Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 204
وَ اِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَ اَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ
وَاِذَا : اور جب قُرِئَ : پڑھا جائے الْقُرْاٰنُ : قرآن فَاسْتَمِعُوْا : تو سنو لَهٗ : اس کے لیے وَاَنْصِتُوْا : اور چپ رہو لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم پر تُرْحَمُوْنَ : رحم کیا جائے
اور جب قرآن پڑھا جائے تو اس کی طرف کان لگائے رہو اور چپ رہو تاکہ تم پر رحم ہو۔
دوسری آیت میں بتلایا گیا کہ قرآن مجید مومنین کے لئے رحمت ہے مگر اس رحمت سے فائدہ حاصل کرنے کے لئے کچھ شرائط وآداب ہیں جن کو خطاب عام کے ساتھ اس طرح ذکر فرمایا، (آیت) وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَاَنْصِتُوْا، یعنی جب قرآن پڑھا جائے تو تم اس پر کان لگاؤ اور خاموش رہو۔
اس آیت کے شان نزول میں روایات مختلف ہیں کہ یہ حکم نماز کی قرأت کے بارے میں آیا ہے یا خطبہ کے یا مطلقا قرأت قرآن کے خواہ نماز یا خطبہ میں ہو یا دوسرے حالات میں، لیکن جمہور مفسرین کے نزدیک صحیح یہ ہے کہ جس طرح الفاظ آیت کے عام ہیں اسی طرح اس کا حکم بھی سب حالات کے لئے عام ہے بجز خاص استثنائی مواقع کے۔
اسی لئے حنفیہ نے اس آیت سے اس پر استدلال کیا ہے کہ امام کے پیچھے مقتدیوں کو قرأت نہیں کرنا چاہئے، اور جن فقہاء نے مقتدی کو فاتحہ پڑھنے کی ہدایت کی ہے ان میں بھی بعض نے اس کی رعایت رکھی ہے کہ امام کے سکتہ کے وقت فاتحہ پڑھی جائے یہاں اس بحث کا موقعہ نہیں، اس بحث میں علماء نے مستقل کتابیں چھوٹی بڑی بہت لکھی ہیں ان کا مطالعہ کیا جائے۔
اصل مضمون آیت کا یہ ہے کہ قرآن کریم جن لوگوں کے لئے رحمت قرار دیا گیا اس کی شرط یہ ہے کہ وہ قرآن کے ادب و احترام کو پہچانیں اور اس پر عمل کریں، اور بڑا ادب قرآن کا یہ ہے کہ جب وہ پڑھا جائے تو سننے والے اپنے کان اس پر لگائیں اور خاموش رہیں۔
کان لگانے میں یہ بھی داخل ہے کہ اس کو سنیں اور یہ بھی کہ اس کے احکام پر عمل کرنے کی جد و جہد کریں، (مظہری و قرطبی) آخر آیت میں لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ فرما کر اس طرف اشارہ کردیا کہ قرآن کا رحمت ہونا اس کے مذکورہ آداب بجا لانے پر موقوف ہے۔
تلاوت قرآن کے وقت خاموش رہ کر سننے کے متعلق چند ضروری مسائل
اس کے بالمقابل یہ خود ظاہر ہے کہ اگر کسی نے اس کی خلاف ورزی کرکے قرآن کی بےحرمتی کی تو وہ رحمت کے بجائے قہر و غضب کا مستحق ہوگا۔
نماز کے اندر قرآن کی طرف کان لگانا اور خاموش رہنا تو عام طور پر مسلمانوں کو معلوم ہے گو عمل میں کوتاہی کرتے ہیں کہ بعض لوگوں کو یہ بھی خبر نہیں ہوتی کہ امام نے کونسی سورت پڑھی ہے، ان پر لازم ہے کہ وہ قرآن کی عظمت کو پہچانیں اور سننے کی طرف دھیان رکھیں، خطبہ جمعہ وغیرہ کا بھی شرعا یہی حکم ہے، علاوہ اس آیت کے رسول کریم ﷺ کا ارشاد خاص طور سے خطبہ کے متعلق یہ آیا ہے کہ
اذا خرج الامام فلا صلوة ولا کلام " یعنی جب امام خطبہ کے لئے نکل آئے تو نہ نماز ہے نہ کلام "۔
