگی، عمر میں کتنے سانس لے گا، کتنے قدم اٹھائے گا، کہاں مرے گا، کہاں دفن ہوگا، رزق کس کو کتنا اور کس وقت ملے گا، بارش کس وقت کہاں اور کتنی ہوگی۔
اور دوسری قسم کی مثال وہ حمل جو عورت کے رحم میں وجود تو اختیار کرچکا ہے مگر یہ کسی کو معلوم نہیں کہ لڑکا ہے یا لڑکی۔ خوب صورت ہے یا بدصورت، نیک طبیعت ہے یا بدخصلت، اسی طرح اور ایسی چیزیں جو وجود میں آجانے کے باوجود مخلوق کے علم و نظر سے غائب ہیں۔
وَعِنْدَهٗ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ کے معنی یہ ہوئے کہ اللہ کے پاس ہیں خزانے غیب کے۔ اس کے پاس ہونے سے مراد اس کی ملک اور قبضہ میں ہونا ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ غیب کے خزانوں کا علم بھی اس کے قبضہ میں ہے، اور ان کو وجود و ظہور میں لانا بھی اسی کی قدرت میں ہے کہ کب کب اور کتنا کتنا وجود میں آئے گا۔ جیسا کہ قرآن کریم کی ایک دوسری آیت میں مذکور ہے(آیت) وان من شیء الا عندنا، یعنی ہمارے پاس ہر چیز کے خزانے ہیں مگر ہم ہر چیز کو ایک خاص انداز سے نازل کرتے ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ اس جملہ سے حق تعالیٰ کا بےمثال کمال علمی بھی ثابت ہوگیا اور کمال قدرت بھی، اور یہ بھی کہ یہ علم محیط اور قدرت مطلقہ صرف اللہ جل شانہ کی صفت ہے اور کسی کو حاصل نہیں ہوسکتی، آیت میں لفظ عندہ کو مقدم کرکے قواعد عربیت کے مطابق اس حصر اور اختصاص کی طرف اشارہ کردیا گیا ہے، آگے اس اشارہ کو صراحت میں تبدیل کر کے پوری طرح دلنشین کرنے کے لئے ارشاد فرمایالَا يَعْلَمُهَآ اِلَّا هُوَ ، یعنی ان خزائنِ غیب کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
اس لئے اس جملہ سے دو باتیں ثابت ہوئی، اول حق تعالیٰ کا تمام غیب کی چیزوں پر علم محیط کے ساتھ مطلع اور ان سب پر قدرت کامل کے ساتھ قادر ہونا، دوسرے ذات حق جل شانہ کے سوا کسی مخلوق یا کسی چیز کو ایسا علم وقدرت حاصل نہ ہونا۔
قرآن کی اصطلاح میں لفظ غیب کے جو معنی (بحوالہ تفسیر مظہری) اوپر بیان کئے گئے ہیں، کہ وہ چیزیں جو ابھی وجود میں نہیں آئیں یا آچکی ہیں مگر ابھی تک کسی مخلوق پر ان کا ظہور نہیں ہوا۔ اگر ان کو پیش نظر رکھا جائے تو مسئلہ غیب پر سطحی نظر میں جو جو شبہات عوام کو پیش آیا کرتے ہیں خود بخود ختم ہوجائیں۔
