Maarif-ul-Quran - Ibrahim : 28
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ كُفْرًا وَّ اَحَلُّوْا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِۙ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : کو الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے بَدَّلُوْا : بدل دیا نِعْمَةَ اللّٰهِ : اللہ کی نعمت كُفْرًا : ناشکری سے وَّاَحَلُّوْا : اور اتارا قَوْمَهُمْ : اپنی قوم دَارَ الْبَوَارِ : تباہی کا گھر
کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے خدا کے احسان کو ناشکری سے بدل دیا۔ اور اپنی قوم کو تباہی کے گھر میں اتارا ؟
مذمت کفار و مشرکین و مدح مومنین صالحین قال اللہ تعالیٰ الم تر الی الذین بدلوا نعمت اللہ کفرا .... الیٰ .... ان الانسان لظلوم کفار یہ آیت کفار مکہ کے حق میں نازل ہوئی جن پر اللہ تعالیٰ نے طرح طرح کے انعامات کیے اور ان کی ہدایت کے لیے محمد رسول اللہ ﷺ کو مبعوث کیا جنہوں نے شجرہ طیبہ کی دعوت دی اور شجرہ خبیثہ کی مضرتوں سے آگاہ فرمایا مگر ان لوگوں نے اس نعمت کی ناشکری کا اور بجائے اس کے کہ منعم حقیقی کی شکر گزاری اور اطاعت شعاری کرتے اس کی ناشکری پر کمر بستہ ہوگئے اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے قل لعبادی الذین امنوا میں اپنے خاص بندوں کو مراہم عبودیت بجا لانے کی تلقین فرمائی کہ تم اپنے منعم حقیقی کی اطاعت اور عبادت میں لگے رہو اور ان کفار ناہنجار کی طرح ناشکرے نہ بنو کیا اے دیکھنے والے تو نے ان ظالموں کو نہیں دیکھا جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے احسان کو ناشکری سے بدل ڈالا کہ اللہ نے ان کی ہدایت کے لیے ایک رسول ﷺ کو مبعوث فرمایا جس نے ان کو شجرہ طیبہ کی دعوت دی اور شجرہ خبیثہ کو اختیار کیا خود بھی تباہ ہوئے اور اپنی قوم کو بھی تباہی کے گھر میں جا اتارا۔ یعنی شجرہ طیبہ کے بدلے شجرہ خبیثہ کھلایا جسے کھا کر وہ جہنم میں داخل ہوں گے اور وہ بہت بری قرار گاہ ہے اور ان ظالموں نے تبدیل نعمت پر اکتفا نہیں کیا بلکہ منعم کو بھی بدل ڈالا کہ اللہ جو منعم حقیقی تھا اس کے ہم سر بنائے اور اس کے شریک ٹھہرائے تاکہ لوگوں کو خدا کی راہ سے بھٹکا دیں اے نبی ﷺ ! آپ ان سے یہ کہہ دیجئے کہ اچھا چند روز فائدہ اٹھا لو اور دنیا میں خوب مزے اڑا لو۔ پس تمہارا آخری ٹھکانہ جہنم ہے۔ یہ تہدید اور وعید ہے اور یہ ایسا ہے جیسے کوئی طبیب کسی بدپرہیز سے کہے کل ما شئت فانہ جاءک الموت (اچھا تو جو چاہے کھا تیرا انجام موت اور ہلاکت ہے) کفار و فجار کی اس تہدید و وعید کے بعد اپنے خاص بندوں کو ہدایت فرماتے ہیں اے نبی آپ میرے بندوں سے کہہ دیجئے جو میرے خاص بندے ہیں درہم و دینا کے بندے نہیں جو مجھ پر ایمان لائے ہیں اور ان کو یقین ہے کہ دنیا فانی ہے اور چند روزہ ہے ان