Tafseer-e-Madani - Hud : 38
وَ یَصْنَعُ الْفُلْكَ١۫ وَ كُلَّمَا مَرَّ عَلَیْهِ مَلَاٌ مِّنْ قَوْمِهٖ سَخِرُوْا مِنْهُ١ؕ قَالَ اِنْ تَسْخَرُوْا مِنَّا فَاِنَّا نَسْخَرُ مِنْكُمْ كَمَا تَسْخَرُوْنَؕ
وَيَصْنَعُ : اور وہ بناتا تھا الْفُلْكَ : کشتی وَكُلَّمَا : اور جب بھی مَرَّ : گزرتے عَلَيْهِ : اس پر مَلَاٌ : سردار مِّنْ : سے (کے) قَوْمِهٖ : اس کی قوم سَخِرُوْا : وہ ہنستے مِنْهُ : اس سے (پر) قَالَ : اس نے کہا اِنْ : اگر تَسْخَرُوْا : تم ہنستے ہو مِنَّا : ہم سے (پر) فَاِنَّا : تو بیشک ہم نَسْخَرُ : ہنسیں گے مِنْكُمْ : تم سے (پر) كَمَا : جیسے تَسْخَرُوْنَ : تم ہنستے ہو
اور (حسب ارشاد خداوندی) نوح اس کشتی کے بنانے میں لگ گئے، تو ان کی قوم کے سرداروں میں سے کوئی ان کے پاس سے گزرتا تو ان کا مذاق اڑاتا، نوح کہتے کہ اگر (آج) تم ہمارا مذاق اڑاتے ہو تو (کوئی بات نہیں، کہ کل) ہم بھی اسی طرح تمہارا مذاق اڑائیں گے جس طرح کہ تم ہمارا مذاق اڑا رہے ہو
90 ۔ حق اور اہل حق کا مذاق اڑانا بدبختی اور ہلاکت کی نشانی۔ والعیاذ باللہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ جب حضرت نوح (علیہ السلام) نے ارشاد خداوندی کے مطابق کشتی بنانا شروع کی ان کی قوم کے سرداروں میں سے جو بھی کوئی وہاں سے گزرتا ان کا مذاق اڑاتا۔ کہ پہلے نبوت کا دعوی تھا اب بڑھئی بن گئے ہیں۔ اور بنا بھی رہے ہیں کشتی۔ کیا اس کو خشکی پر چلاؤ گے ؟ سو جن لوگوں کی شامت آجاتی ہے ان کے اطوار ایسے ہی ہوتے ہیں کہ وہ اپنے مآل و انجام کو سوچنے اور داعی حق کی آواز پر لبیک کہنے کی بجائے اس کا مذاق اڑانے لگتے ہیں۔ اور پیغام حق و ہدایت سے منہ موڑ کر وہ دائمی ہلاکت کے گڑھے میں جا گرتے ہیں۔ اور اپنے اس آخری انجام کو پہنچ کر رہتے ہیں جس سے نکلنے کی پھر کوئی صورت ان کے لیے ممکن نہیں رہتی۔ سو حق اور اہل حق کا مذاق اڑانا بدبختی اور ہلاکت کی علامت و نشانی ہے۔ اور ایسوں کا انجام بڑا ہی ہولناک اور نہایت بھیانک ہوتا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ 91 ۔ حق کا مذاق اڑانے والوں کا انجام بہت برا۔ والعیاذ باللہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ حضرت نوح (علیہ السلام) حق کا مذاق اڑانے والے ان بدبختوں سے کہتے کہ اگر آج تم لوگ ہمارا مذاق اڑاتے ہو تو عنقریب ہم تمہارا مذاق اڑائیں گے جس طرح کہ تم ہمارا مذاق اڑاتے ہو۔ یعنی جب تم لوگ اپنے کئے کرائے کا بدلہ پاؤ گے اور وہ عذاب تمہارے سامنے آجائے گا جو آج تمہاری نظروں سے اوجھل ہے۔ یعنی اس وقت تم کو اپنے پاس اس مذاق کا پورا بدلہ مل جائے گا اور اس وقت تمہیں اچھی طرح معلوم ہوجائے گا کہ حق کا مذاق اڑا کر تم لوگ اپنے لیے کس قدر ہولناک انجام کا سامان کر رہے تھے۔ سو حق کا مذاق اڑانا بڑا ہی سنگین اور ہولناک جرم ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو ( فَاِنَّا نَسْخَرُ مِنْكُمْ كَمَا تَسْخَرُوْنَ ) کا مطلب یہ نہیں کہ جس طرح آج تم لوگ ہم پر ایسی پھبتیاں کس رہے ہو اسی طرح کل ہم بھی تم پر ایسی ہی پھبتیاں کسیں گے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح آج ہمارا یہ فعل تمہاری نگاہوں میں ہنسی کا سامان بنا ہوا ہے اسی طرح کل تمہارا انجام ہمارے لیے ایمان و اطمینان میں اضافے کا باعث ہوگا۔ آج تم ہنس رہے ہو کل تم رؤوگے اور ہم اللہ کی نصرت و امداد پر شاداں وفرحاں اور اپنے رب کے شکر گزار ہوں گے۔ اور ایسا بہرحال ہو کر رہے گا اور بالفعل ہو کر رہا۔ والعیاذ باللہ العظیم۔
Top