Maarif-ul-Quran - At-Tawba : 51
قُلْ لَّنْ یُّصِیْبَنَاۤ اِلَّا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَنَا١ۚ هُوَ مَوْلٰىنَا١ۚ وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں لَّنْ يُّصِيْبَنَآ : ہرگز نہ پہنچے گا ہمیں اِلَّا : مگر مَا : جو كَتَبَ : لکھ دیا اللّٰهُ : اللہ لَنَا : ہمارے لیے هُوَ : وہی مَوْلٰىنَا : ہمارا مولا وَعَلَي اللّٰهِ : اور اللہ پر فَلْيَتَوَكَّلِ : بھروسہ چاہیے الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع)
تو کہہ دے ہم کو ہرگز نہ پہنچے گا مگر وہی جو لکھ دیا اللہ نے ہمارے لئے وہی ہے کار ساز ہمارا، اور اللہ ہی پر چاہئے کہ بھروسہ کریں مسلمان،
آٹھویں آیت میں حق تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ اور مسلمانوں کو منافقین کے مذکورہ اقوال سے متاثر نہ ہونے اور اصل حقیقت کو ہمیشہ سامنے رکھنے کی ہدایت ان الفاظ میں دی(آیت) قُلْ لَّنْ يُّصِيْبَنَآ اِلَّا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَنَا ۚ هُوَ مَوْلٰىنَا ۚ وَعَلَي اللّٰهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤ ْمِنُوْنَ ، یعنی آپ ان مادی اسباب کی پرستش کرنے والوں کو بتلا دیجیئے کہ تم دھوکہ میں ہو یہ مادی اسباب محض ایک پردہ ہیں، ان کے اندر کام کرنے والی قوت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے، ہمیں جو حال پیش آتا ہے وہ سب وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے لکھ دیا ہے، اور وہی ہمارا مولیٰ اور مددگار ہے، اور مسلمانوں کو چاہئے کہ اسی پر اصل بھروسہ رکھیں، مادی اسباب کو صرف اسباب و علامات ہی کی حیثیت سے دیکھیں، ان پر کسی بھلائی یا برائی کا مدار نہ جانیں۔
اعتقاد تقدیر استعمال تدبیر کے ساتھ ہونا چاہئے بےتدبیری کا نام توکل رکھنا غلط ہے
اس آیت نے مسئلہ توکل کی اصل حقیقت بھی واضح کردی، کہ تقدیر و توکل پر یقین رکھنے کا یہ حاصل نہ ہونا چاہئے، کہ آدمی ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائے، اور یہ کہے کہ جو کچھ قسمت میں ہوگا وہ ہوجائے گا بلکہ ہونا یہ چاہئے کہ اسباب اختیاریہ کے لئے اپنی پوری توانائی اور ہمت صرف کی جائے اور سجد قدرت اسباب جمع کرنے کے بعد معاملہ کو تقدیر و توکل کے حوالہ کریں، نظر صرف اللہ تعالیٰ پر رکھیں کہ نتائج ہر کام کے اسی کے قبضہ قدرت میں ہیں۔
مسئلہ تقدیر و توکل میں عام دنیا کے لوگ بڑی افراتفری میں پائے جاتے ہیں، کچھ بےدین لوگ تو وہ ہیں جو سرے سے تقدیر و توکل کے قائل ہی نہیں انہوں نے مادی اسباب ہی کو خدا بنایا ہوا ہے، اور کچھ ناواقف ایسے بھی ہیں جنہوں نے تقدیر و توکل کو اپنی کم ہمتی اور بیکاری کا بہانہ بنا لیا ہے، رسول کریم ﷺ کی جہاد کے لئے پوری پوری تیاری اور اس کے بعد اس آیت کے نزول نے اس افراط وتفریط کو ختم کرکے صحیح راہ دکھلا دی " بر توکل زانوئے اشتر بہ بند "۔ یعنی اسباب اختیاریہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کی دی ہوئی نعمت ہیں، ان سے فائدہ نہ اٹھانا ناشکری اور بیوقوفی ہے، البتہ اسباب کو اساب کے درجہ سے آگے نہ بڑھاؤ اور عقیدہ یہ رکھو کہ نتائج وثمرات ان اسباب کے تابع نہیں، بلکہ فرمان حق جل شانہ کے تابع ہیں۔
Top