لیکن عام طور پر لوگ لفظ غیب کے لغوی معنی لیتے ہیں کہ جو چیز ہمارے علم و نظر سے غائب ہو، خواہ دوسروں کے نزدیک اس کا علم حاصل کرنے کے ذرائع موجود ہوں اس کو بھی غیب کہنے لگتے ہیں، اس کے نتیجہ میں طرح طرح کے شبہات سامنے آتے ہیں، مثلاً علم، نجوم، جفر، رمل، یا ہتھیلی کی لکیروں وغیرہ سے جو آئندہ واقعات کا علم حاصل کیا جاتا ہے یا کشف والہام کے ذریعہ کسی شخص کو واقعات آئندہ کا علم ہوجاتا ہے، یا مان سون کا رخ اور اس کی قوت و رفتار کو دیکھ کر موسمیات کے ماہرین ہونے والے بادو باراں کے متعلق پیشین گوئیاں کرتے ہیں، اور ان میں بہت سی باتیں صحیح بھی ہوجاتی ہیں، یہ سب چیزیں عوام کی نظر میں علم غیب ہوتی ہیں، اس لئے آیت مذکورہ پر یہ شبہات ہونے لگتے ہیں کہ قرآن حکیم نے تو علم غیب کو ذات حق جل شانہ کی خصوصیت بتلایا ہے، اور مشاہدہ یہ ہے کہ وہ دوسروں کو بھی حاصل ہوجاتا ہے۔
جواب واضح ہے کہ کشف والہام یا وحی کے ذریعہ اگر اللہ تعالیٰ نے اپنے کسی بندہ کو کسی آئندہ واقعہ کی اطلاع دے دیتو قرآنی اصطلاح میں وہ علم غیب نہ رہا۔ اسی طرح اسباب و آلات کے ذریعہ جو علم حاصل کیا جاسکے وہ بھی اصطلاح قرآنی کے لحاظ سے علم غیب نہیں۔ جیسے محکمہ موسمیات کی خبریں، یا نبض دیکھ کر مریض کے مخفی حالات بتلا دینا۔ وجہ یہ ہے کہ محکمہ موسمیات کو یا کسی حکیم ڈاکٹر کو ایسی خبریں دینے کا موقع جب ہی ہاتھ آیا جب ان واقعات کا مادہ پیدا ہو کر ظاہر ہوجاتا ہے، فرق اتنا ہے کہ ابھی اس کا ظہور عام نہیں ہوتا آلات کے ذریعہ اہل فن کو ظاہر ہوتا ہے، عوام بیخبر رہتے ہیں اور جب یہ مادہ قوی ہوجاتا ہے تو اس کا ظہور عام ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محکمہ موسمیات مہینہ دو مہینہ بعد ہونے والی بارش کی خبر آج نہیں دے سکتا۔ کیونکہ ابھی اس بارش کا مادہ سامنے نہیں آیا، اسی طرح کوئی حکیم ڈاکٹر سال دو سال پہلے کی کھائی ہوئی یا دو سال بعد کھائی جانے والی دوا یا غذا وغیرہ کا پتہ آج نبض دیکھ کر نہیں دے سکتا، کیونکہ اس کا کوئی اثر عادةً نبض میں نہیں ہوتا۔
خلاصہ یہ ہے کہ یہ سب چیزیں وہ ہیں کہ کسی چیز کے آثار و نشانات دیکھ کر اس کے وجود کی خبر دے دیجاتی ہے۔ اور جب اس کے آثار و نشانات اور مادہ ظاہر ہوچکا تو اب وہ غیب میں شامل نہ رہا بلکہ مشاہدہ میں آگیا۔ البتہ لطیف یا ضعیف ہونے کی وجہ سے عام مشاہدہ میں ابھی نہیں آیا، جب قوت پکڑے گا تو عام مشاہدہ میں بھی آجائے گا۔
اس کے علاوہ ان سب چیزوں سے حاصل ہونے والی واقفیت سب کچھ ہونے کے بعد بھی تخمینہ و اندازہ ہی کی حیثیت رکھتی ہی، علم جو یقین کا نام ہے وہ ان میں سے کسی چیز سے کسی کو حاصل نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ ان خبروں کے غلط ہونے کے بیشمار واقعات آئے دن پیش آتے رہتے ہیں۔
