Maarif-ul-Quran - Al-Qalam : 33
كَذٰلِكَ الْعَذَابُ١ؕ وَ لَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ اَكْبَرُ١ۘ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ۠   ۧ
كَذٰلِكَ : اسی طرح ہوتا ہے۔ ایسا ہوتا ہے الْعَذَابُ : عذاب وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ : اور البتہ عذاب آخرت کا اَكْبَرُ : زیادہ بڑا ہے لَوْ كَانُوْا : کاش وہ ہوتے يَعْلَمُوْنَ : وہ جانتے
یوں آتی ہے آفت اور آخرت کی آفت تو سب سے بڑی ہے اگر ان کو سمجھ ہوتی
كَذٰلِكَ الْعَذَابُ۔ اہل مکہ کے عذاب قحط کا اجمالی اور باغ والوں کے کھیت جل جانے کا تفصیلی ذکر فرمانے کے بعد عام ضابطہ ارشاد فرمایا کہ جب اللہ کا عذاب آتا ہے تو اسی طرح آیا کرتا ہے اور دنیا میں عذاب آجانے سے بھی ان کے آخرت کے عذاب کا کفارہ نہیں ہوتا بلکہ آخرت کا عذاب اس کے علاوہ اور اس سے زیادہ سخت ہوتا ہے۔
اگلی آیات میں اول نیک متقی بندوں کی جزاء کا ذکر ہے اور اس کے بعد مشرکین مکہ کے ایک اور باطل دعوے کا رد ہے۔ وہ یہ کہ کفار مکہ کرتے تھے کہ اول تو قیامت آنے والی نہیں اور دوبارہ زندہ ہو کر حساب کتاب کا قصہ سب افسانہ ہے اور اگر بالفرض ایسا ہو بھی گیا تو ہمیں وہاں بھی ایسی ہی نعمتیں اور مال و دولت ملے گا جیسا دنیا میں ملا ہوا ہے، اس کا جواب کئی آیتوں میں میں دیا گیا ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ نیک بندوں اور مجرمین کو برابر کردیں گے یہ کیسا عجیب و غریب فیصلہ ہے جس پر نہ کوئی سند نہ دلیل نہ کسی آسمانی کتاب سے اس کا ثبوت نہ اللہ کی طرف سے کوئی وعدہ وعید کہ وہاں بھی تمہیں نعمت دے گا۔
قیامت کی ایک عقلی دلیل۔ ان آیات مذکورہ سے ثابت ہوا کہ قیامت آنا اور حساب کتاب ہونا اور نیک و بد کی جزا و سزاء یہ سب عقلاً ضروری ہے کیونکہ اس کا تو دنیا میں ہر شخص مشاہدہ کرتا ہے اور کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ دنیا میں جو عموماً فساق فجار بدکار ظالم چورا اور ڈاکو ہیں نفع میں رہتے اور مزے اڑاتے ہیں، ایک چور اور ڈاکو ایک رات میں بعض اوقات اتنا کمال یتا ہے کہ شریف نیک آدمی عمر بھر میں بھی نہ کما سکے۔ پھر وہ نہ خوف خدا و آخرت کو جانتا ہے نہ کسی شرم و حیا کا پابند ہے اپنے نفس کی خواہشات کو جس طرح چاہے پورا کرتا ہے اور نیک شریف آدمی اول تو خدا سے ڈرتا ہے وہ بھی نہ ہو تو برادری کی شرم و حیا سے مغلوب ہوتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ دنیا کے کارخانے میں تو بدکار بدمعاش کامیاب اور نیک شریف آدمی ناکام نظر آتا ہے اب اگر آگے بھی کوئی ایسا وقت نہ آئے جس میں حق و ناحق کا صحیح انصاف ہو نیک کو اچھا بدلہ ملے بد کو سزا ملے تو پھر اول تو کسی برائی کو برائی اور گناہ کو گناہ کہنا لغو و بےمعنے ہوجاتا ہے کہ وہ ایک انسان کو بلاوجہ اس کی خواہشات سے روکنا ہے دوسرے پھر عدل و انصاف کے کوئی معنے باقی نہیں رہتے جو لوگ خدا کے وجود کے قائل ہیں وہ اس کا کیا جواب دیں گے کہ خدا تعالیٰ کا انصاف کہاں گیا۔
رہا یہ شبہ کو دنیا میں بسا اوقات مجرم پکڑا جاتا ہے اس کی رسوائی ہوتی ہے سزا پاتا ہے شریف آدمی کا امتیاز اس سے یہیں واضح ہوجاتا ہے اور عدل و انصاف حکومتوں کے قوانین سے قائم ہوجاتا ہے۔ یہ اسلئے غلط ہے کہ اول تو ہر جگہ اور ہر حال میں حکومت کی نگرانی ہو ہی نہیں سکتی، جہاں ہوجاوے وہاں عدالتی ثبوت ہر جگہ بہم پہنچنا آسان نہیں جس کے ذریعہ مجرم سزا پا سکے اور جہاں ثبوت بھی بہم پہنچ جائے تو زور و زر اور رشوت ہر جگہ بہم پہنچنا آسان نہیں جس کے ذریعہ مجرم سزا پا سکے اور جہاں ثبوت بھی بہم پہنچ جائے تو زور و زر اور رشوت و سفارش اور دباؤ کے کتنے چور دروازے ہیں جن سے مجرم نکل بھاگتا ہے اور اس زمانے کی حکومتی اور عدالتی جرم و سزا کا جائزہل یا جائے تو اس وقت تو سزا صرف وہ بیوقوف بےعقل یا بےسہارا آدمی پاتا ہے جو ہوشیاری سے کوئی چور دروازہ نہ نکال سکے اور جس کے پاس نہ رشوت کے لئے پیسے ہوں نہ کوئی بڑا آدمی اس کا مددگار ہو یا پھر وہ اپنی بےوقوفی سے ان چیزوں کو استعمال نہ کرسکے۔ باقی سب مجرم آزاد پھرتے ہیں۔
Top