Maarif-ul-Quran (En) - Yaseen : 82
اِنَّمَاۤ اَمْرُهٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ
پس ! اس کی شان تو یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اس سے کہتا ہے کہ ہوجا پس وہ ہوجاتی ہے
رب کریم جب کسی چیز کے لیے ارادہ کرتا ہے تو حکم کرتا ہے تو وہ ہوجاتا ہے : 82۔ اللہ رب ذوالجلال والاکرام کے متعلق یہ لفظ قرآن کریم میں جتنی بار بھی استعمال ہوا ہے اس کا مطلب یہ نہ سمجھا جائے کہ وہ کوئی مرئی زبان رکھتا ہے اور کسی خاص طرح کی زبان استعمال کرکے عربی ‘ اردو یا فارسی میں کچھ کلمہ کہتا ہے جس کو عربی میں (کن) سے تعبیر کیا گیا ہے اور پھر وہ چیز حاضر ہوجاتی ہے نہیں ! اللہ رب ذوالجلال والاکرام کسی کلمہ کا محتاج نہیں اور نہ ہی وہ کوئی خاص زبان بولتا ہے کہ اس زبان میں (کن) کہتا ہے بلکہ یہ ایک تفہیم کا طریقہ ہے اور اس کے لیے الفاظ ہم بول رہے ہیں اس کے ہاں کسی چیز کے موجود کرنے کے لیے جو حکم ہے اس کے لیے کلمہ کن استعمال ہوا ہے ۔ آپ یوں سمجھیں کہ اس دنیا میں جو کچھ بنا ہے اور جو کچھ بن رہا ہے اور جو کچھ قیامت تک بنے گا سب اس کے کلمہ (کن) سے تعبیر ہے آپ ‘ میں اور دنیا کے سارے انسان اس کے کلمہ (کن) سے پیدا ہوئے ہیں اور آئندہ بھی جو مخلوق پیدا ہوگی وہ سب اس کے کلمہ (کن) کے تحت پیدا ہوگی ۔ اس لیے ہمارے ہاں مفسرین نے جو اس کلمہ (کن) اور (فیکون) سے کام لیا ہے وہ انہی کا کمال ہے ورنہ اللہ رب ذوالجلال والاکرام کے کلمہ (کن) کے سوا کسی چیز کا وجود میں آنا ممکن ہی نہیں نہ کبھی تھا ‘ نہ ہے اور نہ ہی کبھی ہوگا ۔ اس کی وضاحت ہم پیچھے سورة آل عمران کی آیت 47 ‘ سورة الانعام کی آیت 73 اور سورة مریم کی آیت 35 میں کر آئے ہیں وہاں سے ملاحظہ کرلیں ۔
Top