Tafseer-e-Majidi - Al-Anfaal : 58
وَ اِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِیَانَةً فَانْۢبِذْ اِلَیْهِمْ عَلٰى سَوَآءٍ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْخَآئِنِیْنَ۠   ۧ
وَاِمَّا : اور اگر تَخَافَنَّ : تمہیں خوف ہو مِنْ : سے قَوْمٍ : کسی قوم خِيَانَةً : خیانت (دغا بازی) فَانْۢبِذْ : تو پھینک دو اِلَيْهِمْ : ان کی طرف عَلٰي : پر سَوَآءٍ : برابری اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يُحِبُّ : پسند نہیں کرتا الْخَآئِنِيْنَ : دغا باز (جمع)
اور اگر آپ کو کسی قوم سے خیانت کا اندیشہ ہو تو آپ (وہ عہد) ان کی طرف اسی طرح واپس کردیں بیشک اللہ خیانت کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا،87 ۔
87 ۔ قرآن مجید کی اس قسم کی آیتیں عربی اسلوب بیان کے مطابق ہیں، اردوادب میں ایسے موقع پر کہا جائے گا کہ اللہ خائنوں کو سخت ناپسند کرتا ہے۔ (آیت) ” اما تخافن من قوم خیانۃ “۔ یعنی اس قوم نے ابھی بدعہدی عملا کی نہ ہو لیکن قرائن سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ وہ بدعہدی کرنے پر ہے۔ اے اذا ظھرت اثار الخیانۃ وتثبت دلائلھا (قرطبی) (آیت) ” فانبذالیھم علی سوآء “۔ یعنی اسی طرح اس عہد کے باقی نہ رہنے کی اطلاع اس فریق کو کردیں۔ فقہاء نے لکھا ہے کہ یہ امر واجب نہیں، تخییری ہے۔ اور امام کے اختیار تمییزی پر موقوف ہے۔ (آیت) ” علی سوآء “۔ یہ اعلان استرداد معاہدہ کی تاکید اس لیے ہے کہ کہیں مخالفین نقض عہد کی ابتداء مسلمانوں کے سر نہ ڈال دیں، لئلا یتوھموا نک نقضت العھد بنصب الحرب (جصاص)
Top