Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 42
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَاۤ١٘ اُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ
وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَعَمِلُوا : اور انہوں نے عمل کیے الصّٰلِحٰتِ : اچھے لَا نُكَلِّفُ : ہم بوجھ نہیں ڈالتے نَفْسًا : کسی پر اِلَّا : مگر وُسْعَهَآ : اس کی وسعت اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ : جنت والے هُمْ : وہ فِيْهَا : اس میں خٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
اور جو ایمان لائے اور کیں نیکیاں ہم بوجھ نہیں رکھتے کسی پر مگر اس کی طاقت کے موافق وہی ہیں جنت میں رہنے والے، وہ اسی میں ہمیشہ رہیں گے ،
تیسری آیت میں احکام خداوندی کی پیروی اور پابندی کرنے والوں کا ذکر ہے، کہ یہ لوگ جنت والے ہیں اور جنت ہی میں ہمیشہ رہیں گے۔
احکام شریعت میں سہولت کی رعایت
لیکن ان کے لئے جہاں یہ شرط ذکر کی گئی ہے کہ وہ ایمان لائیں اور نیک اعمال کریں، اس کے ساتھ ہی رحمت و کرم سے یہ بھی فرما دیا (آیت) لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَآ جس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی بندہ پر کوئی ایسا بوجھل کام نہیں ڈالتے جو اس کی طاقت سے باہر ہو، مقصود یہ ہے کہ اعمال صالحہ جن کو دخول جنت کے لئے شرط کہا گیا ہے وہ کوئی بہت مشکل کام نہیں جو انسان نہ کرسکے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے احکام شریعت کو ہر شعبہ میں نرم اور آسان کردیا ہے، بیماری، کمزوری، سفر اور دوسری انسانی ضروریات کا ہر حکم میں لحاظ رکھ کر آسانیاں دی گئی ہیں۔
اور تفسیر بحر محیط میں ہے کہ جب انسان کو اعمال صالحہ کا حکم دیا گیا تو یہ احتمال تھا کہ اس کو یہ حکم اس لئے بھاری معلوم ہو کہ تمام اعمال صالحہ ہر جگہ ہر حال میں بجا لانا تو انسان کے بس میں نہیں، اس لئے اس کے شبہ کو ان الفاظ سے دور کردیا گیا کہ ہم تمام انسانی زندگی کے مختلف ادوار اور حالات کا جائزہ لے کر ہر حال میں اور ہر وقت اور ہر جگہ کے لئے مناسب احکام دیتے ہیں جن پر عمل کرنا کوئی دشوار کام نہیں ہے۔
Top