Maarif-ul-Quran - Hud : 15
مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا نُوَفِّ اِلَیْهِمْ اَعْمَالَهُمْ فِیْهَا وَ هُمْ فِیْهَا لَا یُبْخَسُوْنَ
مَنْ : جو كَانَ يُرِيْدُ : چاہتا ہے الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی وَزِيْنَتَهَا : اور اس کی زینت نُوَفِّ : ہم پورا کردیں گے اِلَيْهِمْ : ان کے لیے اَعْمَالَهُمْ : ان کے عمل فِيْهَا : اس میں وَهُمْ : اور وہ فِيْهَا : اس میں لَا يُبْخَسُوْنَ : نہ کمی کیے جائیں گے (نقصان نہ ہوگا)
جو لوگ دنیا کی زندگی اور اس کی زیب وزینت کے طا لب ہوں ہم ان کے اعمال کا بدلہ انھیں دنیا ہی میں دے دیتے ہیں اور اس میں انکی حق تلفی نہیں کی جاتی۔
ابطال غرہ اہل دنیا بر اعمال خود قال اللہ تعالیٰ من کان یرید الحیوۃ الدنیا ... .. الیٰ ......... بطل ما کانوا یعملون۔ (ربط) جب گذشتہ آیات میں منکرین قرآن اور منکرین توحید اور منکرین رسالت کے وعید اور عذاب کا بیان ہوا تو اب اس آیت میں اہل دنیا کے وہم فاسد اور زعم کا سد کا ابطال فرماتے ہیں اہل دنیا کو جب عذاب آخرت کی وعید سنائی جاتی تو یہ کہتے کہ اگر بالفرض والتقدیر قیامت حق ہے تو ہم بڑے بڑے نیک کام کرتے ہیں۔ غریب پروری اور صلہ رحمی اور مہمان نوازی وغیرہ وغیرہ تو ہم کو قیامت کے دن ان نیک اعمال کا ثواب ملے گا۔ جیسا کہ دوسری جگہ ہے۔ لئن رجعت الی ربی ان لی عندہ للحسنی۔ اس لیے اس آیت میں اس غرہ اور زعم کا ابطال کرتے ہیں کہ تم اس گمان میں نہ رہنا کہ تم ان اعمال پر اجر اور ثواب کے مستحق ہو ان اعمال کی صورت اگرچہ نیکی کی ہے مگر ایمان اور اخلاص کی روح سے کالی ہیں اور ظاہری اعمال حسنہ سے تمہارا مقصود صرف دنیا تھی اس لیے اس کا صلہ تم کو دنیا ہی میں مل گیا اب تمہارے لیے آخرت میں سوائے آتش دوزخ کے کچھ نہیں۔ (ربط دیگر) کہ پہلی آیت میں اسلام کی حقانیت اور قرآن کریم کا منزل من اللہ ہونا بیان کیا۔ اب اس آیت میں یہ بتلاتے ہیں کہ کفار جو اس قرآن کریم کی تکذیب کرتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ دنیا کی لذات و شہوات پر مفتون ہیں اور اسلام اور قرآن ان کو آخرت کی دعوت دیتا ہے جس کو اپنی لذات و شہوات میں حارج اور مزاحم سمجھتے ہیں۔ چناچہ فرماتے ہیں جو پست ہمت اپنے اعمال خیر کا صلہ محض دنیاوی زندگی اور آرائش چاہے یعنی نیک کام کرے فقط دنیا کا فائدہ چاہے۔ اور آخرت پر نظر نہ کرے محض دنیا کی شہرت اور نیک نامی اس کا مقصود ہو ثواب آخرت اس کا مقصود نہ ہو تو ہم ان لوگوں کے اعمال کی جزاء دنیا ہی میں پوری پوری دیتے ہیں یعنی دنیا میں ان کو مال و دولت اور عزت و وجاہت اور صحت و اولاد کی کثرت عنایت کردیتے ہیں اور دنیا میں ان کے عوض میں کوئی کمی نہیں کی جاتی ایسے لوگوں کے لیے آخرت میں سوائے دوزخ کے کچھ نہیں اور انہوں نے جو دنیا میں عمل کیا تھا وہ آخرت میں جاکر سب تباہ اور برباد ہوا اور سارا کیا کرایا اکارت گیا اور آخرت میں کچھ کام نہ آیا اور دنیا میں جو کچھ کر رہے ہیں وہ فی نفسہہ اور فی حد ذاتہ بھی نیست اور نابود ہیں کیونکہ جو عمل خالص اللہ کے لیے نہ ہو وہ فی حد ذاتہ ہیچ ہے۔ ع الا کل شیء ماخلا اللہ باطل کافروں نے دنیا میں جو ایسے عمل کیے کہ جو ظاہر صورت کے اعتبار سے صالح تھے مثلاً کسی کو نفع یا فائدہ پہنچانا۔ ایسے اعمال کے معتقل حبط ما صنعوا فرمایا۔ جن اعمال کی صورت نیکی کی تھی وہ قیامت کے دن حبط ہوجائیں گے۔ ان پر کوئی اجر اور ثواب مرتب نہ ہوگا۔ باقی حقیقت کے اعتبار سے ان کے تمام اعمال باطل اور نابود تھے فی نفسہ ان کے تمام اعمال باطل کسی شمار میں نے تھے۔ کیونکہ ایمان و اخلاص سے عاری تھے اور عجب نہیں ما کانوا یعملون۔ سے ان کے اعمال کفریہ اور شرکیہ مراد ہوں تو ایسے اعمال کا صورت اور حقیقت کے اعتبار سے باطل اور لغو ہونا ظاہر و باہر ہے ایسے اعمال کے متعلق فرمایا۔ و بطل ما کانوا یعملون۔ اور گذشتہ آیت یعنی وحبط ما صنوا۔ میں وہ اعمال مراد ہیں جو بظاہر خیر اور بھلائی کے ہیں جیسے صدقہ اور صلہ رحمی اور مہان نوازی کافروں کے۔ ایسے اعمال قیامت کے دن حبط ہوجائیں گے۔ یعنی ان پر کوئی اخری ثواب نہ ملے گا البتہ یہ ممکن ہے کہ ان اعمال حسنہ کی بنا پر کافروں کے عذاب دوزخ میں تخفیف کردی جائے جیسے ابو طالب کے حق میں آیا ہے کہ جہنم میں سب سے خفیف عذاب ابو طالب کو ہوگا۔ ثواب ملنا اور چیز ہے اور عذاب میں تخفیف ہوجانا اور چیز ہے۔ شان نزول : اس آیت کے نشان نزول میں مختلف روایتیں آئی ہیں کہ یہ آیت کافروں اور مشرکوں کے بارے میں ہے یا یہود و نصاری کے بارے میں یا منافقوں کے بارے میں یا اہل ریاء کے بارے میں ہے صحیح قول یہ ہے کہ یہ آیت عام ہے جو سب کو شامل ہے اور مطلب یہ ہے کہ کافر ہو یا منافق یا ریاء کار جو بظاہر نیک عمل کرتے ہیں اس کا بدلہ ان کو دنیا ہی میں دے دیا جائے گا۔ اور آخرت میں سوائے نار کے اور کچھ نہیں ملے گا لہٰذا ان کو چاہئے کہ اپنی اس دنیاوی نیکی کے بھروسہ پر نہ رہیں اور یہ خیال نہ کریں کہ آکرت میں بھی ہماری یہ نیکیاں کام آئیں گی۔ آخرت میں سوائے اخلاص کے کچھ کام نہ آئے گا۔
Top