اور ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ اس وقت کوئی شخص دوسرے کو نصیحت کے لئے زبان سے یہ بھی نہ کہے کہ خاموش رہو (کرنا ہی ہو تو ہاتھ سے اشارہ کردے) غرض دوران خطبہ میں کسی طرح کا کلام، تسبیح، درود یا نماز وغیرہ جائز نہیں۔
فقہاء نے فرمایا ہے کہ جو حکم خطبہ جمعہ کا ہے وہی عیدین کے خطبہ کا اور نکاح وغیرہ کے خطبہ کا ہے کہ اس وقت کان لگانا اور خاموش رہنا واجب ہے۔
البتہ نماز اور خطبہ کے علاوہ عام حالات میں کوئی شخص بطور خود تلاوت کر رہا ہے تو دوسروں کو خاموش رہ کر اس پر کان لگانا واجب ہے یا نہیں، اس میں فقہاء کے اقوال مختلف ہیں، بعض حضرات نے اس صورت میں بھی کان لگانے اور خاموش رہنے کو واجب اور اس کے خلاف کرنے کو گناہ قرار دیا ہے، اور اسی لئے ایسی جگہ جہاں لوگ اپنے کاموں میں مشغول ہوں یا آرام کرتے ہوں کسی کے لئے بآواز بلند قرآن پڑھنے کو جائز نہیں رکھا، اور جو شخص ایسے مواقع میں قرآن بآواز بلند پڑھتا ہے اس کو گناہگار فرمایا ہے، خلاصتہ الفتاوی وغیرہ میں ایسا ہی لکھا ہے۔
لیکن بعض دوسرے فقہاء نے یہ تفصیل فرمائی ہے کہ کان لگانا اور سننا صرف ان جگہوں میں واجب ہے جہاں قرآن کو سنانے ہی کے لئے پڑھا جارہا ہو، جیسے نماز و خطبہ وغیرہ میں، اور اگر کوئی شخص بطور خود تلاوت کر رہا ہے یا چند آدمی کسی ایک مکان میں اپنی تلاوت کر رہے ہیں تو دوسرے کی آواز پر کان لگانا اور خاموش رہنا واجب نہیں، کیونکہ احادیث صحیحہ سے یہ ثابت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ایک سفر میں رات کو پڑاؤ ڈالنے کے بعد صبح کو فرمایا کہ میں نے اپنے اشعری رفقائے سفر کو ان کی تلاوت کی آوازوں سے رات کے اندھیرے میں پہچان لیا کہ ان کے خیمے کس طرف اور کہاں ہیں، اگرچہ دن میں مجھے ان کے جائے قیام کا علم نہیں تھا۔
اس واقعہ میں بھی رسول کریم ﷺ نے ان اشعری حضرات کو اس سے منع نہیں فرمایا کہ بلند آواز سے کیوں قرأت کی اور نہ سونے والوں کو ہدایت فرمائی کہ جب قرآن پڑھا جارہا ہو تو تم سب بیٹھو اور قرآن سنو۔
اس قسم کی روایات سے فقہاء نے خارج نماز کی تلاوت کے معاملہ میں کچھ گنجائش دی ہے، لیکن اولی اور بہتر سب کے نزدیک یہی ہے کہ خارج نماز بھی جب کہیں سے تلاوت قرآن کی آواز آئے تو اس پر کان لگائے اور خاموش رہے اور اسی لئے ایسے مواقع میں جہاں لوگ سونے میں یا اپنے کاروبار میں مشغول ہوں تلاوت قرآن بآواز بلند کرنا مناسب نہیں۔
اس سے ان حضرات کی غلطی معلوم ہوگئی جو تلاوت قرآن کے وقت ریڈیو ایسے مجامع میں کھول دیتے ہیں جہاں لوگ اس کے سننے کی طرف متوجہ نہیں ہوتے، اسی طرح رات کو لاؤڈ اسپیکر لگا کر مسجدوں میں تلاوت قرآن اس طرح کرنا کہ اس کی آواز سے باہر کے سونے والوں کی نیند یا کام کرنے والوں کے کام میں خلل آئے، درست نہیں۔
علامہ ابن ہمام نے لکھا ہے کہ جس وقت امام نماز میں یا خطیب خطبہ میں کوئی مضمون جنت و دوزخ کے متعلق پڑھ رہا ہو تو اس وقت جنت کی دعاء یا دوزخ سے پناہ مانگنا بھی جائز نہیں، کیونکہ اس آیت کی رو سے اللہ تعالیٰ کی رحمت کا وعدہ اس شخص کے لئے ہے جو تلاوت قرآن کے وقت خاموش رہے، اور جو خاموش نہ رہے اس سے وعدہ نہیں، البتہ نفل نمازوں میں ایسی آیات کی تلاوت کے بعد آہستہ دعا مانگنا سنت سے ثابت ہے اور موجب ثواب ہے (مظہری)
Top