Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Maaida : 34
اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَقْدِرُوْا عَلَیْهِمْ١ۚ فَاعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠ ۧ
اِلَّا
: مگر
الَّذِيْنَ تَابُوْا
: وہ لوگ جنہوں نے توبہ کرلی
مِنْ قَبْلِ
: اس سے پہلے
اَنْ
: کہ
تَقْدِرُوْا
: تم قابو پاؤ
عَلَيْهِمْ
: ان پر
فَاعْلَمُوْٓا
: تو جان لو
اَنَّ
: کہ
اللّٰهَ
: اللہ
غَفُوْرٌ
: بخشنے والا
رَّحِيْمٌ
: رحم فرمانے والا
مگر جو لوگ تمہارے قابو پانے سے پہلے ہی توبہ کرلیں تو سمجھ لو کہ اللہ مغفرت فرمانے والا اور مہربان ہے
اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَقْدِرُوْا عَلَیْھِمْ ج فَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہ َ غَفُوْرٌ رَّحِیْمُٗ ۔ (المائدہ : 34) ” مگر جو لوگ تمہارے قابو پانے سے پہلے ہی توبہ کرلیں تو سمجھ لو کہ اللہ مغفرت فرمانے والا اور مہربان ہے “۔ اگر یہ باغی لوگ اور یہ بڑے بڑے جرائم پیشہ افراد حکومت کی دسترس میں آنے سے پہلے توبہ کر کے اپنے رویے کی اصلاح کرلیں تو پھر ان کے خلاف ان کے سابق رویہ کی بنا پر ان کو یہ سخت سزائیں نہیں دی جائیں گی۔ بلکہ ان کے ساتھ رحم اور مروت کا معاملہ ہوگا۔ البتہ ان لوگوں نے جو دوسرے لوگوں کو نقصان پہنچایا ہے ‘ یہ اگر خود اس کا اعتراف کرلیں یا اس کے گواہ موجود ہوں تو پھر اسلام کے عام قانون کے تحت ان کے ساتھ معاملہ ہوگا اور لوگوں کے ساتھ جو زیادتیاں ہوئی ہیں ‘ حتی الامکان ان کی تلافی کردی جائے گی۔ اس رکوع کی اختتامی آیت میں (جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں) حرابہ کی حد کا ذکر کیا گیا ہے۔ نئے رکوع میں تین آیات کے بعد سرقہ یعنی چوری کی حد کا ذکر آرہا ہے۔ لیکن اس کے درمیان میں تنبیہ اور تذکیر پر مشتمل تین آیات آرہی ہیں۔ جس میں ہمارے لیے سوچنے کی بات یہ ہے کہ قرآن کریم کا آخر وہ اسلوب کیا ہے کہ جس میں ہم یہ حیرت انگیز بات دیکھتے ہیں کہ قانونی دفعات کا ذکر کرتے ہوئے دفعتاً تنبیہ و تذکیر شروع ہوجاتی ہے۔ قرآن کا طرز خطاب فطری اور نفسیاتی ہے بات یہ ہے کہ قرآن کریم اپنے اسلوب کلام میں دنیا کی واحد کتاب ہے ‘ جس کی نقل کرنا کسی انسان کے بس میں نہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا کی تمام کتابیں کسی نہ کسی ایک موضوع پہ لکھی جاتی ہیں۔ اس کی تمام ضمنی باتیں اور تمام تر تفصیلات اسی موضوع سے متعلق ہوتی ہیں لیکن قرآن کریم کسی ایک موضوع پر بند نہیں۔ وہ زندگی کے تمام مسائل کو زیر بحث لاتا ہے ‘ پھر اس پر محاکمہ کرتا ہے اور اس کے بارے میں رہنمائی دیتا ہے۔ زندگی کے مسائل چونکہ متنوع ہیں اور شاخ در شاخ پھیلے ہوئے ہیں ‘ اس لیے بظاہر اس میں ایک بےترتیبی کا احساس ہوتا ہے اور لوگ یہ کہہ اٹھتے ہیں کہ قرآن مجید ایک غیرمربوط کتاب ہے حالانکہ قرآن کریم کا بھی ایک ہی موضوع ہے اور وہ ہے حضرت انسان۔ اس لیے انسان کے حوالے سے جب بحث کی جائے گی تو اس کے احساسات اور انفعالات سے لے کر اس کی قومی اور بین الاقوامی ضرورتوں تک کو زیر بحث لایا جائے گا۔ اس لیے جیسے جیسے اس کی ضرورت کا تقاضا ہوگا ‘ ویسے ویسے بحث طویل ہوتی جائے گی اور اس کا اسلوب بدلتا جائے گا۔ مزید یہ کہ قرآن کریم کسی انسان کی تصنیف نہیں ‘ بلکہ یہ اللہ کا کلام ہے۔ اس کلام کا متکلم چونکہ انسانی فطرت اور انسانی نفسیات کا خالق ہے ‘ اس لیے وہ اس کو بہ تمام و کمال جانتا ہے۔ اسے خوب معلوم ہے کہ انسانی طبیعتیں کسی بھی پابندی کو آسانی سے قبول نہیں کرتیں ‘ تاوقتیکہ ان کے دل و دماغ اس کی قبولیت کے لیے آمادہ نہ ہوں۔ اس لیے جب وہ کسی بات کا حکم دیتا ہے تو اس کے ساتھ تقویٰ کا ذکر ضرور کرتا ہے۔ پھر اپنی ذات کا حوالہ دے کر اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ پھر اپنی نعمتوں اور احسانات کا ذکر کر کے اس پر جواب طلبی کا احساس اور اسکی جوابدہی کا یقین پیدا کرتا ہے۔ اس طرح دل میں گداز کی ایسی کیفیت پیدا ہوتی اور سوز کی ایسی روح مچلنے لگتی ہے ‘ جس کے بعد کسی بھی حکم کو قبول کرنا انسانی طبیعت کے لیے آسان ہوجاتا ہے۔ چناچہ یہاں بھی ہم اسی اسلوب کلام کو ملاحظہ کر رہے ہیں اور پھر مزید یہ بھی دیکھتے ہیں کہ انسانی معاشرے کو صحیح نہج پر استوار کرنے اور صحیح راہ پر چلانے کے لیے احکام و قوانین کی صورت میں ہدایات بھی دی جارہی ہیں اور عمل نہ کرنے یا مخالفت کرنے کی شکل میں حدود اور سزائوں کا ذکر بھی کیا جا رہا ہے کیونکہ کوئی بھی انسانی معاشرہ محض نصیحت یا محض قانون دینے پر زندگی کے سفر کو ہموار نہیں رکھ سکتا۔ تاوقتیکہ اسے قانون توڑنے کی صورت میں اپنی سزا اور داروگیر کا یقین نہ ہو۔ جب کہ دوسرے تمام معاشرے قوانین کی تفہیم پر تو زور دیتے ہیں ‘ لیکن اس کے لیے ایمانی قوت یعنی دلوں میں آمادگی پیدا نہیں کرتے۔ نتیجتاً اپنے سارے وسائل کی فراوانی کے باوجود قانون کی بالادستی اور اس پر عمل کو بروئے کار لانے میں ناکام رہتے ہیں۔ غالباً 1925 ء کی بات ہے کہ امریکہ نے شراب خانہ خراب کے معاشرے پر اثرات بد کو دیکھتے ہوئے اس پر پابندی کا بل پارلیمنٹ ہائوس سے منظور کروایا۔ پھر اس پر عمل کی ترغیبات کے لیے اپنے تمام ذرائع ابلاغ کو وقف کردیا۔ جو کاوشیں ممکن ہوسکتی تھیں کی گئیں۔ لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شراب نوشی کی عادت بد میں اضافہ ہی ہوتا گیا اور شراب پینے والوں کی تعداد کہیں سے کہیں پہنچ گئی۔ شراب خانے سرکاری طور پر تو بند کردیے گئے تھے ‘ لیکن اب گھر گھر میں شراب کی بھٹیاں کھل گئیں اور شراب کشید ہونے لگی۔ بالآخر انہی برعکس اثرات کو دیکھتے ہوئے امریکہ کی پارلیمنٹ نے آٹھ سال کے بعد شراب کے اس بل کو واپس لے لیا۔ اس کے برعکس صدیوں پہلے مدینہ منورہ میں شراب کی ممانعت کا ایک تجربہ ہوا۔ قرآن کریم کی آیات نازل ہوئیں ‘ جن میں حرمت شراب کا ذکر کیا گیا تھا۔ دیکھنے والوں نے دیکھا کہ ان آیات کے کانوں تک پہنچنے کی دیر تھی کہ لبوں تک آئے ہوئے جام گرگئے اور چھلکتی ہوئی شراب کے مٹکے ٹوٹ گئے۔ لوگوں نے نہ صرف پینا پلانا چھوڑا بلکہ اس کی تجارت تک ممنوع ہوگئی۔ اس کے برتن تک توڑ ڈالے۔ ان دونوں طرح کے طرز عمل کو جب ہم دیکھتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ قرآن کریم فطری اور نفسیاتی اسلوب کیوں اختیار کرتا ہے ‘ جس میں احکام کے ساتھ ساتھ وہ طبیعتوں کے گداز کا سامان بھی کرتا ہے۔ چناچہ یہاں بھی ایسا ہی کیا گیا ہے۔ قرب الٰہی کے حصول کے ذرائع سورة المائدہ کی آیت نمبر 38 میں چوری کی سزا کو بیان کرنے سے پہلے تین آیتوں میں طبیعتوں میں گداز اور آمادگی پیدا کرنے کے لیے تنبیہ اور تذکیر سے کام لیا گیا ہے۔ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہ َ وَابْتَغُوْٓا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ وَ جَاھِدُوْا فِیْ سَبِیْلِہٖ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ۔ (المائدہ : 35) ” اے ایمان والو ! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور اس کے قرب کا وسیلہ تلاش کرو اور اسی کے راستے پر سرگرمِ کار رہو۔ امید ہے کہ تم کامیاب ہوجاؤ گے “۔ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوْا اللہ َ (اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو ! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو) -1 تقویٰ اس میں ترغیب بھی ہے اور ترہیب بھی۔ چناچہ سب سے پہلے اہل ایمان کو تقویٰ کی تاکید کی گئی ہے جو ظاہر ہے کہ اسلام اور ایمان کی روح اور عملی زندگی کا حاصل ہے۔ تقویٰ اصل میں احکام کو مستعدی سے بجا لانے اور اس کے نتیجے میں دل و دماغ میں احکام کی نافرمانی کی صورت میں اللہ کی ناراضگی کے گہرے تصور کو پیدا کرنے کا نام ہے اور یہی اسلام کی پیدا کردہ عملی زندگی کا حاصل بھی ہے کیونکہ جس انسان میں یہ تصور راسخ ہوجائے کہ میں اس لیے اللہ کے احکام پر عمل کرنا چاہتا ہوں تاکہ میں س کی خوشنودی حاصل کرلوں اور اس کی ناراضگی سے بچ کر دنیوی اور اخروی عذاب سے بچ جاؤں ‘ ایسی طبیعت پر شیطان کا حملہ ‘ نفس کے وسوسے ‘ حالات کا پریشر اور خواہشوں کے بہلاوے جلدی اثر انداز نہیں ہوسکتے۔ یہ وہ قلعہ ہے ‘ جس میں انسانی کردار اور حسن عمل کی دولت محفوظ کردی جاتی ہے اور اس کی اٹھائی ہوئی فصیلیں سیرت و کردار کے مخالف حملوں کے بچائو کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ لیکن یہ تقویٰ محض ایک خواہش سے آگے نہیں بڑھ سکتا یا محض زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں ہوگا ‘ تاوقتیکہ طبیعت میں اللہ کے تقرب کے حصول کی امنگ نہ جاگ اٹھے۔ -2 وسیلہ اس لیے دوسرا حکم یہ دیا : وَابْتَغُوْآ اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ ” اس کی طرف وسیلہ تلاش کرو “۔ وسیلہ ” وسلُٗ “ سے مشتق ہے ‘ جس کا معنی ہوتا ہے ملنا یاجڑنا۔ یہ سین کے ساتھ بھی آتا ہے اور ص کے ساتھ بھی۔ البتہ جب سین کے ساتھ آتا ہے تو اس میں رغبت اور محبت کا معنی بھی شامل ہوجاتا ہے۔ اس لحاظ سے وسیلہ وہ چیز ہے جو کسی کو کسی دوسرے سے محبت اور رغبت کے ساتھ ملا دے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ بندے کو ملانے والی سب سے بڑی چیز ایمان اور اطاعت یا ایمان اور عمل صالح ہے۔ حضرت حذیفہ ‘ حضرت قتادہ ‘ حضرت عبد اللہ ابن عباس ( رض) بلکہ اکثر سلف صالحین سے یہی مفہوم منقول ہے۔ میں نے جیسا کہ عرض کیا کہ اس میں محبت اور رغبت کا معنی بھی شامل ہے۔ اس سے استدلال کرتے ہوئے علماء نے لکھا کہ وہ ایمان اور عمل صالح جو اللہ کے تقرب کا ذریعہ بنتا ہے ‘ اس میں ضروری ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی محبت شامل ہو اور اللہ کی محبت اور اس کے رسول کی محبت چونکہ اتباع رسول کے سوا نصیب نہیں ہوتی ‘ اس لیے دوسرے لفظوں میں یہ کہنا چاہیے کہ اللہ کے تقرب کا سب سے بڑا ذریعہ اتباع رسول ﷺ ہے۔ اس آیت کے اس ٹکڑے میں مزید ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ” اِلَیْہٖ “ کو پہلے لایا گیا ہے ‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ ہی کا تقرب حاصل کرو کیونکہ کسی اور کے تقرب کی خواہش ‘ ایمان اور اعتقادات کی جڑ کھود کے رکھ دیتی ہے۔ اس لیے قرآن پاک میں بار بار اس بات کی تنبیہ فرمائی گئی ہے کہ تم جو اللہ کی ذات کو چھوڑ کر دوسروں پر اعتقاد رکھتے ہو اور یہ سمجھ کر کہ وہ تمہیں قیامت کے دن سرخرو کردیں گے اور اللہ کے عذاب سے بچا لیں گے ‘ ان کا تقرب ڈھونڈنا تم نے شروع کر رکھا ہے۔ یہ چیز تمہارے لیے یہاں بھی نقصان دہ ہے اور قیامت میں بھی تباہ کن ثابت ہوگی۔ چناچہ مشرکین مکہ سے خاص طور پر کہا گیا ہے کہ جن فرشتوں کو تم اللہ کی بیٹیاں سمجھ کر پکارتے ہو اور یہ سمجھتے ہو کہ اللہ کی یہ بیٹیاں ‘ تمہیں اللہ کے عذاب سے بچا لیں گی ‘ تمہیں معلوم ہونا چاہیے : اُوْلٰٓئِکَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ یَبْتَغُوْنَ اِلٰی رَبِّھِمُ الْوَسِیْلَۃَ اَیُّھُمْ اَقْرَبُ وَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَہٗ وَ یَخَافُوْنَ عَذَابَہٗ ط (بنی اسرائیل 17: 57) (یہ (فرشتے) وہ (مخلوق) ہیں جو ہر وقت اللہ کو پکارتے ہیں اور اس کے تقرب کو تلاش کرتے ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں) اس لیے ایک مومن کے لیے اصل منزل صرف اللہ کا تقرب اور اس کی تلاش ہے۔ جن قوموں نے بھی اس ذات وحدہ لاشریک کے سوا کسی اور کا تقرب تلاش کیا ‘ انھوں نے دنیا بھی گنوائی اور عاقبت بھی تباہ کرلی۔ اس لیے فرمایا کہ اسی کا تقرب تلاش کرو۔ -3 جہاد تیسرا حکم یہ دیا : وَجَاھِدُوْا فِیْ سَبَیْلِہٖ کہ ” اسی کے راستے پر سرگرم کار رہو “۔ مراد یہ ہے کہ اس کا راستہ پوری زندگی میں اسی کی اطاعت ‘ اسی کی عبادت ‘ اسی کے دین کی نشر و اشاعت ‘ اجتماعی زندگی میں اسی کے دین کا غلبہ اور انفرادی اور اجتماعی اداروں میں اسی کی شریعت کا نفاذ ‘ پھر اس راستے میں آنے والی مشکلات کے خلاف جدوجہد ‘ کبھی دماغی کاوشوں سے ‘ کبھی قلم کی جولانیوں سے ‘ کبھی پسینہ بہا کر اور اگر کبھی ضرورت پڑے تو قوت کا استعمال کرتے ہوئے خون دے کر۔ یعنی ایک ہمہ جہت سرگرمی کا راستہ ہے جس میں نہ کہیں ماندگی کے وقفے ہیں اور نہ شکست و ریخت کے مرحلے کیونکہ اس کے بغیر ایمان و عمل کو اس طرح بروئے کار نہیں لایا جاسکتا جس سے اللہ کے تقرب کو حاصل کیا جاسکتا ہے اور جس کے نتیجے میں تقوی کی دولت نصیب ہوسکتی ہے۔ لیکن جب آدمی بہ ہمہ تن اللہ ہی کے راستے پر پڑجاتا ہے اور وہی اس کی منزل و مقصود بن جاتا ہے ‘ پھر اللہ کی طرف سے یہ امید دلائی جاتی ہے : لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ (امید ہے تم کامیاب ہوجاؤ گے) یہاں کامیابی کے دو مفہوم ہوسکتے ہیں، ایک یہ کہ تم دنیوی زندگی میں اسلامی زندگی کو اس کے مطلوبہ نتائج سمیت گزارنے میں کامیاب ہوجاؤ گے اور دوسرا یہ کہ اللہ کے یہاں قیامت کو تم اس کی جنت کو حاصل کرنے اور اس کی خوشنودی کا استحقاق پیدا کرنے میں کامیاب ہوجاؤ گے۔ لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا اور حقیقی معنوں میں جدوجہد کو اپنا شعار نہ بنا سکے تو پھر اندیشہ ہے کہ تم اس راستے کے مسافر بننے کے بجائے کفر کے راستے کے مسافر بن جاؤ گے، اللہ کی نعمتیں تمہیں ملیں گی لیکن تم شکر گزاری کی بجائے کفران نعمت کرو گے۔ اپنی عقل اور قوت تمیز کو اللہ اور اس کے دین کو سمجھنے کی بجائے اس سے مختلف راستے میں صرف کرو گے۔ ترغیب اور ترہیب کے اس عمل کو طبیعتوں کی آمادگی کے لیے پوری طرح بروئے کار لا کر اور سننے والوں کو سراپا گداز بنا کر پھر حد سرقہ یعنی چوری کی سزا کا ذکر فرمایا اب کوئی وجہ نہیں کہ آدمی اس سزا کو سنے اور اس سے پوری طرح اثر قبول کیے بغیر رہ سکے۔
Top