Ahsan-ul-Bayan - Al-Maaida : 34
الٓمّٓصٓۚ
الٓمّٓصٓ : المص
المص
خلاصہ مضامین سورة
تمام سورة پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں زیادہ تر مضامین معاد (آخرت) اور رسالت سے متعلق ہیں، اور پہلی ہی آیت كِتٰبٌ اُنْزِلَ میں نبوت کا اور آیت نمبر 6 میں فَلَنَسْــــَٔـلَنَّ میں معاد و آخرت کی تحقیق کا مضمون ہے، اور رکوع چہارم کے نصف سے رکوع ششم کے ختم تک بالکل آخرت کی بحث ہے۔ پھر رکوع ہشتم سے اکیسویں رکوع تک وہ معاملات مذکور ہیں جو انبیاء (علیہم السلام) اور ان کی امتوں سے ہوئے ہیں۔ یہ سب مسئلے رسالت سے متعلق ہیں، اور ان قصص میں ساتھ ساتھ منکرین رسالت کی سزاؤں کا بھی ذکر چلا آیا ہے، تاکہ منکرین موجودین کو عبرت حاصل ہو، اور رکوع بائیس کے نصف سے تیئیس کے ختم تک پھر معاد کی بحث ہے، صرف ساتویں اور بائیسویں رکوع کے شروع میں اور آخری رکوع چوبیس کے اکثر حصہ میں توحید پر خاص بحث ہے، باقی بہت کم حصہ سورة کا ایسا ہے جس میں جزوی فروعی احکام بمناسب مقام مذکور ہیں (بیان القرآن)

خلاصہ تفسیر
الٓمٓصٓ، (اس کے معنی تو اللہ تعالیٰ ہی کے علم میں ہیں اور اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ﷺ کے درمیان ایک راز ہے، جس پر امت کو اطلاع نہیں دی گئی بلکہ اس کی جستجو کو بھی منع کیا گیا، کِتٰب اُنزِل اِلَیک الخ) یہ (قرآن) ایک کتاب ہے جو (اللہ کی جانب سے) آپ ﷺ کے پاس اس لئے بھیجی گئی ہے کہ آپ ﷺ اس کے ذریعہ (لوگوں کو سزائے نافرمانی سے) ڈرائیں، سو آپ ﷺ کے دل میں (کسی کے نہ ماننے سے) بالکل تنگی نہ ہونی چاہئے (کیونکہ کسی کے نہ ماننے سے آپ ﷺ کے اصل مقصد بعثت میں جو کہ حق بات پہنچانے کا ہے کوئی خلل نہیں آتا، پھر آپ ﷺ کیوں دل تنگ ہوں) اور یہ (قرآن خصوصیت کے ساتھ) نصیحت ہے ایمان والوں کے لئے (آگے عام امت کو خطاب ہے کہ جب قرآن کا منّزل من اللہ ہونا ثابت ہوگیا تو) تم لوگ اس (کتاب کا) اتباع کرو جو تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے آئی ہے (اتباع کتاب یہ ہے کہ اس کی دل سے تصدیق بھی کرو اور اس پر عمل بھی) اور خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر (جس نے تمہاری ہدایت کے لئے قرآن نازل کیا) دوسرے رفیقوں کا اتباع مت کرو، (جو تم کو گمراہ کرتے ہیں جیسے شیاطین الجن والانس مگر باوجود اس مشفقانہ فہمائش کے) تم لوگ بہت ہی کم نصیحت مانتے ہو، اور کتنی ہی بستیاں ہیں کہ ان کو (یعنی ان کے رہنے والوں کو ان کے کفر و تکذیب کی بناء پر) ہم نے تباہ و برباد کردیا اور ان پر ہمارا عذاب (یا تو) رات کے وقت پہنچا (جو سونے اور آرام کرنے کا وقت ہے) یا ایسی حالت میں (پہنچا) کہ وہ دوپہر کے وقت آرام میں تھے (یعنی کسی کو کسی وقت کسی کو کسی وقت) سو جس وقت ان پر ہمارا عذاب آیا اس وقت ان کے منہ سے بجز اس کے اور کوئی بات نہ نکلتی تھی کہ واقعی ہم ظالم (اور خطاوار) تھے (یعنی ایسے وقت اقرار کیا جب کہ اقرار کا وقت گزر چکا تھا، یہ تو دنیوی عذاب ہوا) پھر (اس کے بعد آخرت کے عذاب کا سامان ہوگا کہ قیامت میں) ہم ان لوگوں سے (بھی) ضرور پوچھیں گے جن کے پاس پیغمبر بھیجے گئے تھے (کہ تم نے پیغمبروں کا کہنا مانا یا نہیں) اور ہم پیغمبروں سے ضرور پوچھیں گے (کہ تمہاری امتوں نے تمہارا کہنا مانا یا نہیں ؟ (آیت) یوم یجمع اللہ الرسل فیقول ماذا اجبتم، اور دونوں سوالوں سے مقصود کفار کو زجر و تنبیہ ہوگی) پھر چونکہ ہم پوری خبر رکھتے ہیں خود ہی (سب کے روبرو ان کے اعمال کو) بیان کردیں گے، اور ہم (عمل کے وقت اور جگہ سے) غائب تو نہ تھے۔
Top