رہا علم نجوم وغیرہ سو اس میں جو چیزیں حسابات سے متعلق ہیں ان کا علم تو علم ہے۔ مگر وہ غیب نہیں۔ جیسے حساب لگا کر کوئی یہ کہے کہ آج 5 بج کر اکتالیس منٹ پر آفتاب طلوع ہوگا یا فلاں مہینہ فلاں تاریخ کو چاند گرہن ہوگا۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک محسوس چیز کی رفتار کا حساب لگا کر وقت کا تعین کرنا ایسا ہی ہے جیسے ہم ہوائی جہازوں اور ریلوں کے کسی پورٹ یا اسٹیشن پر پہنچنے کی خبر دیدتے ہیں۔ اس کے علاوہ نجوم وغیرہ سے جو خبریں معلوم کرنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے وہ دھوکہ کے سوا کچھ نہیں سو جھوٹ میں ایک سچ نکل آنا کوئی علم نہیں۔
حمل میں لڑکا ہے یا لڑکی، اس کے بارے میں بھی بہت سے اہل فن کچھ کہا کرتے ہیں، مگر تجربہ شاہد ہے کہ اس کا درجہ بھی وہی تخمینہ و اندازے کا ہے یقینی نہیں اور سو میں دو چار کا صحیح ہوجانا ایک طبعی امر ہے، وہ کسی علم و آگہی سے تعلق نہیں رکھتا۔
ہاں جب ایکسرے کے آلات ایجاد ہوئے تو بعض لوگوں کا خیال تھا کہ شاید اس کے ذریعہ حمل کا نر یا مادہ ہونا معلوم ہوجایا کرے گا۔ مگر تجربہ نے ثابت کردیا کہ ایکسرے کے آلات بھی یہ متعین نہیں کرسکتے کہ حمل میں لڑکا ہے یا لڑکی۔
خلاصہ یہ ہے کہ جو چیز قرآنی اصطلاح میں غیب ہے اس کا سوائے خدائے قدوس کے کسی کو علم نہیں، اور جن چیزوں کا علم لوگوں کو بعض اسباب و آلات کے ذریعہ عادةً حاصل ہوجاتا ہے وہ در حقیقت غیب نہیں، گو ظہور عام نہ ہونے کی وجہ سے اس کو غیب کہتے ہوں۔
اسی طرح کسی رسول و نبی کو بذریعہ وحی یا کسی ولی کو بذریعہ کشف والہام جو غیب کی کچھ چیزوں کا علم دے دیا گیا تو وہ غیب کی حدود سے نکل گیا، اس کو قرآن میں غیب کی بجائے انباء الغیب کہا گیا ہے۔ جیسا کہ متعدد آیات میں مذکور ہے(آیت) تلک من انباء الغیب نوحیھا الیک، اس لئے آیت مذکورہ میں لَا يَعْلَمُهَآ اِلَّا هُوَ ، یعنی غیب کے خزانوں کو بجز اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا، اس میں کسی شبہ یا استثناء کی گنجائش نہیں۔
اس جملہ میں تو حق جل شانہ کی یہ خصوصی صفت بتلائی ہے کہ وہ عالم الغیب ہے، ہر غیب کو جانتا ہے، بعد کے جملوں میں غیب کے بالمقابل علم شہادت یعنی حاضر و موجود چیزوں کے علم کا بیان ہے کہ ان کا علم میں بھی اللہ جل شانہ کی یہ خصوصیت ہے کہ اس کا علم محیط ہے کوئی ذرہ اس سے باہر نہیں، ارشاد فرمایا کہ وہی جانتا ہے ہر اس چیز کو جو خشکی میں ہے اور اس چیز کو جو دریا میں ہے اور کوئی پتہ کسی درخت کا نہیں گرتا جس کا علم اس کو نہ ہو، اسی طرح کوئی دانہ جو زمین کے تاریک حصہ میں مستور ہے وہ بھی اس کے علم میں ہے، اور ہر تر و خشک میں کل کائنات کا ذرہ ذرہ اس کے علم میں ہے اور لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ علم کے متعلق دو چیزیں حق تعالیٰ کی خصوصیات میں سے ہیں، جن میں کوئی فرشتہ یا رسول یا کوئی دوسری مخلوق شریک نہیں، ایک علم غیب، دوسرے