سے کہہ دیجئے کہ وہ نعمت الٰہی کی شکر گزاری میں لگے رہیں کہ نماز پڑھتے رہیں جو دین کا ستون ہے اور کفرو اسلام کے درمیان فارق ہے اور جو روزی ہم نے ان کو دی ہے اس میں سے کچھ راہ خدا میں خرچ کرتے رہیں پوشیدہ اور ظاہر خدا کی راہ میں خیرات کرنا یہ مالی شکر ہے بہر حال جان اور مال سے اللہ کی نعمت کے شکر میں لگے ہیں ایسے دن کے آنے سے پہلے کہ جس میں نہ خریدو فروخت ہو سکے گی اور نہ کوئی دوستی چل سکے گی یعنی آخرت میں کوئی فدیہ قبول نہ ہوگا اور نہ کسی کی دوستی کام آوے گی اس دن کے آنے سے پہلے جو کچھ کرنا ہے وہ کرلو یہاں تک ان لوگوں کا ذکر تھا جنہوں نے خدا کی نعمت کی ناشکری کی اور اس کے لئے شرکاء تجویز کیے اب آئندہ آیت میں منعم حقیقی کے اوصاف بیان کرتے ہیں کیونکہ سب سے بڑی نعمت منعم حقیقی کی معرفت ہے اور منعم حقیقی کی ذات وصفات کی معرفت ہی سعادت کبریٰ ہے اس لیے آئندہ آیات میں منعم حقیقی کے دس اوصاف بیان کرتے ہیں۔ (1) اللہ پاک وہ ہے جس نے آسمانوں کو پیدا کیا۔ (2) اور زمین کو پیدا کیا اور آسمانوں کو تمہارے لیے چھت بنایا اور زمین کو تمہارے لیے فرش بنایا۔ (3) اور آسمان سے پانی اتارا جو تمہاری زندگی کا سامان ہے کما قال تعالیٰ وجعلنا من الماء کل شیء حتی پھر اس سے تمہارے کھانے کے لیے پھل نکالے۔ (4) اور پھر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کے لیے تمہارے لیے کشتیوں کو مسخر کیا تاکہ وہ تم کو اللہ کے حکم سے دریا میں لے کر چلیں جن کے ذریعہ تم تجارت وغیرہ کرسکو۔ (5) اور تمہارے نفع کے لیے نہروں کو مسخر کیا کہ جس طرح چاہو ان سے فائدہ حاصل کرو۔ (6) اور مسخر کیا تمہارے لیے آفتاب کو۔ (7) اور مسخر کیا تمہارے لیے چاند کو کہ دونوں ایک طریقہ پر برابر چلتے ہیں اور دونوں سے تم کو ہزاروں فوائد حاصل ہوتے ہیں کھیتوں اور پھلوں کا پکنا اور حساب وغیرہ کا تعلق انہی دونوں سے ہے۔ (8) اور مسخر کیا تمہارے لیے رات کو تاکہ تم آرام کرو۔ (9) اور مسخر کیا تمہارے لیے دن کو تاکہ تم اپنے کاروبار کرو۔ (10) اور ان کے علاوہ دیا تم کو اس قدر بیشمار ہیں کہ اگر تم ان کو شمار کرنا چاہو تو شمار میں نہیں لاسکتے اگر اپنے اعصاب و ماغیہ میں اور ان کے آثار میں غور کرے کہ ہر ایک میں کیا کیا نعمتیں مضمر ہیں تو شمار نہیں کرسکتا بلکہ ایک ہی لقمہ میں اگر غور کرے کہ کس طرح حلق سے نیچے اترا اور کس طرح خون بنا اور کس طرح پاخانہ بنا تو اس کی حقیقت اور کنہ کو نہیں پہنچ سکتا ہے بیشک انسان بڑا ہی ظالم اور بڑا ہی ناشکرا ہے کہ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو بےمحل استعمال کرتا ہے نعمت دینے والے کے حق کو نہیں پہچانتا اور نعمت کا شکر تو کیا کرتا بلکہ اس کے ساتھ دشمنی کا معاملہ کرتا ہے آنحضرت ﷺ کا وجود باجود کمال درجہ کی نعمت تھا اس کی دشمنی میں لگے ہوئے ہیں۔
Top