Maarif-ul-Quran - Al-Anfaal : 58
وَ اِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِیَانَةً فَانْۢبِذْ اِلَیْهِمْ عَلٰى سَوَآءٍ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْخَآئِنِیْنَ۠   ۧ
وَاِمَّا : اور اگر تَخَافَنَّ : تمہیں خوف ہو مِنْ : سے قَوْمٍ : کسی قوم خِيَانَةً : خیانت (دغا بازی) فَانْۢبِذْ : تو پھینک دو اِلَيْهِمْ : ان کی طرف عَلٰي : پر سَوَآءٍ : برابری اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يُحِبُّ : پسند نہیں کرتا الْخَآئِنِيْنَ : دغا باز (جمع)
اور اگر تجھ کو ڈر ہو کسی قسم سے دغا کا تو پھینک دے ان کا عہد ان کی طرف ایسی طرح پر کہ ہوجاؤ تم اور وہ برابر، بیشک اللہ کو خوش نہیں آتے دغا باز۔
معاہدہ صلح کو ختم کرنے کی صورت
پانچویں آیت میں رسول اللہ ﷺ کو جنگ و صلح کے قانون کی ایک اہم دفعہ بتلائی گئی ہے جس میں معاہدہ کی پابندی کی خاص اہمیت کے ساتھ یہ بھی بتلایا گیا ہے کہ اگر کسی وقت معاہدہ کے دوسرے فریق کی طرف سے خیانت یعنی عہد شکنی کا خطرہ پیدا ہوجائے تو یہ ضروری نہیں کہ ہم معاہدہ کی پابندی کو بدستور قائم رکھیں لیکن یہ بھی جائز نہیں کہ معاہدہ کو صاف طور پر ختم کردینے سے پہلے ہم ان کے خلاف کوئی اقدام کریں بلکہ صحیح صورت یہ ہے کہ ان کو اطمینان و فرصت کی حالت میں اس سے آگاہ کردیا جائے کہ تمہاری بدنیتی یا خلاف ورزی ہم پر ظاہر ہوچکی ہے یا یہ کہ تمہارے معاملات مشتبہ نظر آتے ہیں اس لئے ہم آئندہ اس معاہدہ کے پابند نہیں رہیں گے تم کو بھی ہر طرح اختیار ہے کہ ہمارے خلاف جو کارروائی چاہو کرو۔ آیت کے الفاظ یہ ہیں
(آیت) وَاِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِيَانَةً فَانْۢبِذْ اِلَيْهِمْ عَلٰي سَوَاۗءٍ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْخَاۗىِٕنِيْنَ۔ یعنی اگر آپ کو کسی قوم معاہد سے خیانت اور عہد شکنی کا اندیشہ پیدا ہوجائے تو ان کا عہد ان کی طرف ایسی صورت سے واپس کردیں کہ آپ اور وہ برابر ہوجائیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے۔
مطلب یہ ہے کہ جس قوم کے ساتھ کوئی معاہدہ صلح ہوچکا ہے اس کے مقابلہ میں کوئی جنگی اقدام کرنا خیانت میں داخل ہے اور اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے اگرچہ یہ خیانت دشمن کافروں ہی کے حق میں کی جائے۔ وہ بھی جائز نہیں البتہ اگر دوسری طرف سے عہد شکنی کا خطرہ پیدا ہوجائے تو ایسا کیا جاسکتا ہے کہ کھلے طور پر ان کو اعلان کے ساتھ آگاہ کردیں کہ ہم آئندہ معاہدہ کے پابند نہیں رہیں گے۔ مگر یہ اعلان ایسی طرح ہو کہ مسلمان اور دوسرا فریق اس میں برابر ہوں۔ یعنی ایسی صورت نہ کی جائے کہ اس اعلان و تنبیہ سے پہلے ان کے مقابلہ کی تیاری کرلی جائے اور وہ خالی الذہن ہونے کی بنا پر تیاری نہ کرسکیں بلکہ جو کچھ تیاری کرنا ہے وہ اس اعلان و تنبیہ کے بعد کریں۔
یہ ہے اسلام کا عدل و انصاف کہ خیانت کرنے والے دشمنوں کے بھی حقوق کی حفاظت کی جاتی ہے اور مسلمانوں کو ان کے مقابلہ میں اس کا پابند کیا جاتا ہے کہ عہد کو واپس کرنے سے پیشتر کوئی تیاری بھی ان کے خلاف نہ کریں (مظہری وغیرہ)
ایفائے عہد کا ایک واقعہ عجیبہ
ابوداؤد، ترمذی، نسائی، امام احمد بن حنبل نے سلیم بن عامر کی روایت سے نقل کیا ہے کہ حضرت معاویہ کا ایک قوم کے ساتھ ایک میعاد کے لئے التواء جنگ کا معاہدہ تھا، حضرت معاویہ نے ارادہ فرمایا کہ اس معاہدہ کے ایام میں اپنا لشکر اور سامان جنگ اس قوم کے قریب پہنچا دیں تاکہ معاہدہ کی میعاد ختم ہوتے ہی وہ دشمن پر ٹوٹ پڑیں۔ مگر عین اس وقت جب حضرت معاویہ کا لشکر اس طرف روانہ ہو رہا تھا یہ دیکھا گیا کہ ایک معمر آدمی گھوڑے پر سوار بڑے زور سے یہ نعرہ لگا رہے ہیں اللہ اکبر اللہ اکبر وفآءً لا غدرا۔ یعنی نعرہ تکبیر کے ساتھ یہ کہا کہ ہم کو معاہدہ پورا کرنا چاہئے اس کی خلاف ورزی نہ کرنا چاہئے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس قوم سے کوئی صلح یا ترک جنگ کا معاہدہ ہوجائے تو چاہئے کہ ان کے خلاف نہ کوئی گرہ کھولیں اور نہ باندھیں۔ حضرت معاویہ کو اس کی خبر کی گئی۔ دیکھا تو یہ کہنے والے بزرگ حضرت عمرو بن عنبسہ صحابی تھے۔ حضرت معاویہ نے فورا اپنی فوج کو واپسی کا حکم دے دیا تاکہ التواء جنگ کی میعاد میں لشکر کشی پر اقدام کرکے خیانت میں داخل نہ ہوجائیں (ابن کثیر)۔
Top