موجودات کا علم محیط جس سے کوئی ذرہ مخفی نہیں، پہلی آیت میں انہی دونوں مخصوص صفات کا بیان اس طرح ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اس کے پہلے جملہ میں پہلی خصوصیت کا بیان ہے، وَعِنْدَهٗ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَآ اِلَّا هُوَ اور بعد کے جملوں میں تمام کائنات و موجودات کے علم محیط کا ذکر اس طرح فرمایا کہ پہلے ارشاد ہوا وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ، یعنی اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے ہر اس چیز کو جو خشکی میں ہے اور جو دریا میں ہے۔ مراد اس سے کل کائنات و موجودات ہے، جیسے صبح و شام کا لفظ بول کر پورا زمانہ اور مشرق و مغرب کا لفظ بول کر پوری زمین مراد لی جاتی ہے، اسی طرح بر و بحر یعنی خشکی و دریا بول کر مراد اس سے پورے عالم کی کائنات و موجودات ہیں اس سے معلوم ہوا کہ اللہ جل شانہ کا علم تمام کائنات پر محیط ہے۔
آگے اس کی مزید تشریح و تفصیل اس طرح بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کا تمام کائنات پر احاطہ علمی صرف یہی نہیں کہ بڑی بڑی چیزوں کا اس کو علم ہو، بلکہ ہر چھوٹی سے چھوٹی مخفی سے مخفی چیز بھی اس کے علم میں ہے، فرمایا وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَةٍ اِلَّا يَعْلَمُهَا یعنی سارے جہان میں کسی درخت کا کوئی پتہ نہیں گرتا جو اس کے علم میں نہ ہو، مراد یہ ہے کہ ہر درخت کا ہر پتہ گرنے سے پہلے اور گرنے کے وقت اور گرنے کے بعد اس کے علم میں ہے، وہ جانتا ہے کہ ہر پتہ درخت پر لگا ہوا کتنی مرتبہ الٹ پلٹ ہوگا، اور کب اور کہاں گرے گا، اور پھر وہ کس کس حال سے گزرے گا۔ گرنے کا ذکر شاید اسی لئے کیا گیا ہے کہ اس کے تمام حالات کی طرف اشارہ ہوجائے، کیونکہ پتے کا درخت سے گرنا اس کے نشوونما اور نباتی زندگی کا آخری حال ہے۔ آخری حال کا ذکر کرکے تمام حالات کی طرف اشارہ کردیا گیا۔
اس کے بعد ارشاد فرمایا وَلَا حَبَّةٍ فِيْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ ، یعنی ہر وہ دانہ جو زمین کی گہرائی اور اندھیری میں کہیں پڑا ہے وہ بھی اس کے علم میں ہے، پہلے درخت کے پتہ کا ذکر کیا جو عام نظروں کے سامنے گرتا ہے، اس کے بعد دانہ کا ذکر کیا، جو کاشتکار زمین میں ڈالتا ہے، یا خودبخود کہیں زمین کی گہرائی اور اندھیری میں مستور ہوجاتا ہے، اس کے بعد پھر تمام کائنات پر علم باری تعالیٰ کا حادی ہونا تر اور خشک کے عنوان سے ذکر فرمایا، اور فرمایا کہ یہ سب چیزیں اللہ کے نزدیک کتاب مبین میں لکھی ہوئی ہیں، کتاب مبین سے مراد بعض حضرات مفسرین کے نزدیک لوح محفوظ ہے، اور بعض نے فرمایا کہ اس سے مراد علم الٓہی ہے، اور اس کو کتاب مبین سے اس لئے تعبیر کیا گیا ہے کہ جیسے لکھی ہوئی چیز محفوظ ہوجاتی ہے، اس میں سہو و نسیان کی راہ نہیں رہتی اسی طرح اللہ جل شانہ کا یہ علم محیط تمام کائنات کے ذرہ ذرہ کا صرف تخمینی نہیں بلکہ یقینی ہے۔
