Maarif-ul-Quran - Al-Anfaal : 23
وَ لَوْ عَلِمَ اللّٰهُ فِیْهِمْ خَیْرًا لَّاَسْمَعَهُمْ١ؕ وَ لَوْ اَسْمَعَهُمْ لَتَوَلَّوْا وَّ هُمْ مُّعْرِضُوْنَ
وَلَوْ : اور اگر عَلِمَ اللّٰهُ : جانتا اللہ فِيْهِمْ : ان میں خَيْرًا : کوئی بھلائی لَّاَسْمَعَهُمْ : تو ضرور سنادیتا ان کو وَلَوْ : اور اگر اَسْمَعَهُمْ : انہیں سنا دے لَتَوَلَّوْا : اور ضرور پھرجائیں وَّهُمْ : اور وہ مُّعْرِضُوْنَ : منہ پھیرنے والے
اور اگر اللہ جانتا ان میں کچھ بھلائی تو ان کو سنا دیتا، اور اگر ان کو اب سنا دے تو ضرور بھاگیں منہ پھیر کر۔
چوتھی آیت میں ارشاد ہے (آیت) وَلَوْ عَلِمَ اللّٰهُ فِيْهِمْ خَيْرًا لَّاَسْمَعَهُمْ ۭوَلَوْ اَسْمَعَهُمْ لَتَوَلَّوْا وَّهُمْ مُّعْرِضُوْنَ ، یعنی اگر اللہ تعالیٰ ان میں کوئی بھلائی دیکھتے تو ان کو اعتقاد کے ساتھ سننے کی توفیق بخش دیتے اور اگر ان کو بحالت موجودہ کہ ان میں طلب حق نہیں ہے حق بات سنا دیں تو وہ ضرور روگردانی کریں گے بےرخی کرتے ہوئے۔
بھلائی سے مراد اس جگہ طلب حق ہے کہ طلب ہی کے ذریعہ تدبر اور فہم کے دروازے کھلتے ہیں اور اسی سے اعتقاد و عمل کی توفیق ہوتی ہے۔ اور جس میں طلب حق نہیں گویا اس میں کوئی بھلائی نہیں، معنی یہ ہیں کہ اگر ان میں کوئی بھلائی موجود ہوتی تو ظاہر ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہوتی جب اللہ تعالیٰ کے علم میں ان کے اندر کوئی بھلائی نہیں۔ تو معلوم ہوا کہ درحقیقت وہ ہر بھلائی سے محروم ہیں اور اس محرومی کی حالت میں اگر ان کو غور و تدبر اور اعتقاد حق کی دعوت دی جائے تو وہ ہرگز قبول نہ کریں گے بلکہ اس سے منہ پھیر کر بھاگیں گے۔ یعنی ان کی یہ روگردانی اس بنا پر نہ ہوگی کہ دین میں ان کو اعتراض کی بات نظر آگئی اس لئے نہیں مانا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے حق بات پر دھیان ہی نہیں دیا۔
اس تقریر سے وہ منطقی شبہ بھی رفع ہوگیا جو اہل علم کے دلوں میں کھٹکتا ہے کہ یہ قیاس کی شکل اول ہے حد اوسط حذف کریں تو نتیجہ غلط نکل رہا ہے۔ جواب یہ ہے کہ درحقیقت یہاں حد اوسط مکرر نہیں کیونکہ پہلے لَّاَسْمَعَهُمْ کا مفہوم الگ ہے دوسرے اسمعھم کا الگ پہلے میں سماع قبول اور سماع نافع مراد ہے دوسرے میں خالی سماع۔
Top