Tadabbur-e-Quran - Al-An'aam : 59
وَ اِنْ تَدْعُوْهُمْ اِلَى الْهُدٰى لَا یَسْمَعُوْا١ؕ وَ تَرٰىهُمْ یَنْظُرُوْنَ اِلَیْكَ وَ هُمْ لَا یُبْصِرُوْنَ
وَاِنْ : اور اگر تَدْعُوْهُمْ : تم پکارو انہیں اِلَى : طرف الْهُدٰى : ہدایت لَا يَسْمَعُوْا : نہ سنیں وہ وَ : اور تَرٰىهُمْ : تو انہیں دیکھتا ہے يَنْظُرُوْنَ : وہ تکتے ہیں اِلَيْكَ : تیری طرف وَهُمْ : حالانکہ لَا يُبْصِرُوْنَ : نہیں دیکھتے ہیں وہ
اور غیب کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں۔ اس کے سوا ان کو کوئی نہیں جانتا۔ بر و بحر میں جو کچھ ہے اس سے وہ واقف ہے کوئی پتا نہیں گرتا مگر وہ اس کو جانتا ہے اور نہ زمین کی تہوں ٰں کوئی دانہ گرتا اور نہ کوئی تر اور خشک چیز ہے مگر وہ ایک روشن کتاب میں مندرج ہے۔
مفاتح، مفتح، کی جمع ہے جس کے معنی کنجی کے ہیں۔ یعنی غیب کے خزانوں کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں، اس کے سوا ان کا علم کسی کے پاس نہیں ہے۔ یہی مضمون دوسرے الفاظ میں یوں بیان ہوا ہے لہ مقالید السموات والارض یبسط الرزق لمن یشاء و یقدر (شوری :12) ، اسی کے قبضہ میں ہیں آسمانوں اور زمین کنجیاں، وہ جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ کردیتا ہے، جس کے چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے۔ بر و بحر، اور رطب و یابس وگیرہ الفاط احاطہ کے مضمون کو ظاہر کرتے ہیں۔ یعنی خدا کا علم ہر چیز کو محیط ہے۔ ظلمات الارض سے مراد زمین کی تہیں اور اس کے طبقات ہیں۔ علمِ الٰہی اور توحید و آخرت کا باہمی ربط : یہ اوپر والے مضمون کی مزید توسیع ہے۔ جب فرمایا کہ میرے اختیار میں وہ چیز نہیں ہے جس کے لیے تم جلدی مچائے ہوئے ہو۔ اس امر میں فیصلہ کا اختیار صرف خدا کو ہے، تو علم الٰہی کی وسعت اور اس کے احاطہ کے بیان کے لیے ایک نہایت موزوں تقریب پیدا ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ کے علم کی اس وسعت کا اعتقاد ہی ہے جو اہل ایمان کے اندر کامل تفویض، کامل اعتماد اور کامل رضا بالقضا کا حوصلہ پیدا کرتا ہے۔ اس عمولی غلط فہمی بھی شرک کی راہیں کھول دیتی ہے۔ یہی چیز آخرت پر سچے اور کے ایمان کی بنیاد ہے اور اسی کے صحیح تصور و تذکر سے انسان کے اندر وہ خشیت بھی پیدا ہوتی ہے جو زندگی میں اس کو صحیح روش اختیار کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔ قرآن کے اس بیان سے ان لوگوں کی بھی پوری پوری تردید ہوگئی جو خدا کو صرف کلیات کا عالم مانتے ہیں۔ خدا صرف کلیات ہی کا نہیں بلکہ تمام جزئیات کا بھی عالم ہے۔ درخت سے جو پتا گرتا ہے، زمین کی تہوں میں جو دانہ ڈالا جاتا ہے، سب اس کے علم میں ہوتا ہے اور ہر خشک و تر اس کے رجسٹر میں درج ہے اور یہ رجسٹر ایسا نہیں ہے جس میں اس کو کوئی چیز ڈھونڈنی پڑتی ہو بلکہ اس کی ہر چیز ہر آن بالکل واضح ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے محیط کل علم کی ایک تعبیر ہے۔
Top