قرآن مجید کی بہت سی آیات اس پر شاید ہیں کہ اس طرح کا علم محیط جس سے کائنات کا کوئی ذرہ اور اس کا کوئی حال خارج نہ ہو یہ صرف ذات حق جل شانہ کے ساتھ مخصوص ہے۔
سورة لقمان میں ہے
(آیت) انھا ان تک مثقال حبة من۔ یعنی اگر کوئی دانہ رائی کے برابر پھر وہ پتھر کے جگر میں پیوست ہو یا آسمانوں میں یا زمین میں کہیں ہو اللہ تعالیٰ ان سب کو جمع کرلیں گے، بیشک اللہ تعالیٰ لطیف اور ہر چیز سے خبردار ہے“۔
آیة الکرسی میں ہے
(آیت) یعلم ما بین ایدھم وما خلفھم۔ ”یعنی اللہ تعالیٰ سب انسانوں کے اگلے اور پچھلے سب حالات سے واقف ہیں اور سارے انسان مل کر اس کے علم میں سے کسی ایک چیز کا بھی احاطہ نہیں کرسکتے، بجز اتنے علم کے اللہ تعالیٰ کسی کو دینا چاہیں“۔
سورة یونس میں ہے
(آیت) وما یعزب عن ربک من مثقال
”یعنی ایک ذرّہ کے برابر بھی کوئی چیز زمین و آسمان میں آپ کے رب کے علم سے جدا نہیں ہے“۔
اور سورة طلاق میں ہے
(آیت) وان اللّٰہ قد احاط بکل شیء علما
”یعنی اللہ تعالیٰ کا علم ہر چیز پر محیط ہے“۔
اسی طرح بیشمار آیات میں یہ مضمون مختلف عنوانات سے آیا ہوا ہے، خلاصہ یہ ہے کہ ان آیات میں بڑی وضاحت اور صراحت کے ساتھ یہ بیان فرما دیا گیا ہے کہ غیب کا علم (جس کو قرآن میں غیب کہا گیا ہے اور اس کی تفسیر اوپر گزر چکی ہے) یا تمام کائنات کا علم محیط صرف اللہ جل شانہ کی مخصوص صفت ہے، کسی فرشتہ یا رسول کے علم کو اسی طرح ہر ذرّہ کائنات پر محیط سمجھنا وہ عیسائیوں کی طرح رسول کو خدا کا درجہ دیدینا ہے اور خدا تعالیٰ کے برابر قرار دیدینا ہے جو بتصریح قرآن کریم شرک ہے، سورة شعراء میں شرک کی یہی حقیقت بیان فرمائی گئی ہے
(آیت) تاللّٰہ ان کنا لفی ضلل مبین
”یعنی قیامت کے روز مشرکین کہیں گے کہ بخدا ہم سخت گمراہی میں تھے کہ تم کو یعنی بتوں کو رب العالمین کے برابر کرتے تھے“۔
بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء (علیہم السلام) کو اور بالخصوص حضرت خاتم الانبیاء ﷺ کو غیب کی ہزاروں لاکھوں چیزوں کا علم عطا فرمایا ہے اور سب فرشتوں اور انبیاء سے زیادہ عطا فرمایا ہے، لیکن یہ ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کی برابر کسی کا علم نہیں، نہ ہوسکتا ہے، ورنہ پھر یہ رسول کی تعظیم کا وہ غلو ہوگا جو عیسائیوں نے اختیار کیا، کہ رسول کو خدا کے برابر ٹھہرا دیا، اسی کا نام شرک ہے، نعوذ باللہ منہ۔
Top